زندگی ہم تجھے گزاریں گے/ ثاقب الرحمٰن

جب میرا بلڈ کینسر معلوم ہوا تو دسمبر کی آٹھ تاریخ تھی۔
اس کے بعد بارہ دن یہ جاننے میں لگ گئے کہ کینسر کی کون سی قسم ہے۔ بیس دسمبر کو تفصیل ملی تو چاچا گوگل سے راہنمائی لینی چاہی۔ سرکار نے کہا کہ مہلک ترین کینسر یہی ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس دن بھی اکیلا ڈرائیو کر رہا تھا، شاہراہ فیصل سے بہادر آباد پہنچا تو اچانک ہنسی  نکل گیا۔۔۔ کیا مطلب بلڈ کینسر۔۔ وہ بھی سب سے خطرناک والا۔۔ مجھے۔۔ یعنی میں۔۔ ہنسی کے فوارے چھوٹے، دائیں آنکھ سے اکلوتا آنسو ساتھ ہی چھلکا۔۔

گھر پہنچا سب کو جمع کیا مسکراتے ہوئے غبار خاطر عرض کیا، انہیں لگا مذاق ہو رہا ہے، پھر سنجیدہ ہو کر بتایا، تب انہیں یقین آیا۔ اس سے پہلے کہ وہ افسردہ ہوتے انہیں سمجھایا کہ مکمل سو فیصد علاج ممکن ہے۔ ماننے کے سِوا اِن کے پاس کیا چارہ تھا، پس وہ مان گئے۔ زندگی میں جو دوست کمائے وہ کام آئے۔ جو معالج چنُا وہ بہترین نکلا، جو راہ اپنائی وہ سمپورن رہی۔ چار پانچ ہسپتال دیکھے، موازنہ کیا، کچھ ہسپتالوں میں قصائی تھے، کہیں کہیں مجبور مسیحا بھی ملے۔۔ قرعہ فال BMTC راولپنڈی کے حصّے میں آیا۔ سوچا یہ پنڈی ہے، اچھے اچھے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔۔ تو ہفتے بھر میں جہاز پکڑا اور ہوا کے دوش پر راجدھانی پہنچ گیا۔

نئے سال کی آتش بازی ہسپتال کے کمرے سے دیکھی۔ اس دن کمر سے ہڈی کا گودا نکالا جا چکا تھا۔ شگاف مگر موجود تھا ،اور شہہ رگ میں ایک ستم ظریف ڈاکٹر نے پائپ ڈال کر آخر میں ٹونٹی لگا رکھی تھی۔ یہ پائپ سیدھا دل کو جاتا تھا جو بہت کارآمد ثابت ہُوا۔ اس شہہ رگ میں سموئے گئے پائپ نے بازوؤں اور کلائیوں کو لاتعداد شگافوں سے بچائے رکھا۔ سات دن تک لگاتار ڈرپ کے ذریعے کیموتھیراپی جاری رہی۔ یہ ایک طرح کا تیزاب تھا جس نے جسم بھر کا خون آہستہ آہستہ جلا دینا تھا۔ آس یہ تھی کہ اگلا خون کینسر سے پاک نکلے گا۔ درد بہت تھے جو مسکرا کر پچھاڑ لئے۔ ایک رات موت کا ننگا ناچ دیکھا تو صبح چھ بجے تحریر لکھ ڈالی۔ موت کی دیوی اور زندگی کی محبوبہ کا منظر نامہ کھینچا۔ جو نہیں جانتے تھے انہوں نے کہا کمال تخیّل  ہے۔ سچا واقعہ تھا کمال ہی ہونا تھا۔ کیموتھیراپی سے خون جلایا گیا تو پچیس دن کے لئے نظر بندی مقدر ہو گئی۔
نہ تن میں خون فراہم، نہ اشک آنکھوں میں
نماز ِشوق تو واجب ہے ،بے وضو ہی سہی۔۔

باہر کی ہَوا تو دور، کوئی چہرہ تک دیکھنے کی اجازت نہ رہی۔ یہ قید انوکھی تھی۔ بستر کے بائیں جانب ایک شیشہ تھا۔ جس میں سامنے کی عمارت پر کبھی دھوپ نظر آتی کبھی آسمان پر موجود بادل چھاؤں کرتے نظر آتے۔ ایک دن بارش دیکھی تو قطرے چھونے کا بہت ارمان کیا۔ تنہائی کے بارے میں لکھا ،جزیرے پر تنہا آدمی، چاند پر جانے والا خلاباز اور معدوم ہوتی نسل کا آخری پرندہ لکھ ڈالا۔ وہاں تنہا صرف مَیں تھا۔ باقی تو مَن لُبھانے کے بہانے تھے۔ اس کینسر وارڈ میں سب کے اپنے کمرے تھے۔ برابر کمرے سے بچے کے رونے کی آوازیں آتی تھیں۔ اس کے مرنے کی خبر آئی، تب لگا یہ نازی جرمنی کا کیمپ ہے۔ بچہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہُوا تو تحریر لکھ ڈالی۔

سوچا تھا کسی کو اپنی تکلیف میں شریک نہیں کرونگا مگر خون کی ضرورت آن پڑی۔ تب محسن کام آئے ،دوستوں نے سوشل میڈیا کا استعمال کیا۔ میرا نام نہ لیا مگر کام پورا کر دیا۔

دوست کمال کے نکلے۔۔ بال جھڑے تو ویڈیو کال پر دوست نے کہا کہ گنجے ہو گئے ہو مگر فکر نہ کرنا پہلے کون سے ٹام کروز تھے۔ داڑھی کے بال بھی جھڑے تو رامی دوست نے دیگر ناقابل بیان اعضاء کے بالوں بارے استفسار کر کے ہنسا دیا۔ علاج کے دوران ہمارے پورے  جسم کا نیٹ ورک ڈاؤن تھا اور ایک جانِ من انٹینا کے سگنلز کے بارے میں جاننے پر بضد تھا۔ گھر والے وٹس ایپ پر گروپ بنا کر لاکھوں کی تعداد میں رشتہ داروں سے وظائف و مناجات اینٹھنے میں مصروف عمل رہے۔ باقاعدگی سے روز پڑھے جانے والے اذکار کا بہی کھاتا موصول ہوتا۔ رات کو میسج وصول ہوتا کہ 23ہزار بار “یاسلام” پڑھ لیا گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر نہیں بتایا۔ کیونکہ ہزار چاہنے والے انباکس میں بہ یک زبان دعا دیتے یا خیریت پوچھنے آ جاتے، دونوں صورتوں میں پریشانی رہتی۔ درد اتنا تھا کہ ہر رگ میں تھا محشر برپا، ایسے میں چاہنے والوں سے کیسے بات ہوتی۔

اب ہفتہ ہُوا کچھ بہتر ہوں۔ خون دوبارہ بڑھ چکا ہے تندرستی لوٹ آئی ہے مگر کینسر اب بھی موجود ہے۔ اس بھٹی سے دوبارہ گزرنا ہو گا اور شاید سہ بارہ بھی گزرنا پڑے۔ یہ ایک دو دن کی کہانی نہیں، چالیس دن کا قصہ ہے۔ کتنی ہی یادیں ان دِنوں سے جُڑی ہیں۔ ڈاکٹروں سے مکالمے، اپنے جیسے مریضوں کی زندگی، ہارتے لوگوں کی فریاد اور کامیاب ہو کر گھر جاتے ہوؤں کی خوشی یہ سبھی اِن چالیس دن کا حصّہ ہیں۔ البتہ اس دوران مجھ پر جو وحی اُتری اس کا تذکرہ کبھی پبلک نہیں کیا جائے گا۔ وہ ہمارے اولیاء ٹائپ دوستوں تک محدود سہی۔ وقتاً فوقتاً تمہیں قصّے سناؤں گا۔ دنیا کی بےثباتی، فطرت کی سفّاکی، خداؤں کی مجبوری اور ٹیکنالوجی کے کرشمے بتاؤں گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ بلڈ کینسر AML میرے سینے کا تمغہ ہے۔ خبردار جو کسی نے اس پر افسوس کا اظہار کیا۔۔ یہ میرا استاد ہے اور اساتذہ سے بھی کوئی خائف رہتا ہے کیا؟

Facebook Comments

ثاقب الرحمٰن
چند شکستہ حروف ، چند بکھرے خیالات ۔۔ یقین سے تہی دست ، گمانوں کے لشکر کا قیدی ۔۔ ۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply