• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ​شعر مرزا غالب کا، نظم ستیہ پال آنند کی۔اورشمس الرحمن فاروقی کا تبصرہ

​شعر مرزا غالب کا، نظم ستیہ پال آنند کی۔اورشمس الرحمن فاروقی کا تبصرہ

قفس میں ہوں گر اچھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو
مرا ہونا برا کیا ہے نوا سنجان ِ گلشن کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظم
ستیہ پال آنند
جو اک تصویر سی بنتی ہے، قبلہ، وہ فقط یہ ہے
۱) کہ مجبوری کا مارا، پر شکستہ میں قفس میں ہوں
۲) میں اکثر نالہ و شیون میں خود کو محو رکھتا ہوں
۳) مرے وہ بے تکلف دوست جو آزاد اُڑتے ہیں
۴) وہ میرے رونے دھونے کو برا تسلیم کرتے ہیں
۵) کوئی اتنا تو پوچھے ان ’’نوا سنجان ِ گلشن‘‘ سے
۶) قفس میں بھی مرا ہونا گوارا کیوں نہیں ان کو؟

مرزا غالب
صحیح و راست ۔۔۔جیسے سیڑھیاں ہوں، سیدھارستہ ہو

ستیہ پال آنند
اب اس پرغور فرمائیں ، قفس میں گر یہ حالت ہے
تو جب آزاد تھا شاعر، تو اکثر یہ بھی کہتا تھا
’’نہ جانوں نیک ہوں یا بد ہوں پر صحبت مخالف ہے
’’جو گل ہوں تو ہوں گلخن میں ، جو خس ہوں تو ہوں گلشن میں‘‘
تو گویا نالہ و شیون تو اک دیرینہ عادت ہے
تو کیا اس وقت بھی یہ دوست اس پر تلملاتے تھے

مرزا غالب
یقینا ً ، ستیہ پال آنند، تم بہتر سمجھتے ہو
یہ سب تو نام کے ا حباب ہیں، بے مہر ، بد اندیش

ستیہ پال آنند
مگر، میرے کرم فرما ، حوالہ کوئی تو ڈھونڈیں
کہ جو اثبات میں تصدیق کرتا ہو شواہد کی
کہ دلّی شہر تو ہے پر یہ اک ایسا قفس بھی ہے
کہ جس میں آپ، قبلہ، عہد ِ گزراں سے مقید ہیں
کہا تو تھا یہی کچھ آپ نے ایک شعر ِ ِ دیگر میں
قمر در عقر ب و غالب بہ دہلی
سمندر در شط و ماہی در آتش

مرزا غالب
عزیزم ، میں بھلا جھٹلائوں گا کیوں اس حقیقت کو
کہ خود میں نے کہا تھا فارسی میں عین ایسا شعر
(رمل میں ہے، اسے اُس بحر میں دیکھیں، عزیز ِ من)
بود غالب عندلیبے از گلستان ِ ِ عجم
من ز غفلت طوطی ٗ ہندوستاں نامیدمش

ستیہ پال آنند
تو، قبلہ، شعر میں ’’دلّی‘ ‘ قفس کا استعارہ ہے
عجم، (ایران) ہی تو آپ کا اصلی گلستاں ہے
یقینا ً آپ کا شیون بجا ہے اس حوالے سے
’’نوا سنجان ِ گلشن ‘‘ کون ہیں پھر آپ کے دشمن؟

مرزا غالب
عزیزم، نام مت گنوائو مجھ سے ان حریفوں کا
یہ سب جاسوس ہیں قلعے کے باہر پہرہ دیتے ہیں
کچھ اک شاعر بھی ہیں، استاد بھی، شاگرد بھی، لیکن
سبھی ہیں نا موافق، بر سر پرخاش، متنازع
مرے ان سے مراسم صلح کیشی کے نہیں ، بھائی
فقط صاحب سلامت ہے ۔ فقط رسمی تعلق ہے
ستیہ پال آنند
چلیں تحریر میں اب منضبط تو ہو گئی یہ بحث
یہی کافی ہے ہم غالب شناسوں کے لیے، قبلہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تبصر ہ شمس الرحمن فار وقی کا
————-
(اس طویل مکتوب میں بہت سے ذاتی ، شخصی اور غیر متعلق موضوعات پر ایسا مواد بھی تھا جس کی تشہیر سے نہ صر ف کچھ لوگوں کی دل شکنی ہوتی، مر حوم کی نیک ر وح کو بھی تکلیف ہوتی کہ ایک دوست نے ان کی وفات کے بعد ان کے اعتماد کو مجروح کیا۔ ا س لیے صرف وہی چیدہ چیدہ جملے ، جو اس شعرکی براہ راست تشریح کے حامل ہیں، پیش کیے جا رہے ہیں۔ (ستیہ پال آنند)
————-

شعر میں جو مفروضہ پیش کیا گیا ہے، وہ یہ ہے۔
٭۔متکلم قفس میں ہے، یعنی اس کی آزادی سلب کر دی گئی ہے
٭۔ قفس میں بھی وہ گریہ کناں ہے، بلند آواز میں روتا رہتا ہے
٭۔ تو بھی “نوا سنجانِ گلشن” کو اس کا نالہ و شیون پسند نہیں
٭۔ تسلیم کہ انہیں اس کا رونا دھونا
پسند نہیں، لیکن اس کا وجود تک انہیں گوارا نہیں ہے

Advertisements
julia rana solicitors

آپ نے اپنی نظم میں کچھ عوامل ایسے شامل کیے ہیں، جن کا ذکر شعر میں نہیں ہے۔ مثلاً یہ کہ قلعے کے اندر اور باہر انگریزوں کے جاسوس منڈلاتے رہتے ہیں ۔ یہ لوگ نہ صرف بادشاہ کی پل پل کی خبر انگریز حکام تک پہنچاتے ہیں، بلکہ اس کے وفادار درباریوں کی بھی خبر رکھتے ہیں۔ غالب تو قفس ، یعنی اپنے گھر میں مقیم ہے، اس کا رونا دھونا اسی چار دیواری کے اندر ہے، تو بھی یہ لوگ اس کے وجود کے شاکی ہیں۔
یہ سب کہاں ہے؟ بندہ پرور، یہ سب آپ کی اپنی اختراح ہے۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply