اٹلی ہے دیکھنے کی چیز(قسط9)ب۔۔سلمیٰ اعوان

وہ حیران  رہ گیا تھا جب اُسے خط ملا۔کیٹس بیمار تھا۔اُسے تپ دق تھی۔ڈاکٹروں ے اُسے روم جا ے اور وہاں رہ ے کا مشورہ دیا تھا کہ یہاں کی آب و ہوا اُس کیلئے صحت کی پیامبر ب سکتی ہے۔وگر ہ ل د کی سردی اُسے مار دے گی۔اُسے شاعر کیلئے روم میں گھر لے ے اور اُسے ایٹی ڈ کر ے کی درخواست تھی۔
اور یہ سیور تھا اور یہی وہ گھر تھا جہاں وہ اُسے لے کر آیا اور اُس کی رس ب ا۔
اُسے لا ے اور اسکی خدمت گیری کر ے میں اس کی فیملی کے بہت سے لوگوں کی مخالفت تھی۔سب سے بڑا مخالف تو باپ تھا جس ے بھّ اتے ہوئے اُسے کہا تھا۔
”تم پیشہ ور آدمی ہو۔سیکھ ے کیلئے روم گئے ہو۔کیسے اُسے وقت دو گے؟اپ ا قصا کرکے اور سب سے بڑی بات وہ بیمار ہے۔چھوت کی یہ بیماری تمہیں لگ گئی تو کیا ب ے گا؟بازآؤ اس سے۔مگر اُس ے ہ کچھ سُ ا اور ہ کچھ سوچا۔
چارماہ کا یہ وقت اگر کیٹس کیلئے تجربات اور دوستوں رشتوں کی پہچا کاتھا کہ کو سے ایسے کڑے وقت اس کے ساتھ کھڑے تھے اور کون سے کان منہ لپیٹ کر روپوش ہوگئے تھے۔تو یہ بھی قابل ذکر بات تھی کہ سیورن اپنی شخصیت کی بھرپور خوبیوں کے ساتھ اُبھر کر اس کے سامنے آیا تھا۔یہی سیورن جسے کیٹس نے کبھی اہمیت ہی نہ دی تھی۔
پہلی باروہ اُس کے قریب ہوا۔دل کے قریب اور جانا کہ فینی براؤن Browneسے علیحدگی کے غم نے کیسے کیٹس کو غموں کے پاتال میں پھینک دیا تھا۔
وہ کبھی کبھی اُس سے کہتا تو جب میں ٹھیک تھا،تندرست تھاوہ مجھ سے محبت کرتی تھی۔اور جب میں بیمار ہوا اُس کی محبت کہاں گئی؟
کچھ باتیں پھر یادوں میں اُبھری ہیں۔اپنے کِسی خط میں سیورنSevernجوزف نے لکھا تھا۔ابھی ابھی وہ سویا ہے۔میرے لئیے ہر دن اُسے نمک کی طرح گُھلتے دیکھنا کتنا تکلیف دہ ہے؟شاید اگلے ماہ بہت بُری خبر کے ساتھ طلوع ہو۔جب میں اُسے لیکر چلا تھا تو مجھے اس کی صحت یابی کا یقین تھا۔مگر اب؟
ہاں پیسے بھی ختم ہوگئے ہیں۔آخری چند کراؤن ہی رہ گئے ہیں۔بل واپس آگیا ہے۔بیکر نے چیزیں دینے سے انکار کردیا ہے۔میرے لئیے باہر نکلنا اور دو گھنٹے کیلئے پینٹنگ سے کچھ کمانا ناممکن ہوگیا ہے کہ اُسے میری چند لمحوں کی دوری بھی برداشت نہیں۔کِس امید کا پلّہ اُسے پکڑاؤں۔یہ بہت اذیت میں ہے۔اس کا خدا پر یقین اور ایما ن تو پہلے ہی نہیں تھا۔چلو عقیدے کی مضبوطی اور توانائی بھی کہیں تکلیف کی شدت میں کمی کا باعث بن جاتی ہے۔ اگر کچھ کہتا ہوں تو لعن طعن ُسنتا ہوں۔اب مجھے تو سمجھ نہیں آتی ہے کہ میں کیسے اس کے زخموں پر پھاہا رکھوں۔اور ہاں دیکھو نا زندگی کا کوئی فلسفہ،مذہب کی کوئی تھیوری کِسی نہ کِسی حوالے سے مُطمیئن کرنا اور مُطمیئن ہونا بھی کتنا ضروری ہے؟
آنکھیں پھر کہیں وقت کی ٹنل میں گُھس کر ایک اور منظر سامنے لے آئی ہیں۔نڈھال سا ایک جسم۔ایک کمزور شکستہ سی آواز کمرے کے سناٹے میں ذرا سا شور کرتی ہے۔
”میرا دل اس وقت کیفے Greco میں کافی پینے کو چاہ رہا ہے۔ چلو وایا ڈی کون ڈوٹیVia dei condotti چلتے ہیں۔“
سیورن نے جنوری کی اِس یخ بستہ شام میں اُسے دھیرے دھیرے سیڑھیاں اُترنے میں مدد دی۔یہ بھی محسوس کیا کہ اُس کی صحت بہتر ہونے کی بجائے زیادہ خراب ہورہی ہے۔کافی کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ پیتے ہوئے اُس نے کھڑکیوں سے باہر دیکھتے ہوئے کہاتھا۔
”جانتے ہو شیلے اور بائرن جب بھی روم آئے اسی کیفے میں کافی پینے آتے ہیں۔سیورن شیلے بھی کیا کمال کا شاعر ہے۔“
اور جب وہ بائرن اور شیلے کے ساتھ اپنی محبتوں کا ذکر کرتا تھا۔اُس نے بہت سے اور اپنے گہرے دوستوں کے نام لینے سے گریز کیا تھا۔اب ہانٹ کی بیوی کو تپ دق ہے۔ اس کے ڈھیرسارے بچے ہیں اور اس پر قرضوں کا بوجھ ہے۔اُس نے اپنے خوبصورت سر کو مایوسی سے”ہونہہ“ کے سے انداز میں ہلایا تھا۔ بچنے اور جان چھڑانے کے کتنے خوبصورت بہانے ہیں۔لیکن یہی تو وہ کڑا مقام ہے جہاں پرکھ کی کسوٹی پر رشتے اور تعلقات پہچانے جاتے ہیں۔
اٹھنے سے قبل اسنے کہا تھا۔
”Leigh Hunt کی یاد نے مجھے مضطرب کر دیا ہے۔ مگرسیورن تمہیں تو میں جان ہی نہ سکا کہ تم کتنے عظیم ہو۔“
اس کی آنکھیں احساس جذبات نے بھگودی تھیں۔
کیفے ہاؤس کا پرانا بوڑھا اب Saxo phone بجارہا تھا اور وہ دھیمے دھیمے When I have fears کو گنگنانے لگا تھا۔
When I have fears that I may cease to be
Before my pen has glean’d my teeming brain
اُس کی صحت دن بدن گرتی جارہی ہے۔کتنا بدمزاج اور چڑچڑا ہوتا جارہا ہے۔گالیاں نکالتا ہے۔ہربات کو شک و شبے کی نظرسے دیکھتا ہے۔
ابھی ایک نئے منظر نے دروازہ کھولاہے کمرے میں شور ہے۔کیٹس ہاتھوں میں پکڑے تکیے کو کبھی بیڈ کی پائنتی،کبھی اسکے سرہانے اور کبھی کمزور ٹانگوں پر مارتے ہوئے اپنے حلق اور پھیپھڑوں کی پوری طاقت سے چلاتے ہوئے کہتا ہے۔
”تمہیں کیا تکلیف ہے آخر۔میرے لئے عذاب بن گئے ہو۔
مرنے دو مجھے۔لوڈونم Laudanumکی شیشی تم نے کہاں چُھپا دی ہے؟ذلیل انسان کیوں نہیں دیتے ہو مجھے۔کیا کرنا ہے مجھے زندہ رہ کر۔“
اُس کا سانس اکھڑنے لگا ہے۔بلغم حلق سے جیسے اُبلنے لگی ہے۔سیورن نے فوراً بڑھ کر اُسے کلاوے میں بھر کر اس کا سرجھکاتے ہوئے کہا ہے۔
”پھینکو اسے،نکالو اندر سے۔“
اس کے بازوؤں میں نڈھال سا وہ پھر ضدی بچے کی طرح کہتا ہے۔
”مرنے دو مجھے۔“
اور پھر وہ کسی کٹی شاخ کی طرح اس کے بازوؤں میں جھولنے لگا ہے۔اس نے دھیرے سے اُسے لٹا دیا ہے۔سانس کیسے چل رہا ہے۔آنکھیں بند ہیں۔ چہرہ پسینے سے تر ہے۔ سیورن اس کے بیڈ پر بیٹھا اس کے چہرے پر نگاہیں جمائے سوچے چلے جارہا ہے۔ سوچے چلا جا رہا ہے۔
بہت سے اور دن گزر گئے ہیں۔ ہر دن اُسے موت کی طرف لے جا رہا ہے۔ایسی ہی ایک غم زدہ اور المناک صبح میں وہ سیورن کو ہیجانی انداز میں کہتا ہے۔
”مجھے تھام لو۔ ڈرو نہیں۔ دیکھو موت مجھے لینے کے لئے آگئی ہے۔ میرے جسم کی پور پور میں درد ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ سانس جیسے میری پسلیوں میں ٹھہر گیا ہے۔ میرے اندر شاید اب کچھ نہیں۔ خون کا قطرہ بھی نہیں۔
شیشوں سے باہر کی دُنیا میں کتنی چہل پہل ہے؟کتنے رنگ کھلے ہوئے ہیں۔یہاں اندر کتنا سناٹا اور کتنی خاموشی ہے؟
کچھ اور دن گزرگئے ہیں۔ موسم نے تھوڑی سی انگڑائی لی ہے۔ لنڈ منڈدرختوں پر سرسبز روئیدگی پھوٹ رہی ہے۔ سیورن بے چین اور مضطرب ہے۔ اُسے محسوس ہوتا ہے جیسے اُس کا سانس کہیں اٹکا ہواہے۔ بس کسی لمحے کا منتظر ہے۔اوریہ لمحہ بالاخرتئیس (23) فروری کی شب کو جب سیورن نے اُسے اپنے کلاوے میں بھرکر چھاتی سے چمٹا یا تو معلوم بھی نہ ہوا کہ کب اُس کے اندر سے کوئی چیز نکلی اور پھُر سے بند کھڑکیوں کی کسی چھوٹی سی درز سے باہر نکل گئی۔
خوبصورت کمروں کے ایک پھیلے ہوئے سلسلے میں گُھستے ہوئے بے اختیار ہی میں نے سوچا تھا تھا کہ زندگی میں جن چیزوں کیلئے بندہ سِسکتا ہوا مرجاتا ہے۔موت بعض اوقات کتنی فیاضی سے وہ سب کچھ اُسے دان کردیتی ہے۔یہ سب جو یہاں بکھرا ہوا ہے اسکے لافانی ہونے کی خواہش کا عکاس ہی تو ہے۔
یہ سیورن کا کمرہ ہے۔اُن تصویروں کے پاس کھڑی ہوں جو کیٹس کے بھائیوں کے پوٹریٹ ہیں اور جنہیں سیورن نے بنائے۔فینی براؤن کے پوٹریٹ کو بہت دیر دیکھا ہی نہیں اُس سے باتیں بھی کیں۔
”کبھی تم نے اپنے مقدر پر رشک کیا۔تم عام سے گھر کی عام سی لڑکی جسے شاعر کی محبت نے کتنا خاص بنادیا کہ انجانی سرزمینوں اور دوردیسوں کی لڑکیاں اور عورتیں شاعر کو پڑھنے والے مرد اور لڑکے تم سے محبت اورنفرت کے ساتھ ساتھ تم پر رشک بھی کرتے ہیں۔
Leigh Huntاور ولیم ورڈز ورتھ کے پوٹریٹ۔کیٹس کا لائف ماسک اور اس کی نظموں کے پہلے ایڈیشن یہاں ہیں۔
بڑے کمرے میں کرسیاں،تصویریں،خوبصورت فرش،چھت کو چھوتی الماریاں،دنیا بھر کے رومانی لٹریچرکے خزانوں سے بھری ہوئیں۔ نادر اور نایاب چیزوں سے سجی ہوئیں۔ چھوٹا سا دروازہ ساتھ کے کمرے میں کھلتا ہے۔شوکیسوں میں اسکے سکرپٹ،فریم کئیے ہوئے خطوط، ڈرائینگز کیٹس کی مدح میں ایک سونیٹ،اسکے سنہری بال،فینی کی انگوٹھی،آسکروائلڈ کی تحریر، والٹ وٹمین Walt Whitman کی ذاتی لکھائی میں لکھا گیا مضمون۔ماسک جیسے بائرن نے venetian carnival پر پہنا۔الزبتھ Barrettکا تعریفی خط اور خوبصورت سینریاں سب ماحول کو اُس مخصوص فضا میں لے جاتے ہیں۔مجسمے اور دیدہ زیب فرنیچرشان میں مزید اضافے کا موجب ہیں۔
اِسے میوزیم بنادینے کی داستان بھی بڑی عجیب ہے۔
وہ کمرے جن میں کیٹس اور سیورن رہے تھے اُن میں 1903میں امریکی لکھاریوں کا ایک جوڑا ماں بیٹاجمینروال کوٹ Walcott یہاں ٹھہرے اور انہوں نے یہاں کافی وقت گزارا۔دونوں کو بڑا تجسّس تھا۔کمروں کی حالت ناگفتہ بہہ تھی۔خاتون اسے خریدنا اور ایک یادگار کے طور پر محفوظ کرنے کی حددرجہ خواہش مند تھی۔جذبے بڑے طاقتور تھے مگر پیسہ پاس نہیں تھا۔
انہی دنوں ایک امریکی شاعر رابرٹ انڈروڈ جانسن نے اسے دیکھا اس کی ابتر حالت نے اسے بہت متاثر کیا۔روم میں رہنے والے بہت سے امریکیوں کو اس نے آواز دی۔ان کاوشوں نے برطانوی ڈپلومیٹ رینل روڈ(Rennell Rodd) کی توجہ کھینچی۔اُس نے اس اجلاس کی صدارت کی۔جس نے گھر خریدنے اور اس ادبی ورثے کو محفوظ کرنے کی حکومتی سطح پر کاوشیں کی تھیں۔
1906میں اسے ایڈورڈ ہفتم کی مالی اعانت سے خریدا گیا۔
دوسری جنگ عظیم میں بھی اسے نازیوں کے ہاتھوں محفوظ کرنے کی حددرجہ کوششیں ہوئیں۔
چھوٹے سے سینما گھر میں لوگ بھرے ہوئے تھے۔تھوڑی دیر ڈاکومنٹری دیکھی۔گفٹ شاپ میں کتابوں کی قیمتوں کا جائزہ لیا۔میرے حساب سے مہنگی تھیں۔تین دن میں نے روم میں رہنا تھا۔کتابوں کی دکانوں پر جانا بھی ضروری تھا تو جلدی کاہے کی ہے۔خود سے کہا گیا۔
دونوں لڑکیوں کو رخصت ہونے سے قبل خداحافظ کہا۔اُن کی یہ بات کتنی اچھی لگی تھی۔
یہاں آنے والے کچھ لوگوں کو علم ہوتا ہے کہ وہ کہاں آئے ہیں۔مگر کچھ لوگ جب یہاں سے رُخصت ہوتے ہیں۔تب جانتے ہیں کہ وہ کہاں آئے تھے۔
اس کی قبر پر کیا عمدہ لکھا ہوا ہے۔مارگریٹ نے ہی بتایا تھا۔
یہاں وہ شخص لیٹا ہوا ہے۔جس کا نام پانیوں پر لکھا ہوا ہے۔
کاش وہ اپنی چھوٹی سی عمر میں جان سکتا کہ صدی کی اگلی نصف دہائیاں اُس کے لئے بے پناہ شہرت لے کر آنے والی ہیں۔
اور وہ وقت بھی آنے والا ہے جب وہ سب سے زیادہ پسندیدہ اور کوڈ کرنے والا شاعر بن جائے گا۔منظر کسی فلم کے سین کی طرح بدل گیا تھا۔سکوائر میں فروری کے آخری دنوں کی صُبح کتنی دُھند اور سردی میں لپٹی ہوئی تھی۔درختوں کی چوٹیوں پر دھرنا مارے بیٹھی برف دنوں پہلے ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرتی رہی تھی۔سارے ماحول پر اُداسی اور تھکن کے سائے لرزاں تھے۔
کمرے میں کھڑے جوزف Severn نے اپنی تھکن کی لالی سے لبریز آنکھوں کو باہر سے اٹھا کر اندر پھینکا ہے۔چار راتوں سے جاگتا اُسکا جسم اسوقت پھوڑے کی طرح درد کررہا ہے۔کمرے کی فضا میں کسی نحوست کے سائے سے بکھرے نظرآتے
ہیں۔دوسرے بیڈ پر گٹھڑی سی بنی ہڈیوں کی مٹھ میں سے ایک دل خراش سی آواز گندی مندی سی منحوس دیواروں سے ٹکراتی کمرے میں بکھرتی ہے۔
”سیورن“(Severn)
سیورن فوراً سے پیشتر اُس گٹھڑی کو کلاوے میں بھر لیتا ہے۔
”سیورن میں مررہا ہوں۔میرا سر اوپر کردو۔ڈر کیوں رہے ہو؟سیورن ذرا سا اور اوپر کرونا۔“
چھبیس سالہ جوزف سیورن Severnیادداشتوں میں ابھر آیا ہے۔یہ سنہری گنگھریالے بالوں،خوبصورت خدوخال والا دلکش نوجوان آرٹسٹ بہت دن گزرے شاعر کی محبت میں گرفتار ہواتھا۔اُن محفلوں میں اُس کا جانا اور شاعر کیلئے محبت کے جذبات رکھنے کی پذیرائی نہ شاعر کی طرف سے ہوئی اور نہ اس کے دوستوں نے اُسے قابل توجہ گردانا۔مگر وہ اس کے ایک خاموش پرستار کی صورت اُن محفلوں میں جاتا رہا جہاں شاعر اپنا کلام سُناتاتھا۔
سیور اپ ے ف کے مزید کھار کیلئے روم جا ے اور آرٹ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر ے کا بڑا خواہشم د تھا۔موقع ملا تو اس کی تکمیل کیلئے روم چلاآیا۔محبت اور عقیدت رکھ ے والے ے تو کبھی شاعر کی جی ز دگی میں جھا کا ہی ہ تھا کہ اُسے دُکھ کو کو سے ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply