نظم ِ نو سیریز/بزدل۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

(سترہ برس پہلے ساقی فاروقی کے لیے تحریر کردہ ایک نظم)

بازو کی شہ رگ نشتر کے نیچے آتے آتے جیسے
از خود رفتہ ہو کر پھسلی، کھسک گئی، تو
میں نے ٹھنڈا سانس لیا، جو
چین کا سانس بھی ہو سکتا تھا!

۔۔۔۔ خود سے پوچھا
کیا میں اب اتنا بزدل ہوں
آدھ انچ کی گہرائی تک بھی نشتر کو
(بازو کی شہ رگ پر رکھ کر)
مضبوطی سے کاٹ نہیں سکتا، تو
آخر کس قابل ہوں میں بھی؟

جینے کا حق تو دنیا نے
مجھ سے پہلے چھین لیا ہے
موت کا حق کیا خود سے چھین کے
موت سے یہ بد تر جینا ہی
میری قسمت میں لکھا ہے؟
کیا میں خود اپنی مرضی سے
موت کی یخ بستہ باہوں میں
ابدی نیند نہیں سو سکتا؟

پھر نشتر کو ہاتھ میں لےکر
دھار کی تیزی کو انگلی سے
پرکھا، تو کچھ بےدھیانی میں
اک دو قطرے خون اُبل کر باہر آیا
درد کی ہلکی لہر اٹھی، تو
میں نے انگلی منہ میں رکھ کر

اپنے خون کو چوس لیا ۔۔۔اور پھر نشتر کو
دور ہاتھ سے پھینک دیا
جیسے بِچھو ہو !

Advertisements
julia rana solicitors london

ریل کی پٹڑی پر سر رکھنا
دریا کے پُل سے  نیچے اک جست لگانا
زہر کی پڑیا پھانک کے بستر پر سو جانا
ان سب سے لے کر نشتر تک
،میرے اندر خوابیدہ خود کُش آنندؔ کی
چوتھی کوشش بھی آخر ناکام ہوئی۔
۔14 اکتوبر 2004 ء

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply