• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کنوئیں میں قید کے دوران لکھی گئی اسلامی قانون پر مبنی کتاب۔۔مکرم حسن بلوچ

کنوئیں میں قید کے دوران لکھی گئی اسلامی قانون پر مبنی کتاب۔۔مکرم حسن بلوچ

شمس العلماء سرخی کا پورا نام ابوبکر محمد بن ابی سہل ہے  آپ کوبرہان السلام کا لقب بھی دیا گیا ۔آپ علامہ سرخسی کی ولادت 400ھ میں بمقام سرخس ہوئی۔امام سرخسی یوں تو خراسان کی ایک بستی سرخس کی طرف منسوب ہیں لیکن شاید حصولِ  علم کے لیے فرغانہ کے علاقے میں تشریف لائے اور قید کردیے گئے۔ حاکم ِ وقت کے خلاف کلمہ حق بلند کرنے کی پاداش میں آپ نے کس چیز میں مخالفت کی۔ ۔اِس کی تفصیل کِسی مُستَند ذریعے سے معلوم نہیں ہو سکی۔ ڈاکٹر صلاحُ الدین منجد نے شرح السیر الکبیر کے مُقدمے میں ایک وجہ بیان کی ہے کہ خاقان نے اپنی ایک کنیز کو آزاد کرکے عِدّت سے پِہلے ہی اُس سے نِکاح کر لیا تھا۔ اِمام سرخسی رحمۃ الله نے اِس پر اِعتراض کیا تھا مگر اِس کا کوئی حوالہ اُنہوں نے نہیں دیا اور اِس سے مِلتا جُلتا ایک واقعہ اُن کی رِہائی کے بعد کا مُستَند تذکروں میں مِلتا ہے، مشہورِ ہے کہ ان کے زمانے میں قرہ خانی حکمران تھے انہوں نے بہت ظالمانہ ٹیکس لگا دیئے تھے ۔ حکومت کی آمدنی حکمران کی فضول خرچی کےلئے کافی نہیں ہوتی تھی تو روز بروز نئے ٹیکس لگائے جاتے تھے ۔ امام سرخسی نے فتویٰ دیا کہ ظالمانہ ٹیکس ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔پاداش میں حاکم وقت نے انہیں ایک کنویں نما گڑھے میں قید کر دیا۔امام سرخسی(رح) جابر بادشاہ کے سامنے حق گوئی کی پاداش میں اس سخت آزمائش میں مبتلا کر دئیے گئے۔یہاں تک کہ وہ سالہا سال اس کنویں نما گڑھے میں قید رہے جہاں ان کا چلنا پھرنا بھی نا ممکن تھا۔آپ قید سے پہلے شہر کی ایک جامع مسجد میں درس دیا کرتے تھے۔قید کے بعد شاگردوں  سے درخواست کی کہ ہم روزانہ اس کنویں کے منہ پر آجایا کریں گے۔آپ ہمیں جو کچھ پڑھانا چاہیں ہم اسکے لیے حاضر ہیں۔ ۔

شمس الائمہ امام سرخسی کے دل کی خواہش تھی کہ امام حاکم شہید کی کتاب الکافی کی شرح لکھیں۔ چنانچہ انہوں اسی کنویں سے اپنی عظیم کتاب’’المبسوط‘‘املا کروانی شروع کی۔ یہ منفرد شاہکار اوزجندکے ایک گمنام کنویں نما قید خانے میں وجود میں آیا کہ تیس ضخیم جلدوں کی یہ کتاب املا ء کروادی۔ اس کتاب کو فقہ حنفی کے مستند مآخذ میں شمار کیا جاتا ہے۔

امام سرخسی کی دوسری مشہور ترین کتاب شرح السیر الکبیر ہے جو جنگ اور بین الاقوامی تعلقات کے اسلامی قوانین پر مستند مآخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کتاب بھی قید ہی کی حالت میں لکھی گئی۔ اس کے علاوہ ایک اور مشہور معروف کتاب’’اصول السرخسی‘‘بھی قید ہی کی حالت میں آپ نے تالیف فرمائی۔ آخر الذکر دونوں کتابوں کا اختتام رہائی کی حالت میں فرمایا۔ جبکہ ’’المبسوط‘‘کتاب مکمل قید کی حالت میں لکھی گئی ۔

حیران کُن بات یہ ہے امام سرخسی کنویں سے جو املا ء کرواتے تھے وہ خالص اپنی یاداشت کی بنیاد پر  کرواتے تھے،کسی کتاب کی مدد انہیں حاصل نہ تھی۔ان کے پاس کسی قسم کی کوئی سہولت نہیں تھی جس سے وہ اپنی اس عظیم کتاب کی  املاء  لکھوانے میں مدد لے سکیں۔اور یہ بات ظاہر بھی ہے کہ کنویں میں قید ہونے کی حالت میں دوسری کتابوں سے باقاعدہ استفادہ بظاہر ممکن نہیں تھا۔یہ تحقیقی کتاب جو بعد والوں کے لیے فقہ حنفی کا مستند ماخذ بن گئی،کس طرح تمام تر صرف حافظے سے لکھوائی گئی ہے۔اور واقعی یہ حقیقت ہے کہ آپ کا حافظہ اور ضبط بلا کا تھا۔

ایک مرتبہ آپ اپنے حلقہ درس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے کہا امام شافعی کے بارے میں منقول ہے کہ انکو تین سو کاپیاں یاد تھیں۔اس پر امام سرخسی(رح) نے فرمایا’’حفظ الشافع زکوۃ محفوظی‘‘یعنی جتنا مجھے یاد ہے امام شافی کو اسکی زکوٰۃ یاد تھی۔جس کا مطلب یہ ہے کہ علامہ سرخسی کو امام شافعی سے تقریباًچالیس گنا باتیں زیادہ یاد تھیں اور انہوں نے جس طرح جس حالت میں مبسوط لکھوائی ہے اس کے پیش نظر یہ بات   کچھ زیادہ بعید معلوم نہیں ہوتی۔

ایک گڑھے میں بند ہونے کی حالت میں اس عظیم شخصیت پر کیا گزرتی ہوگی؟اس کا اندازہ بھی ہمارے لیے مشکل ہے۔اور خود انہوں نے’’ مبسوط‘‘کی تالیف کے  دوران مختلف ابواب کے آخر میں اپنی اس حالت کا بڑے پُر درد الفاظ میں ذکر فرمایا ہے۔چناچہ کتاب المناسک کے آخر میں فرماتے ہیں۔

’’ہذا آخر شرح العبادات باوضح المعانی واوجزالعبارات املاہ المحبوس عن الجمع والجماعات‘‘﴿المبسوط ۔ج۳ ص ۸۴۳﴾

“یہ واضح ترین مضامین اور مختصر ترین عبارت میں عبادت کی شرح کا آخری حصہ ہے،جسے ایک ایسے  شخص نے املاء  کروایا ہے جو اس طرح قید میں ہے کہ نہ جمعہ میں حاضری دے سکتا ہے نہ جماعت سے نماز پڑھ سکتا ہے”

اس عبارت میں اس دلی حسرت کا انتہائی موثر اظہار ہے کہ چار ضخیم جلدوں میں نماز اور دوسری عبادتوں کے احکام ایسی حالت میں لکھوائے گئے ہیں جب خود مؤلف کتاب سے نماز پڑھنا تو کجا،جمعہ میں حاضر ہونے سے بھی محروم ہے۔لیکن آزمائش کی حالت میں یہ عظیم خدمت انجام دینے پر اللہ تعالیٰ نے انہیں جمعہ اور جماعت کے ثواب سے بھی نہ جانے کتنا زیادہ نوازا ہو گا۔

پھر ساتویں جلد میں کتاب الطلاق کے ختم پر فرماتے ہیں:

ہذا آخر شرح کتاب الطلاق بالموثرۃ من المعانی الدقاق املاہ المحصورعن الانطلاق المبتلی بوحشۃ الفراق مصلیا علی صاحب البراق آلہ و اصحابہ اہل الخیر والسباق صلاۃ تتصاعف وتدوم الی یوم التلاق کتبہ العبد البری من النفاق ﴿المبسوط ج ۷ ص ۷۰۱﴾

“یہ کتاب الطلاق کی شرح کا آخری حصہ ہے جس میں دقیق مضامین میں سے قابل ترجیح مسائل درج کیے گئے ہیں۔اسے ایک ایسے شخص نے لکھوایا ہے جو اس طرح قید ہے کہ چل پھر نہیں سکتا اور “عزیزوں دوستوں کی”جدائی کی وحشت میں مبتلا ہے وہ صاحب براق اور آپ کے آل و اصحاب پر جو بھلائیوں میں ایک دوسرے سے بڑھ کر تھے ایسا درود بھیجتا ہے جو قیامت کے دن تک دوگنا چوگنا رہے۔اس ایک ایسے بندہ نے لکھا ہے جو نفاق سے برائت کا اظہار کرتا ہے”۔

اسی طرح علامہ سرخسی(رح) نے کتاب الولائی ،کتاب الجہاد والسیراور کتاب الاقرار کے اختتام پر بھی ایسی عبارات درج کی ہیں جو انکی اس مشقت اور حد درجہ استقامت پر دال ہیں۔

آپ نے پوری کتاب اس قید ہی کے زمانے میں املاء  کروائی۔اور امت کو ایک نادر تحفہ دے گئے تاکہ آنے والی نسلیں اس سے ہمیشہ استفادہ کرتی رہیں۔یہ کتاب اس وقت سے لیکر آج تک علماء  اور فقہاء  کے درمیان مستند اور لازوال کتاب ہے۔اس کتاب کو فقہ حنفی کے مستند مآخذ میں شمار کیا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج اوزجند میں نہ اس گڑھے یا کنویں کا کوئی نام و نشان موجود ہے جہاں انہوں نے سالہا سال انتہائی صبر آزما وقت گزارا ،نہ اس حاکم سے آج کوئی واقف ہے جس نے تکبر اور رعونت کے عالم میں ایسے مقدس شخص کو اتنی بربریت کے ساتھ قید کیا۔لیکن علامہ سرخسی(رح) کا نام آج بھی زندہ و پائندہ ہے۔اور انشا اللہ قیامت تک انہیں خراج تحسین پیش کیا جاتا رہے گا اور لوگ انکے لیے رحمت کی دعائیں کرتے رہیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply