ہماری یونیورسٹیاں اور پروفیسرز۔۔روبینہ شاہین

کوئی پچیس سال پہلے کی بات ہے کہ میٹرک پاس کرنے کی خوشی ایک طرف، میتھ سے جان چھوٹنے کی خوشی کا اپنا ہی مزہ تھا۔ دل میں ٹھان لی تھی کہ زندگی میں اس ناہنجار سبجیکٹ کو پلٹ کر منہ نہیں لگانا۔ اتنا بے تکا سبجیکٹ کہ جہاں تین جمع تین چھ ہوتے ہیں، لیکن یہی تین کی جوڑی فریکشنز کے ڈی نامینیٹر میں ہو تو تین جمع تین بس تین ہی رہتے ہیں۔ یہ بھی حضرت میتھ کی ہی کرامت تھی کہ سیدھے سادھے اے سکوئیر پلس بی سکوئیر میں بلاوجہ ٹو اے بی گھس بیٹھتا تھا۔ کوئی ایک دکھڑا ہوتا تو سمجھوتے کی گنجائش بھی نکلتی، خیر اس چوں چوں کے مربعے کو دل سے خیر آباد کہہ دیا۔

کسی نے درست ہی کہا ہے کہ یہ دنیا دھوکے کی جا ہے، بی ایس کمپیوٹرز کے دوران یہ چوں چوں کا مربہ اچھا لگنے لگا، اور یہ خوش فہمی ہو چلی کہ اب شاید کچھ پلے پڑنے لگا ہے۔ سوچا ایک آدھی ایم ایس سی میتھ میں بھی کر لینی چاہئیے۔ بی ایس کے ڈبل میتھ کی لایعنی کیلکولیشنز اور پھر ایم ایس سی کے بے تکے تھیورم میری خوش فہمی دھونے اور میرا موڈ آف کرنے کو کافی تھے۔ لیکن پنگا لیا تھا، کرنا تو تھا۔ جیسے میٹرک کیا ویسے ہی بی ایس سی اور ایم ایس سی پارٹ ون کر لیا۔ پارٹ ٹو کے پیپر دینے سے پہلے ہی ملک بدری نے آ لیا، اور یوں میری میتھ کی ڈگری ادھوری رہ گئی۔

مجھے ہمیشہ سے معلوم تھا کہ سکول، کالج، یونیورسٹی میں جتنا میتھ پڑھا، سوائے پرائمری میتھ کے میرے لئے کبھی کچھ خاص قابل فہم نہیں رہا۔ طرفہ تماشا یہ کہ زندگی کی ایک سٹیج پر یہ انکشاف ہوا کہ پرائمری میتھ کی فہم بھی بہت شاندار نہ تھی۔ جی ہاں، مجھے بھی باقی بہت سے سٹوڈنٹس کی طرح یہ معلوم نہیں تھا کہ فریکشنز کا ڈی نامینیٹر ایڈ کیوں نہیں ہوتا۔
خیر وقت گزرتا گیا، میتھ پڑھانے پر کافی سال صرف کئے، ایجوکیشن کی فیلڈ میں کافی سیکھا سکھایا، دو چار ملکوں کی خاک چھانی اور کچھ امید بندھی کہ اب کچھ کچھ سمجھ آ رہا ہے۔ حقیقت پوچھیں تو یہی وہ سال تھے جن میں میتھ سیکھا۔ بھلا ہو گوگل کا، انٹرنیٹ کا جس نے چار حرفوں کا مطلب سمجھنے میں مدد دی۔ اب جب کہ میتھ کا کچھ حصہ سمجھ آ چکا، تو دماغ بہکا، اور اپنی ایم ایس سی کی ڈگری مکمل کرنے کی فرمائش کر ڈالی۔ میں اپنی فرمائشیں خود پوری کرنے کی قائل ہوں، سو ایک یونیورسٹی میں ایم ایس سی میتھ میں ایڈمیشن لے لیا۔
پہلی کلاس میں ہی ٹیچر سے اس وقت عجب معاملہ ہوا، جب وہ ہم سے ایم ایس سی میتھ کی کلاس میں کھڑے ہو کر اس بات کا مطالبہ کر بیٹھے کہ حضرت بلال کی اذان والے قصے پر یقین بھی کریں، اور یہ بھی سمجھیں کی اس رات وقت رک گیا تھا۔۔۔ اور جب وقت رک جاتا ہے تبھی وقت کو فورتھ ڈائمینشن کہا جا سکتا ہے۔ زندگی سے مغزماری کرتے کرتے اس مغز نے بہت پتھر کھائے تھے، لیکن یہ پتھر بہت زور کا لگا۔ بحث ہوئی، اور سر کو یہ بات بہت گراں گزری کہ یہ بدتمیز کلاس ان سے “ایمانیات” پر الجھ پڑی ہے۔ سر نے ٹکا کر دس منٹ کلاس کی بے عزتی کی، اور ایک عجب اعلان فرما دیا۔ “اب میں آپ کو بتاؤں گا ٹپالوجی کیا چیز ہے!”

دوسری کلاس میں دوسرے سر تشریف لائے اور نان سٹاپ پچاس ساٹھ ٹرمز کی بمبارڈمنٹ فرما کر سٹوڈنٹس کو یہ یقین دہانی کروانے لگے کہ آپ لوگ نالائق ترین، اور سبجیکٹ مشکل ترین اور میں اس سبجیکٹ کا بے تاج بادشاہ۔ ان کا کمال یہ بھی تھا بورڈ کی ایک سائیڈ سے سفید بورڈ پر کالک ملنا شروع کرتے اور ہاتھ میں پکڑے نوٹس سے دیکھ دیکھ کر منٹوں میں بورڈ کالا سیاہ کر دیتے۔ پہلی کلاس تھی، اسی موج میں جناب یہ فرما بیٹھے کہ فائیو ڈگری پولی نامیل کے روٹس نہیں نکل سکتے۔ میں نے عرض کی جناب اب ایسا بھی نہیں، چاہے کمپلیکس نکلیں لیکن روٹس نکل تو آتے ہیں۔۔۔ یہ کام تو ہم نالائقوں نے اپنے ہتھی کر رکھا ہے۔ یہ بات سن کر ان کے چہرے پر آنے والی تمسخرانہ مسکراہٹ بہت حسین تھی۔ اپنی اسی موج میں ایک فائیو ڈگری پولی نامیل بورڈ پر لکھا اور فرمانے لگے دس منٹ کی بریک ہے، اس کے روٹس نکال دیں۔ اگر آپ نے اس کے روٹس نکال لئے تو فائنلز میں 10 نمبر آپ کے پکے! اب کے ہم دونوں مل کر مسکرائے، سر کی مسکراہٹ فاتحانہ تھی، اور میری مسکراہٹ ویسی ہی تھی جیسی کسی مسکین سٹوڈنٹ کی ہو سکتی ہے۔ بریک کے بعد سر آئے اور میں نے ان کو پانچ روٹس بتا دئیے۔ حیران ہوئے، اور فرمانے لگے ہو سکتا ہے یہ پولی نامیل آسان ہو، لیکن ہر پولی نامیل کے روٹس نہیں نکل سکتے، ویسے آپ یہ روٹس دوبارہ چیک کیجئے گا کہ ایکویشن کو سیٹسفائی کرتے ہیں؟ میں کہنا چاہتی تھی سر آج اے لیول کا بچہ بھی آپ کو کیلکولیٹر سے اس کے روٹس نکال دے گا۔۔۔ کس صدی میں زندہ ہیں؟ لیکن فقط اتنا ہی عرض کر پائی، سر 10 نمبر ملیں گے نا؟

یہی دو سبجیکٹ تھے جو آن کیمپس تھے، باقی چار سبجکٹس آن لائن۔ یہ آن لائن کلاسز بھی عجب ہیں، جب سے لاک ڈاؤن ہوا ہے، ہم بطور ٹیچر خواہ مخواہ ٹیبلٹس، سٹائلس، آئی پیڈ کے چکر میں خوار ہوتے رہے۔ یہ تو یونیورسٹی کی کلاسز سے پتا چلا کہ ہینڈ رٹن نوٹس کی پی ڈی ایف سکرین پر دکھا کر اسے پڑھتے جائیں، تو اس طرح بھی میتھ پڑھایا جا سکتا ہے۔ جو ٹیچر ڈفرینشئیل جیومیٹری پڑھانے تشریف لائیں، وہ خود یہ تک نہیں جانتی تھیں کہ ڈاٹ پروڈکٹ میں حاصل ہونے والا نمبر ویکٹرز کی ڈائیگرام پر کیا ریپریزنٹ کرتا ہے۔ یہ وہ بات ہے جو میرا اے لیول کا سٹوڈنٹ بھی آپ کو بتا دے گا۔

یہ سب باتیں میں دیکھ رہی تھی، کافی حد تک جانتی بھی تھی، اور یہی سب کچھ آج سے بیس سال پہلے بھگت اور دیکھ بھی چکی تھی۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا، نہ بورڈ کالا کرنے کی روایت، نہ خود کو بے تاج بادشاہ سمجھنے کا چلن، نہ سٹوڈنٹس کو گدھا سمجھنے کی ریت۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا! یقینا ًٍ یونیورسٹیوں میں اچھے استاد، اچھے انسان ہوتے ہونگے، لیکن ان کی تعداد شاید آٹے میں نمک برابر ہو۔

خیر مڈ ٹرم آئے اور انہی دو بے تاج بادشاہوں نے جن کو اپنے علم پر بہت ناز تھا، وہ پیپر سیٹ کیا کہ خدا کی پناہ۔ ایسا نہیں کہ کلاس بہت نالائق تھی، ایسا بھی نہیں کہ کوئی کچھ نہیں لکھ پایا، بس میرا کنسرن یہ تھا جو پڑھایا وہ کیوں نہیں دیا؟ جیسا پڑھایا ویسا کیوں نہیں پوچھا؟ ایک دو سوال سرے سے اپنی سٹیٹمنٹ میں ویلڈ ہی نہ تھے۔ آن لائن پیپر تھا، کچھ سٹوڈنٹس نے دوسری یونیورسٹیوں کے پروفیسرز کو اپنی مدد کے لئے کہہ رکھا تھا۔ سٹوڈنٹس اس وقت رونے والے ہو گئے جب ان کے کانٹیکٹ میں موجود اسلام آباد کے پانچ چھے پی ایچ ڈی پروفیسرز بھی چند سوال حل نہ کر پائے۔ سر نے اپنے پہلے لیکچر کے الفاظ کا پاس رکھتے ہوئے بتا دیا کہ ٹپالوجی کیا ہوتی ہے، لیکن افسوس اس بات کا رہا کہ یہ بات کلاس میں بتانے کی بجائے انہوں نے ایگزام میں بتائی۔

ہاں مجھے بیس سال پہلے والوں سے گلہ نہیں، کہ ان کے پاس ریسورس کے نام پر چند ٹیکسٹ بکس اور نالائق اساتذہ کے سوا کچھ تھا ہی نہیں۔ ان کو جتنا آیا انہوں نے سکھا دیا۔ آج کا استاد کیوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے؟ کیوں اسے چیزوں کا مطلب جاننے کے لئے گوگل یاد نہیں رہتا؟ اور اگر وہ مطالب تک پہنچنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتا، تو کیوں ایسا سبجیکٹ پڑھانے کی ذمہ داری لے لیتا ہے؟

یہ تو پروفیشنل سٹینڈرڈ کی بات تھی، دوسری بات ہے ایتھکل سٹینڈرڈ کی۔ ایک شخص بطور استاد یہ سمجھتا ہے کہ اس کی لیاقت سٹوڈنٹ کو گدھا ثابت کرنے میں ہے، اس کی لیاقت مشکل سوال ڈھونڈنے میں ہے، اس استاد کے ایتھیکل سٹینڈرڈ پر آپ کیا کہیں گے؟ یہ بات پچھلی صدی کے استادوں کا طرہ امتیاز رہی ہو گی، اور افسوس پاکستان میں آج بھی یہی چلن عام ہے۔ میرے نزدیک استاد کی لیاقت اس میں ہے کہ وہ اپنے سٹوڈنٹ کو اس قابل بنا سکے کہ وہ پرفارم کرے۔ آپ کو میتھ آتا ہے، یا نہیں آتا، آپ کی ٹیچنگ کی افیکٹونیس کا پیمانہ یہی ہے کہ آپ کے سٹوڈنٹ کو کتنا میتھ آتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کوئی شخص اپنے سٹوڈنٹ کو اپنا حریف سمجھے، ایک استاد کے لئے یہ بہت چھوٹی بات ہے، ایک استاد کے مرتبے کو یہ بات زیب نہیں دیتی۔ پھر یہ پاکستانی استاد ہی ہیں جو سارا سال یہ رونا روتے ہیں کہ پاکستان میں استاد کی عزت نہیں! عزت کسی ادارے میں ٹیچنگ جاب مل جانے سے نہیں ہوتی، عزت کرموں سے ہوتی ہے صاحب، اپنے کرموں پر بھی اک نظر۔۔۔

Facebook Comments