عشق و محبت کا جنون اور بامعنی زندگی/محمد سلیم حلبی

محبت،عشق،الفت کیفیات و جذبات کا نام ہے۔یہ جذبات ہر کسی کےلئے الگ معنی و مفہوم رکھتے ہیں، مگر انہی میں سے چند ایک مفہوم و معنی مشترک ہیں، وہ ہیں کسی پہ فدا ہونا،فریفتہ ہونا،کسی کےلئے قربان ہونا،کسی پہ ریجھ جانا،کسی پہ  نثار ہونا یا کسی کےلئے جانثار ہونا۔عشق،محبت،الفت اور عقیدت میں ایک قدر جو مشترک ہے وہ یہ ہے کہ عاشق اور عقیدت مند کے دماغ و ذہن کے استعمال اور سوچنے والے تاروں کے ترسیلی راستے کو منقطع کرکے اُسے مثالی انسان بنا کے اُسے دماغ کی بجائے دل سے سوچنے پہ مجبور کرتا ہے۔

 

 

 

مثالی انسان اس لئے کہا ہے کیونکہ اُس وقت نفع و نقصان سے ماورا ہوکے وہ اپنی محبوبہ یا پھر محبوب کےلئے اپنی ہستی اور ذات کے مٹانے اور ملکیت و مادی وجود کے تمام دعوؤں کو یکسر مسترد کرکے اپنی فنا کا اعلان کرتے ہوئے محبوب کے وجود کا حصہ بن جاتا ہے۔

مریم ایک فلسطینی لڑکی ہے جس کو ایک لڑکے سے بیاہا  گیا ،جو پی ایل او (Palestine Liberation Organization) کا  سرکردہ رکن ہے۔دو سال بعد اُس کے شوہر کو اسرائیلیوں نے plo کے رکن ہونے اور اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کرنے اور بغاوت پہ اُکسانے کے جرم میں گرفتار کرلیا اور چالیس سال کی سزا دی گئی۔مریم شوہر کی  رہائی کے انتظار میں رہی جبکہ شوہر نے اسے طلاق کا بھی حق دے دیا کیونکہ چالیس سال تک اُسے زندہ رہنے کا بھی یقین نہ تھا اور نہ ہی صیہونی سرکار سے رہائی و انصاف کی توقع۔مگر مریم نے تہیہ کرلیا کہ وہ طلاق نہیں لے گی اور شوہر کے انتظار میں زندگی بسر کرے گی،جب پچیس سال بعد اُس کے شوہر کو رہائی ملی اور 1987 میں وہ دمشق میں سکونت پذیر ہوگئے۔اسی زمانے میں بوثائنہ شعبان جو کہ دمشق یونیورسٹی میں رومانوی شاعری کی پروفیسر تھیں ان سے سوال کیا کہ کیا آپ کے شوہر کی جگہ آپ کو اتنی سزا ملتی اور جیل کے اندر رہتیں تو کیا آپ کے  شوہر آپ کے انتظار میں شادی نہ کرتے،آپ  کو طلاق نہ دیتے؟

اُس نے جو جواب دیا وہ آنکھیں کھول دینے والا اور حقائق پہ مبنی تھا “بالکل بھی نہ کرتا،اُسے وطن سے عشق ہے وہ وہی عشق کرسکتا ہے جبکہ میری سکت اتنی ہے کہ میں اِس سے عشق کروں،وہ وطن پہ قربان ہوا ہے تو میں اُس پہ”۔

محبت و الفت اور عشق دراصل اپنے وجود کو مسترد کرنے اور اپنے محبوب کےلئے سب کچھ نچھاور کرنے کا نام تو ہے مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ محبت در اصل ذہنی و روحانی نشوونما اور ارتقاء کا ایک مرحلہ ہے جس کی  تکمیل بس محبوب کے ساتھ درست راستہ اختیار کرنے سے  ہوتی  ہے۔عشق دراصل دو قالب  کا ایک ساتھ ڈھل کر ایک جاوداں منزل کی طرف روانگی ہے جہاں تک پہنچنے کی بس ایک ہی شرط ہے وہ ہے ذات کی نفی،ملکیت و ہستی سے فرار ۔

آج کل عشق و محبت کے دعوے بہت کیے  جاتے ہیں مگر ان کے پیچھے مقاصد پہ نظرِ غائر دوڑائیں تو یہ بات واضح ہوجاتی  ہے کہ اس کے پیچھے کسی چیز کے حصول کی  تمنا  ہے۔ڈاکٹر سکاٹ پیک اپنی کتاب “The Road Less Traveled ” میں لکھتے ہیں کہ جو عاشق یہ واویلا کرتا ہے کہ میں اپنی محبوبہ کے بغیر نہیں رہ سکتا،میں تمہارے بغیر خودکشی کرنے کو ترجیح دونگا،میں اپنی نسیں کاٹ دونگا وغیرہ وغیرہ تو اس کے پیچھے عموماً  سیکس اور تولیدی فوائد اور عزائم ہوتے ہیں۔بقول سکاٹ پیک کے عشق اور محبت ایک ایسی منزل ہے جس کا حاصل اور نتیجہ بس ذہنی و روحانی پختگی اور ذاتی فوائد کی نفی اور طویل مسرت کے ساتھ زندگی سے مضر رساں اجزاء و عوامل کا خروج ہے۔

ہمارے معاشرے کے اندر ہر چھوٹے سے عمل کو محبت و جنونیت اور الفت سے تشبیہ دی جاتی ہے جو عشق و محبت کی نفی اور مادی اشیاء کے حصول  میں  چُھپا ہوا ہے ،پہلا قدم ہے، جس میں محبوب کو یا اس کی  دولت یا پھر حسن کو اپنی گرفت اور ملکیت میں لینے کی  ایک گھناؤنی  آڑ ہے جس کو استعمال کرنے کےلئے محبت و الفت کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے۔

عشق و محبت کو واضح کیا جائے تو ہم سب ان کے درمیان فرق کرنے میں کامیاب ہونگے،ہمارے معاشرے میں دونوں کو ایک ہی معنی میں لیا جاتا ہے۔اگر خاکسار کی رائے میں دیکھا جائے تو محبت سسی پنوں ہے،ہیر رانجھا ہے،مریم فلسطینی ہے جو یکطرفہ محبت کا شکار ہے،مست توکلی اور سمّو ہے۔ان کو محبت میں فِٹ کرنے کی وجہ یہی ہے کہ اس محبت میں ملکیت اور حصول کے  دعوے دیکھے  جاسکتے  ہیں ،ذاتی فوائد دیکھے جاسکتے ہیں جس میں شاید ایک طرف سے تو نہ ہوں مگر دوسری طرف حصول کا لالچ اور طمع دیکھنے میں آتا ہے۔

عشق حسینؓ ہے،عشق منصور حلاج ہے،عشق غلام فرید ہے،عشق جنید بغدادی ہے اور عشق مولانا روم،عشق عبدالستار ایدھی ہے،عشق ڈاکٹر روتھ فاؤ ہے۔
جن کے فعل،عمل اور قول میں محبوب کی راہ میں اپنی  ذات کی نفی کرکے انسانی زندگی میں بدلاؤ لانا ہے۔

ڈاکٹر سکاٹ اور گابور میٹ سائیکاٹریسٹ ہیں ان کا دعویٰ  ہے کہ محبت اور الفت میں اکتاہٹ ایک لمحے کے بعد آنا ناگزیر ہے،محبت و الفت کو قائم رکھنے کےلئے ایک دوسرے سے دوری،ملنے کےلئے وقفے اور بریک ہونا بہتر ہے وگرنہ ایک دوسرے سے فراریت میں ہی عافیت لگنے لگے گی ۔سکاٹ پیک کے مطابق ہمیں لگتا ہے کہ دو پیار و محبت کرنے والے ہمیشہ خوش،پُرسکون،چھوٹی سی دنیا بسا کے ہشاش بشاش رہیں گے اور مسائل ہمارے قریب نہیں بھٹکیں گے،یہ جنونیت،دماغ اور شعور کے ماؤف ہونے کا ایک مرحلہ ہے جو ہر نئے جوڑے کو پیش آتا ہے،کچھ وقفوں کے بعد شعوری سطح کے بلند ہونے سے لگتا ہے کہ دراصل ہمارے حصول کا مقصد سیکس اور جنسی تعلق تھا جب وہ پورا ہوجاتا ہے تو ایک دوسرے سے بیزاری دیکھنے میں آتی  ہے،یہیں سے قلعی اور پول کھلنے لگتا ہے کہ اس محبت کے ڈھونگ کے پیچھے ہمارے جنسی عزائم  تھے جن کے حصول کے بعد ہم حقیقی نتائج جن کا مقصد ذہنی و روحانی مسرت و شادمانی اور ارتقاء تھا ،کو کھو بیٹھے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ڈاکٹر سکاٹ کے بقول ہم فرحت و مسرت بھری زندگی تبھی جی پائیں گے جب ہم اپنے مقاصد کو ناقدانہ اور شعوری طور پہ دیکھنے کی کوشش کریں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply