آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے/پروفیسر رفعت مظہر

فرقہ نزاریہ کے بانی حسن بِن صباح نے 1090ء میں قلعہ الموت پر قبضے کے بعد ایک مصنوعی جنت تیار کروائی۔ اُس نے ایک جماعت بھی منظم کی جس کے ارکان فدائین کہلاتے تھے۔ فتنہ پرورحسن بِن صباح کا طریقہء  واردات یہ تھا کہ وہ ناپختہ اذہان کے مالک نوجوانوں کی ذہن سازی یوں کرتا کہ وہ فدائین کی صف میں شامل ہوجاتے۔

 

 

 

 

 

 

پھر وہ اُنہیں حصولِ مقصد کے لیے استعمال کرتا۔ اُس کے کارندے بھولے بھالے تنومند نوجوانوں کو حشیش پلا کر عالمِ مدہوشی میں اُس کی بنائی گئی جنت میں چھوڑ آتے۔ جب وہ ہوش میں آتا تو اپنے آپ کو حوروں کی آغوش میں پاتا۔

حوروں کے حُسن سے مدہوش وہ نوجوان اُن کے پہلو میں بیٹھ کر ارغوانی شراب کے جام لنڈھاتا، اعلیٰ سے اعلیٰ غذاؤں اور انواع واقسام کے پھلوں سے لطف اندوز ہوتا۔ وہ یہی سمجھتا کہ بعداَز مرگ اُسے جنت نصیب ہوگئی ہے۔ پھر اُسے دوبارہ حشیش پلا دی جاتی اور ہوش آنے کے بعدوہ اپنے آپ کو بے آب وگیاہ ویرانے میں پاتا۔ اپنی یہ حالت دیکھ کر وہ پاگلوں کی طرح چیختا چلاتا اِدھر اُدھر دوڑتا رہتا۔ تب کارندے اُسے حسن بِن صباح کے پاس لے آتے جو اُسے تلقین کرتا کہ اگر وہ اُسی بہشت میں دوبارہ جانا چاہتا ہے تو فلاں شخص کو قتل کرکے اپنی جان بھی قربان کر دے تو وہ سیدھا اُسی جنت میں چلا جائے گا جہاں سے نکالا گیاہےٍ۔ وہ فدائی حصولِ جنت کے شوق میں ابنِ صباح کی ہدایات پر من وعن عمل کرتا۔

ابنِ صباح کا یہ مختصر قصّہ سنانے کا میرا مقصد یہ ہے کہ ناپختہ ذہنوں کی ذہن سازی کا کام صدیوں سے ہو رہا ہے۔ دَورِحاضر میں بھی تحریکِ طالبان پاکستان یہی حربہ استعمال کر رہی ہے۔ طالبان نوجوانوں کو جنت کا لالچ دے کر خودکُش بمبار بناتے اورتباہیوں و بربادیوں کی داستا نیں رقم کرتے ہیں۔ عمران خاں نے خودکُش بمبار تو نہیں بنائے البتہ نوجوانوں کی ذہن سازی کرتے ہوئے اُن کے اذہان وقلوب میں نفرتوں کا زہر ضرور بھراہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار جلسوں میں ڈی جے اور گلوکاروں کا عنصر عمران خاں ہی لے کر آیا۔

پاکستانی نوجوان تو میوزیکل کنسرٹ کے پہلے ہی بہت شیدائی ہیں پھر “مفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے” کے مصداق وہ جلسوں کی رونق بڑھاتے رہے۔ ایک طرف موسیقی کی دُھن پر بلاامتیازِمردوزن تھرکتے جسم اور دوسری طرف ایاک نعبد و ایاک نستعین کی صدائیں۔ ایک طرف والہانہ رقص اور دوسری طرف عین اُسی وقت ریاستِ مدینہ کا اعلان۔ بہت سے پاکستانیوں نے سنا ہوگاکہ ایک جلسے میں تقریر کے دوران سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے عمران خاں کے کان میں کہا تھا “خاں صاحب اسلامی ٹَچ دیں”۔

یہ تھا وہ طریقہ واردات جس نے آج بھی بہت سے نوجوانوں کو عمران خاں کا دیوانہ بنا رکھا ہے۔ وہ عمران خاں کے بارے میں ایک لفظ بھی سننا گوارا نہیں کرتے۔ اِسی ذہن سازی کے زیرِ اثر 9 مئی کا سانحہ ہوا اورپورے ملک کی دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنایاگیا۔ عمران خاں نے پہلے تو یہ کہا کہ جو کچھ 9 مئی کو ہوا وہ اُن کے علم میں ہی نہیں۔ پھر کہا یہ عوامی ردِعمل تھا۔ اب کہتے ہیں”جب مجھے کمانڈو ایکشن سے اُٹھایا جا رہا تھا تو لوگوں نے احتجاج کرنے اور کدھر جانا تھا؟”۔

حیرت ہے کہ اِس اعتراف کے باوجودبھی منصوبہ ساز عمران خاں دندناتا پھر رہا ہے۔ اِس کی وجہ غالباً یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کے بعدعدلیہ نے اُسے گود لے لیاہے اوراتحادی حکومت کو معلوم ہے کہ اُس کی گرفتاری کی صورت میں اُسے “گُڈ ٹو سی یو” کہنے والی اعلیٰ ترین عدلیہ تاحال موجود۔ ہم خیال ججز کے قصے بہت ہوچکے اور بیشمار تنقیدی کالم بھی لکھے جاچکے لیکن ماں کے جیسی عدلیہ کی اُلفت ومحبت میں سرِمو فرق نہیں آیا۔ ظاہر ہے جہاں محبتوں کے سُوتے پھوٹ رہے ہوں وہاں آئین وقانون کِس کھیت کی مولی۔

سیانے کہہ گئے “کاٹھ کی ہنڈیا بار بار نہیں چڑھتی”۔ یہ بھی عین حقیقت کہ جھوٹ کی آڑھت سجانے والوں کو بالآخر سچ کی شمشیرِبرہنہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 27 مارچ 2022ء کو ایچ نائن پارک اسلام آباد میں خطاب کے دوران عمران خاں نے ایک کاغذ لہراتے ہوئے کہا کہ یہ اُسے اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی سازش کا ثبوت ہے۔ یہ دراصل امریکہ میں پاکستان کے سفیر کا سائفر تھا۔ ایسے سائفر تمام حکومتوں کے سفیر اپنے اپنے ممالک کو بھیجتے رہتے ہیں جوکوئی اچنبھے والی بات نہیں تھی لیکن عمران خاں نے اپنی ذات کی خاطر اِسے استعمال کرنے کا پلان ترتیب دیا۔

عمران خاں کے قریب ترین ساتھی اور پرنسپل سیکرٹری اعظم خاں نے مجسٹریٹ کے سامنے 164 کے تحت اعترافی بیان ریکارڈ کرایاجس میں اُس نے کہا “سائفر سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے پَری پلان ڈرامہ تھا”۔ اعظم خاں نے سائفر کو ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیا۔ اُس نے بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا “چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ سائفر کو غلط رنگ دے کر عوام کا بیانیہ بدل دوں گا۔ عمران خاں نے تمام تر حقائق کو چھپا کر سائفر کا جھوٹا اور بے بنیاد بیانیہ بنایا اور تحریکِ عدم اعتماد سے بچنے کے لیے سائفر کو بیرونی سازش کا رنگ دے دیا”۔

یہ اَمر تو پہلے ہی مصدقہ تھاکہ سائفر میں ردوبدل کرکے جھوٹا بیانیہ تشکیل دیا گیا کیونکہ اِسی معاملے پر قومی سلامتی کمیٹی کی 2 میٹنگز ہوئیں جن میں کسی بھی سازش کو مکمل طور پر رَد کر دیا گیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق بھی سائفر میں کسی قسم کا سازشی عنصر موجود نہیں۔ حتیٰ کہ سپریم کورٹ نے بھی اِسے رَد کر دیا لیکن عمران خاں امپورٹڈ حکومت، کیا ہم غلام ہیں اور غلامی نامنظور جیسے بیانیے گھڑ کر اپنے پیروکاروں کے اذہان وقلوب میں نفرتوں کا زہر گھولتا رہا۔ کچھ عرصے بعد حسبِ عادت اُس نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ دراصل جنرل قمرجاوید باجوہ کا منصوبہ تھا، اِس میں امریکہ شامل نہیں اُسے مِس لیڈ کیا گیا تھا۔ اب 20 جنوری کو اپنے وی لاگ میں پھر کہہ دیاکہ یہ امریکی منصوبہ تھاجس کی تکمیل کے لیے جنرل قمر جاوید باجوہ کو تیار کیا گیا۔

اعظم خاں کے مطابق عمران خاں نے 9 مارچ کو اُس سے سائفر لے لیا اور واپس مانگنے پر کہہ دیا کہ وہ تو گُم ہوگیا۔ عمران خاں شاید نہیں جانتے کہ یہ سب کچھ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت آتاہے جس پر آرٹیکل 6 لاگو ہوسکتا ہے۔ اب ایف آئی اے نے اُنہیں 25 جولائی کو طلب کر رکھا ہے۔ ہمیں یقین کہ وہ عبوری ضمانت کے لیے ہائیکورٹس سے رجوع کریں گے اور اگر اُنہیں ضمانت قبل از گرفتاری مل گئی تو پھر وہ شاید ایف آئی اے میں پیش ہوجائیں بصورتِ دیگر وہ حیلے بہانے تراشیں گے کیونکہ اپنے خلاف درج مقدمات سے فرار کے لیے اُنہوں نے ہمیشہ یہی وتیرہ اختیار کیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اِس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ عمران خاں کو صرف سائفر ہی نہیں توشہ خانہ، 190 ملین پاؤنڈ کیس اور دورانِ عدت نکاح جیسے “اوپن اینڈ شَٹ” کیسز کا بھی سامنا ہے۔ 190 ملین پاؤنڈ کیس میں تو اعظم خاں کی نیب میں عمران خاں اور شہزاد اکبر کے خلاف گواہی بھی آچکی۔ کہا جا سکتا ہے کہ اگست عمران خان پر بہت بھاری گزرے گا۔

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply