فلسفہ کیا ہے؟/-سجیل کاظمی

فلسفہ یونانی لفظ ہے جس کے معنی ہیں “علم سے محبت”۔ فلسفہ سچ کی تلاش کا نام ہے۔ فلسفہ اپنی زندگی، اپنی دنیا اور اپنے آپ کو سمجھنے کا نام ہے۔ لیکن کیا دنیا کو سمجھنا تو فزکس کے زمرے میں نہیں آتا؟ کیا ہم اپنے وجود کو بایولوجی اور نفسیات سے نہیں سمجھتے؟ جی! فزکس آپ کو یہ تو بتا سکتی ہے کہ اجسام کیسے حرکت کرتے ہیں ان حرکات پر کونسے قوانین لاگو ہوتے ہیں یا کونسی چیز کس طرح وجود میں آئی لیکن کیا مادہ اور توانائی ہی سب کچھ ہیں یا اس ک علاوہ بھی کچھ موجود ہے؟ کیا مادہ حقیقی ہے یا پھر ہر چیز کو حقیقت اس کی خصوصیات دیتی ہیں؟ اسی طرح بایولوجی آپ کو یہ تو سمجھا سکتی ہے کہ آپ کا جسم کس طرح کام کرتا ہے لیکن ان سوالات کے جوابات کہ کیا ہمارا جسم ہی سب کچھ ہیں یا ہماری کوئی روح بھی ہے؟ اگر میرے سارے فیصلے میرے دماغ میں موجود کیمیائی اجزاء کا نتیجہ ہیں تو میں اپنے فیصلوں کے لئے جوابدہ کیسے ہوں؟ یہ اور ایسے بہت سے سوالات ہیں جن کا سائنس کے ذریعے جواب نہیں مل سکتا۔ ان سوالوں کے لئے ہم فلسفہ پڑھتے ہیں۔

ارسطو اپنی کتاب میٹافزکس میں سائنس اور فلسفے میں فرق بتاتے ہوئے کہتے ہیں:
“ایک خاص قسم کی سائنس ہے جو ہستی کو بطور ایک شے جانچتی ہے، اور جس چیز کا تعلق خود اس وجود سے ہے۔ یہ سائنس ان جیسی نہیں ہے جنہیں خصوصی علوم کہا جاتا ہے؛ کیونکہ خصوصی علوم وجود کو عموماً وجود کے طور پر نہیں دیکھتے بلکہ وہ اس کے کچھ حصے کو الگ کرتے ہیں اور ان کے اوصاف پر غور کرتے ہیں، جیسا کہ ریاضی کے علوم کرتے ہیں۔ لیکن چونکہ ہم اصل اور بنیادی وجوہات کی تلاش میں ہیں، اس لیے یہ واضح طور پر ضروری ہے کہ ان علتوں کی ایک خاص نوعیت ہو۔”۔
اگر فلسفے کی باقاعدہ تعریف کی جائے تو وہ کچھ یوں ہوگی کہ “فلسفہ عام اور بنیادی سوالات کے مطالعہ اور ان کو حل کرنے کی کوشش کا نام ہے، خاص کرکے وجود، علت، علم، اقدار، ذہن اور زبان کے متعلق۔”۔ لیکن فلسفہ کی شاید ہی کوئی ایک تعریف ہو جو اس کی وسعت کا احاطہ کر سکے۔ اسی لئے ہر فلسفی نے اپنی سمجھ کے مطابق اس کی تعریف کی ہے۔
مشہور برطانوی فلسفی برٹرینڈ رسل اپنی کتاب ہسٹری آف ویسٹرن فلوسوفی میں کہتے ہیں:
“فلسفہ، جیسا کہ میں اس لفظ کو سمجھوں گا، الہیات اور سائنس کے درمیان ایک درمیانی چیز ہے۔ الہیات کی طرح ، اس میں ان معاملات پر قیاس آرائیاں شامل ہیں جن کے بارے میں قطعی علم ، اب تک ، ناممکن رہا ہے۔ لیکن سائنس کی طرح ، یہ اتھارٹی کے بجائے انسانی عقل سے اپیل کرتا ہے ، چاہے وہ روایت کا ہو یا وحی کا۔”۔

ارسطو فلسفے کی تعریف کچھ اس طرح کرتے ہیں:
“فلسفہ مشاہدات پر عقل کا اطلاق کرکے اپنی دنیا کے بارے میں مزید جاننے اور اپنی کو بھرپور جینے کا نام ہے۔”۔
اب جس طرح ہر علم کی مختلف شاخیں ہوتی ہیں، اسی طرح فلسفے کی بھی مختلف شاخیں ہیں۔ ایسے تو تقریباً دنیا کی ہر چیز فلسفے کے اصولوں کے تحت زیر بحث لایا جاسکتا ہے۔ لیکن روایتی طور پر فلسفے کی چھ شاخیں ہیں، مابعدالطبیعیات، منطق، اخلاقیات، علمیات، جمالیات اور فلسفہ سائنس شامل ہے۔

– منطق
منطق میں کسی چیز پر بحث نہیں کی جاتی بلکہ بحث کے اصولوں پر بات کی جاتی ہیں کہ کونسی بات کرنا عقلی اعتبار سے غلط ہے۔

– مابعدالطبیعیات
مابعدالطبیعیات میں وجود اور اسے جڑی چیزوں یعنی مادہ اور اس کی خصوصیات پر بات کی جاتی ہے۔ وجود کیا ہے؟ ، کیا چیز ایک وجود کو حقیقت دیتی ہے؟۔ غرض یہ کہ یہ ہر چیز کیسے وجود میں آئی ہیں؟ اس کے علاوہ فلسفے کی یہ شاخ ان تمام اشیا و ہستیوں کو اپنا موضوع بحث بناتی ہے جو ہمارے حسیاتی ادراکات میں نہ آتی ہوں یعنی جو طبیعات یعنی مادے کے علم سے ماورا ہو مثال کے طور پر خدا کیا ہے ؟ کون ہے ؟ اس کی ہیت کیا ہے ؟ وحی کی تعریف کیا ہے ؟ نیز مذہبی اصولوں اور ضوابط و قوانین کو وحی کے ذریعہ بیان کرنا کے دراصل وحی یا الہامی کیفیت کیا ہے اسی سے جڑا ہوا سوال یہ ہے کہ الہامی کتب کی نویت کیا ہوتی ہے ؟ اس کے علاوہ موت کیا ہے زندگی ما بعد الموت کیا ہے؟

– اخلاقیات
اس میں بحث ہوتی ہے کہ انسان کو کس طرح رہنا چاہیے؟ اور اپنے آس پاس کے لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیے؟ اور کیوں؟

– جمالیات
اس میں خوبصورتی پر بحث ہوتی ہے کہ خوبصورتی کا کوئی اپنا وجود ہے؟ یا پھر یہ دیکھنے والے کی “نظر” میں ہوتی ہے؟ اس کے علاوہ آرٹ کیا ہے؟ اور کن بنیادوں پر ایک آرٹ کو دوسری سے بہتر کہا جاسکتا ہے؟

– علمیات:
اس میں علم پر بحث کی جاتی ہے کہ علم کیا ہے؟ یہ کہاں سے آتا ہیں؟ کیا علم حاصل کرنا ممکن بھی ہے؟ اور کس طرح صحیح خیال کو بھی کبھی کبھار علم تسلیم نہیں کیا جاسکتا؟

– فلسفہء سائنس
اس میں بحث ہوتی ہے کہ سائنس کیا ہے؟ سائنس کس طرح کی جاتی ہے؟ کونسے علوم سائنس کے زمرے میں آتے ہیں؟ اور کسی علم کو سائنسی کہنے کا کیا معیار ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

جغرافیائی طور پر فلسفے کو فلسفے کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مغربی فلسفہ، مشرقی فلسفہ، مشرق وسطی فلسفہ، افریقی فلسفہ اور امریکی فلسفہ۔ مغربی فلسفہ کا آغاز سقراط سے ہوتا ہے لیکن اس کے بعد جو کام افلاطون اور ارسطو نے کیا وہ اتنا بہترین تھا کہ اس نے نہ صرف آنی والی کئی صدیوں میں مغرب پر گہرے اثرات مرتب کیے بلکہ مشرق وسطیٰ کے فلسفے کی بنیاد ڈالنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ مغربی فلسفیوں کے ناموں میں ارسطو، ڈیکارٹ، اکوانس، کانٹ، لاک، ہیگل اور مارکس کے نام سرِ فہرست ہیں۔اسی طرح ہندوستان اور چین میں شروع ہونے والے فلسفے کو مشرقی فلسفہ کہا جاتا۔ مشرقی فلسفیوں میں کنفیوشس، ادی شنکر اور پتنجلی شامل ہیں۔ مشرق وسطی فلسفے کے بنیاد الکندی نے ڈالی۔ انہوں نے ارسطو کے فلسفے پر ایسی کتاب لکھی جو مسلمانوں کے لئے سمجھنا اور قبول کرنا کے لئے آسان تھی۔ مشرقِ وسطی کے فلسفیوں نے مابعدالطبیعیات، منطق اور اسلامی اصولِ فقہ پر کام کیا اور اسلام کی فلسفیانہ بنیادیں ڈالیں۔ ان میں ابنِ سینا، الفرابی، عمر خیام اور الغزالی سرفہرست ہیں۔ افریقی فلسفے میں سینٹ آگسٹائن آف ہپو کا نام قابلِ ذکر ہے اور امریکی فلسفیوں میں تھومس پین، رالف امرسن اور ولیم جیمز شامل ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply