• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ایک مسیحی کا کھتارسس/ پاکستانی معاشرے میں مسیحی سماج کا حالیہ المیہ/ اعظم معراج

ایک مسیحی کا کھتارسس/ پاکستانی معاشرے میں مسیحی سماج کا حالیہ المیہ/ اعظم معراج

24stmbr,2023

Advertisements
julia rana solicitors

سماج، مذہبی، سیاسی ،یا سماجی کارکن بدلتے ہیں ۔۔
سیاسی کارکن کے لئے سب سے بڑی موٹی ویشن اپنے نظریات پر یقین کے زریعے ووٹ حاصل کر کے معاشرہ بدل کر خلق خدا کے لئے آسانیاں پیدا کرنا ہوتا ہے ۔۔اگر انتحابی نظام میں یہ عنصر قائم ہو تو سیاسی کارکن ہو یا خؤد ساختہ راہنماہ متحرک ہو کر عوام ،ریاست،حکومت کے درمیان پل بنتے ہیں۔اس پل سازی کے عمل میں نا چاہتے ہوئے بھی, معاشرتی آگاہی اور ہم آہنگی پھیلتی ہے. یوں اجتماعی خود شناسی کا خؤد کار نظام ترتیب پاتا ہے۔دیگر معاشروں میں سماجی و مذہبی ورکر بھی یہ ہی کام کرتے ہیں۔ کیونکہ وہاں مذہبی ،سماجی میلان رکھنے والے انسان سوچ سمجھ کر ان پر خطر راہوں کا انتخاب کرتے ہیں ۔۔ اور انکی موٹی ویشن خدا کی خوشنودی اور خلق خدا کی بہتری ہوتی ہے۔انھی جزبوں سے سرشار مشنریوں کی دؤر اندیشی ،لگن ،محنت ،صبر ، اور ریاضت سے مسیحیت کے بیج برصغیر میں بوئے گئے ۔جسکی بدولت پاکستانی مسحیو کے اجداد کو ہزاروں سال کی ذلتوں سے اسی قبیلے کے مذہبی و سماجی کارکنوں نے نکالا ہے ۔۔ انھی خدا کے حقیقی ماننے والوں کی بدولت پاکستان کے مسیحو کے اجداد کو مسیحی شناخت کے ساتھ تعلیمی اور سماجی بھلائی کے دیگر اداروں کی بدولت تعلیم اور شعور ملا ۔۔لیکن پہلے ان خدا کے بندوں کے جلدی جانے کی بدولت اور ان کے کم ذہنی علمی و اخلاقی استعداد کے جانشینوں اور مخصوص بین الاقوامی ایجنڈوں کے زیر اثر اور مسحیو کے محسن کشی کے رویے کی بدولت یہ ادارے تباہ وبرباد ہوئے۔۔ معاشرتی امیتازی رویوں اور انکے ذیلی پیداوار امتیازی قوانین اور دیگر اہسے عناصر کی بدولت اب پاکستانی معاشرے میں اقلیتی شہریوں کی بقاء و ترقی مشکل ہوتی جارہی ہے۔ جس کی کئی وجوہات ہیں ۔اسکی کی وجہ سے روزگار کے مواقع کم ہونے سے تبلیغ اور مذہبی اداروں کے ذیلی ادروں اور ان سے جنم لینے والے سماجی بھلائی کے نجی ادارے روزگار کا بڑا ذریعہ رہ گئے ہیں ۔ جسکی بدولت پاکستان میں مسیحی شناخت بھی اپنی روایتی پہچان سے ہٹ کر نوسر بازوں،شعبدہ بازوں اور محرومیوں کے سوداگروں کی تصویر بنتی جا رہی ہے۔ جس سے ان پیشوں/شعبوں سے منسلک نیک نیت شخصیات بھی اپنی ساکھ کھور ہی ہیں ۔۔اس پر مزید ظلم یہ ہؤا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے لئے کبھی بھی شفاف اور انصاف پر مبنی انتحابی نظام نہیں رہا۔جس کی بدولت پاکستان کے معروضی معاشرتی حالات میں اقلیتی سیاسی کارکن تقریبا ختم ہوچکے ہیں۔۔ قومی سیاسی جماعتوں میں شامل سماجی ومعاشرتی آگاہی اور خود شناسی سے نابلد سیاسی کارکن جموری غلاموں کی جیتی جاگتی تصویر بن چکے ہیں ۔۔ گوکہ مسحیو کی خاصی تعداد میں سیاسی پارٹیاں بھی ہیں ۔لیکن وہ پاکستانی معاشرے کے معروضی سیاسی حالات کے مطابق کسی بھی طرح مروجہ رائج کلچر کے میعار (ووٹ بینک ،وسائل یا نظریاتی طور)پر پوری ہی نہیں اترتی اس لئے وہ اس سیاسی نظام میں اپنی موجودگی کا احساس ہی دلا نہیں پاتی ہیں ۔اس ویکیوم اور دیگر بین الاقوامی عناصر کی بدولت محرومیاں کی سوداگری اور تبلیغ نے صنعت کی شکل اختیار کرلی ہے،جس میں نیک نیتی کا عنصر بہت کم اور روزگار و بیوپار کا عنصر غالب ہے ۔۔سماجی و مذہبی ورکر اس صنعت سے خوشحال ہو گئے ہیں۔۔ کئی تو باقاعدہ یورپ کے تاریک دَور کے مذہبی راہنماؤں کی طرح کے رویے اپنائے ہوئے ہیں ۔ “بغیر کسی تنقیدی و تنقیصی مقصد کے دو مثالیں پہلی مثال تقریبآ تین دہائیوں سے بظاہر بیروزگار ایک خاندان کے ایک فرد کو میں نے ٹی وی پر یہ کہتے سنا “ہمیں تو ویزا مل سکتا ہے۔لیکن غریب مسیحو کے لئے تو یہ بھی شجر ممنوعہ بن چکا ۔”۔ دوسری مثال ۔ایک سیاسی کارکن ایک مکمل بے ضرر سیاسی مسئلے کو اسمبلی کے فلور پر بات کرنے کی بجائے مجھے فرمانے لگے “یہ بات اسمبلی فلور پر نہیں میں اپنی سماجی بھلائی کی تنظیم کے پلیٹ فارم سے اٹھاؤں گا” ۔ ان مثالوں کا مقصد مسحیو کے ان “محسنوں” کی اجتماعی نفسیات کی نشان دہی ہے۔اس طرح کی لاکھوں مثالوں کی بدولت مسیحو کی سیاسی جماعتیں اور بچے کچھے قومی جماعتوں میں شامل مسیحی سیاسی ورکر بھی اسی راہ پر چل نکلے ہیں۔وہ بھی یا تو ان کی پیروی کرتے ہیں ۔یا اسی تگ و دو میں ہوتے ہیں ۔۔کہ کوئی بین الاقوامی ڈونر نصیب ہو جائے ۔۔۔ یوں اس صنعت کے پنپنے سے عوام ان کے لئے پروڈکٹ اور یہ ورکرز بالترتیب سیلز مین /وومین مارکیٹنگ مینیجر اور بین الاقوامی مذہبی و سماجی ڈونرز انکے گاہک/ پرنسپل انٹرپرونیور ہوگئے ہیں۔اس صعنت کی خاص بات یہ ہے ۔ کہ پروڈکٹ جتنی گلی سڑی ناقض ہوگی ۔ گاہکوں کی توجہ زیادہ حاصل کرتی ہے۔ان سارے سانحات کا مجعوعی نتیجہ یہ نکلا کہ مسیحی نوجوان شدید معاشرتی بیگانگی کے مرض میں مبتلاء ہو کر معاشرے سے یکسر بیگانےہو گئے ۔ اور اپنا مستقبل انھی پیشوں میں تلاش کرتے ہیں ۔ اور انکے آئیڈیل یہ ہی شبعدہ باز و محرومیوں کے سوداگر ہوگئے ہیں.. جبکہ عام انسان اول الذکر ادروں کے ذمداروں سے بھیک لینے کو اپنا حق سمجھنے لگے ہیں ۔۔ ۔جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے۔۔ کہ مسیحی نوجوانوں میں سب سے تیزی سے فروغ پانے والا روزگار مذہب کی تبلیغ اور سماجی بھلائی سے جڑے ادروں میں ملازمت ہے.. ۔۔ جسکی انتحائی کامیابی کا میعار ایسے ادارے کا مالک بننا ہوتا ہے ۔۔ جبکہ پاکستانی مسیحی پاکستانی معاشرے کے ہر شعبہ زندگی میں انتحائی روشن مثالوں کی وراثت کے حامل ہیں۔ پاکستانی مسیحی سماج میں اس المیے کے اثرات اس حد تک سرایت کرچکے ہیں ،کہ مسیحو کے دیگر شعبوں میں کامیاب افراد بھی ان اثرات سے اپنے آپ کو بچا نہیں پاتے آور اکثر اوقات اپنے جذبہ خؤد نمائی،یا ایسے پیشوں سے وابستہ افراد کی کامیاب مارکیٹنگ و ایڈورزنگ مہم سے مجبور ہو کر ان کے پلیٹ فارموں کو استعمال کرنے کے لالچ میں مسحیو کے محسنوں کی حقیقی مسیحی تعلیمات کے زیر اثر دؤر اندیشی ،لگن ،محنت ،ریاضت ،صبر سے قائم کئے گئے اداروں اور اپنے ماں باپ کی انتھک محنت کے ثمرات کو بھی ان کے کھاتوں میں ڈال کر نوجوانوں کی اجتماعی گمراہی کا سبب بنتے ہیں ۔۔۔ اس سے بھی بڑا المیہ کہ ہمیں اس کا ادارک بھی نہیں۔اس اجتماعی اندرونی سماجی المیے کے اور بیرونی معاشرتی جبر سے نمٹنے کے سینکڑوں حل ہو سکتے ہیں ۔لیکن قلیل المیعاد ،وسط المیعاد یا طویل المیعاد حل تو ہم تب سوچے گے جب ان اندرونی سماجی و بیرونی معاشرتی خطرات کا ادارک کر پائیں گے ۔اورہم یہ مان لے کے اس معاشرے میں ہماری اصل مسیحی شناخت معدوم ہورہی ہے ۔اگر مسیحیوں نے اس اجتماعی المیے کی شدّت کا احساس نہ کیا تو یہ ہمیں اجتماعی ضفعت سے فنا کی طرف لے جائے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply