بیل بجا کر تشدد کو روکیں ۔۔۔عبدالرؤف

میں کب سے اندر کمرے میں چیخ وپکار کررہا تھا لیکن کوئی میری دادرسی کے لئے نہیں آیا اور نہ ہی کسی نے باہر سے آکر بیل بجائی ۔ میرے چیخنے پر کسی نے کان نہ دھرے لیکن جونہی صنف نازک کی آواز باہر صحن میں پہنچی اماں نے دہائیاں دیتے دروازے کو پیٹنا شروع کردیا ۔ دروازہ کھولو ، بہو کیوں رو رہی ہے ؟ تمھیں کیا آفت آن پڑی ہے کہ بیگم کور ونے پر مجبور کیا۔۔
میں اک دم سکتے میں آگیا ۔ جب میں چیخ رہا تھا تو کوئی میری پکار نہیں سن رہا تھا ۔ لیکن بیگم کی آواز پر پورا گھر لبیک کہتے ہوئے دروازے پر آپہنچا اور مجھے جلی کٹی سنانا شروع کردی ۔ میں اندر کمرے میں سکتے کی حالت میں کھڑا باہر کا یہ شور و غوغا سنتا رہا ۔
اندر کمرے میں ، میں اور میری بیگم ایک دوسرے کو حیرت سے تکنے لگے کہ اب کیا کیا جائے ؟
ہوا کچھ یوں تھا کہ میں اور میری بیگم کسی پرانی بات کو لیکر اس پر بحث شروع کررہے تھے ۔ بات جب تک درست سمت میں تھی معاملات بہتر تھے ۔ لیکن جیسے ہی دلیل ختم ہوئی بات شور شرابے پر آگئی ۔ پہلے میں چلاتا رہا اس کے بعد بیگم نے اپنی چیخ وپکار سے باہر کے ماحول کو اپنی طرف متوجہ کردیا ۔۔

کچھ دن پہلے اک نجی میڈیا چینل پر اک اشتہار دیکھا جس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ اگر آپ کو کسی گھر سے جنسی تشدد یا جبری تشدد کی چیخ وپکار سنائی دے تو آپ بیل بجائیں تاکہ معاملے کی سنگینی کا اندازہ ہو ، اب یہ نہیں معلوم کہ وہ نجی چینل کس طبقے پر تشدد کی بات کررہا تھا ،آیا اس میں صرف اک مخصوص طبقے کی بات ہورہی تھی جسے ہم صنف نازک اور ناری بھی کہتے ہیں یا اس کے علاوہ بھی اگر کسی پر تشدد ہورہا ہو تو بیل بجائی جائے ؟

پوری دنیا میں اگر گھریلو تشدد کی بات کی جائے تو سر فہرست اک ہی طبقہ ہے اور وہ ہے خواتین کا جس پر ہر طرح کا جبری تشدد کیا جاتا ہے اور اسی مظلوم طبقے کو جنسی ہراساں بھی کیا جاتا ہے ۔ا س طبقے پر تشدد آج کی بات نہیں بلکہ یہ ریت رسم صدیوں سے چلتی آرہی ہے ۔آج کچھ لوگ اسے  ذہنی پستی  اور پسماندگی ،غربت اور بے روزگاری کی وجہ بھی قرار دیتے ہیں ، علم کی کمی بھی سب سے بڑی وجہ قرار دی جاتی ہے ، لیکن ایسا نہیں ہے ۔کسی ایک طبقے کے کھاتے میں یہ سب ڈال دینا انصاف نہیں ہوگا ۔ صرف جہالت بے روزگاری اور علم کی کمی ہی اس کی وجہ نہیں بلکہ ایسے پڑھے لکھے گھرانے بھی دیکھے گئے  ہیں جہاں اس طبقے کو زندہ درگور کیا گیا ۔

کثرت شراب ۔جوئے  کے عادی مجرم ۔ وہ مرد حضرات جو عورت کو اک کمزور طبقہ سمجھتے ہیں ، اور وہ لوگ بھی اس میں سر فہرست ہیں جو کسی وجہ سے کام دھندہ نہیں کرتے اور سارا سارا دن گھر پر پڑے رہتے ہیں ، عورت پر ہاتھ اٹھانا دلیری نہیں اور عورت کو زدو کوب کرنا بھی اچھی بات نہیں ،لیکن اس بات کو جواز بنانا کہ ہر جگہ عورت کے ساتھ ہی زیادتی ہوتی ہے وہ بھی مرد کی جانب سے تو یہ سراسر زیادتی ہے۔۔،

عورت کو اگر اس دنیا کا حسن کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا اور حسن کو کبھی گہن نہیں لگتا ، عورت دیوی ہے عورت ملکہ ہے عورت راجکماری ہے راج دلاری ہے ، عورت ماں ہے عورت بہن ہے عورت بیٹی ہے اور عورت بیوی بھی ہے ،یہ ہر روپ میں اک دیوی ہے ،اگر یہ ماں ہے تو اس کے پیروں میں جنت رکھی ہے ،اگر یہ بہن ہے تو یہ رب کی طرف سے بھائی کے لئیے اک عظیم اور خوبصورت تحفہ ہے ،اگر یہ بیٹی ہے تو ماں باپ کے لئیے شہزادی سے کم نہیں ، اور اگر یہ بیوی کا روپ دھار لے تو یہ اس شوہر کے لئیے چند مہتاب ہے ،چودھویں کا چاند ہے، خوبصورتی کے جتنے بھی روپ ہیں وہ اک بیوی میں سما جاتے ہیں ،
جب اتنی ساری صورتوں میں عورت کے اتنے خوبصورت روپ ہیں تو پھر کیونکر اس ناری پر ظلم ہوگا اور مرد ہی کیوں معتوب ٹھہرے گا ، یہ اک سچ ہے کہ سسرالیوں کی جانب سے بہوؤں پر بہت مظالم  ڈھائے جاتے ہیں ، لیکن یہ بھی اک کڑوا سچ ہے کہ اکثر اوقات میاں بیوی مل کر بھی ساس سسر پر مظالم ڈھاتے ہیں جس میں بیٹا خود بھی شامل ہوتا ہے ، یاد رکھنا تالی اک ہاتھ سے نہیں بجتی خواتین پر جہاں بھی مظالم ڈھائے گئے اس میں اکثر وبیشتر خواتین کا ہی ہاتھ رہا ، اور یہ کہنا کہ ظلم صرف شوہر کی جانب سے ہوتا ہے تو یہ بھی غلط ہے ہر شوہر کو ظالم نہیں ٹھہرایا جاسکتا ، ایک باپ اپنی بیٹی کو مار سکتا ہے  ایک  بھائی اپنی بہن پر ہاتھ  اٹھا سکتا ہے ،اور ایک شوہر بھی اپنی بیوی کو زدو کوب کرسکتا ہے ،لیکن کیا یہ دنیا اتنی بے حس ہے کہ اک عورت پر ظلم ہوتا ہے اور تمام دنیا تماشا  دیکھتی ہے ، ایسا ہرگز نہیں ہے ہر گھر میں یہ تماشا  نہیں ہوتا ، کچھ لوگوں نے اس بات کا ہوا کھڑا کردیا ہے کہ عورت پر ظلم ہوتا ہے اور اس پکار کو اتنی بےدردی سے پھیلایا گیا کہ اب جھوٹ پر بھی سچ کا گمان ہونے لگا ہے ، اگر عورت پر اتنے ہی مظالم ڈھائے جاتے تو کیا آج کی عورت اتنی آزاد نظر آتی ، کیا عورتیں تعلیم کے میدان میں نظر نہیں آتیں کیا عورتیں ڈاکٹر نہیں بنتیں ، کیا ہمارے معاشرے میں عورتوں کو برابر کے حقوق نہیں دئیے جاتے ، کیا آج کی خواتین ہمارے شانہ بشانہ نہیں کھڑی ، کیا آج کی خواتین بازاروں کا رخ نہیں کرتیں ، کیا ہماری بہنیں بیٹیاں کالج یونیورسٹی کا رخ نہیں کرتیں ، تو پھر خواتین پر ظلم کیسا ۔۔
یہ سب تماشا  میڈیا اور کچھ روشن خیال لوگوں نے لگا رکھا ہے جس کا مقصد عورت کو بیجا آزادی اور بےراہ روی کی طرف مائل کرنا ہے ،اگر کسی گھر میں خاتون کی چیخ وپکار سنائی دے رہی ہو اور آپ بیل بجا دیں اور وہاں سے کوئی مرد دروازے پر نمودار ہوکر پوچھ لے کہ کیا مسئلہ ہے اور ان سے کہے کہ یہ چیخ وپکار کیسی ؟ اور وہ جواب میں کہے کہ میری بیوی پر جن چمٹ گئے ہیں وہ اس لئیے چیخ وپکار کررہی ہے تو آپکا اگلا آپشن کیا ہوگا ،
اسی طرح کسی گھر میں ماتم ہوا ہو اور اس گھر سے بین کی آواز آرہی ہو اور آپ اپنی بہن پر تشدد سمجھ کر بیل بجا دو اور وہ کہے کہ میت ہے تو اگلا قدم کیا ہوگا ، اور پھر یہ بیل ہم جب ہی بجائیں گے جب یہ ظلم صرف صنف نازک پر ہوگا؟ یا اس میں تمام طبقات شامل ہیں ،کیونکہ ظلم تو ظلم ہے چاہے کسی کے ساتھ بھی ہو آپ نے بند باندھنا ہے اس ظلم کے خلاف .

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارے اس روشن خیال طبقے اور آزاد میڈیا کو صرف یہ عورت ہی مظلوم کیوں نظر آتی ہے ، وڈیرے کا ظلم ، جاگیردار کا ظلم چودھری اور خان کا ظلم ، ہمارے معاشرے میں آئے روز نت نئے مظالم کی نئی نئی کہانیاں جنم لیتی ہیں وہ ظلم نظر نہیں آتے ،صرف اک شوہر کا ظلم رہ گیا ہے ،
اگر کوئی چرسی بھنگی شرابی اپنے نشے میں دھت بیوی پر ظلم کرتا ہے یا کوئی چودھری ،وڈیرہ ،جاگیردار ، یا کوئی خان اپنی انا اور شان وشوکت کے دکھاوے اور پیسوں کے زعم میں اپنی عورتوں پر ظلم تشدد کرتا ہے تو ان کی پکڑ ہونی چائیے اور انھیں کڑی سے  کڑی سزا دینی چاہیے ، ویسے بھی میرا مذہب اور میرا یہ معاشرہ اس بات کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ عورت کو تشدد کا نشانہ بنایا جائے،
یہ کیا بات ہوئی کہ اگر آپ کو خواتین کے رونے دھونے کی آواز آئے تو آپ فوراً سے بیشتر گھر کی بیل بجائیں ، ضرورت ہی کیا ہے کوئی غیر شخص دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی کرے ، ہاں! یہ حق پڑوسی کو ضرور حاصل ہے کہ اگر اسے کوئی ایسی چیخ وپکار سنائی دے جس میں لگے کہ اندر کوئی لڑائی جھگڑا ہے اور نقصان کا اندیشہ ہے تو پہلی فرصت میں پڑوسی کو چاہیے  کہ وہ دروازہ بجا کر معاملے کی سنگینی کا جائزہ لے ، اور گھر کے اندر موجود لوگوں کو باہر بلا کر انھیں سمجھایا جائے ، یہ اک احسن طریقہ ہے معاملات کو سلجھانے کا ، یہ ضروری نہیں کہ جب بھی عورت روئے گی تو معاملہ تشدد کا ہی ہوگا ،ہوسکتا ہے شوہر اس دفعہ پوری تنخواہ بیگم کے ھاتھ میں نہ دے رہا ہو ، یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ گھر کی خاتون نے دیوار پر چھپکلی دیکھ لی ہو اور اس کے ڈر سے چیخ رہی ہو ، اور ویسے بھی عورت کی چیخ وپکار پورے محلے کو سر پر اٹھا لیتی ہے۔،
میرا خیال ہے میڈیا بجائے بیل بجانے کے کوئی دوسرا راستہ اختیار کرے یہ اخلاقی طور پر درست نظر نہیں آتا ،میڈیا کو چاہیے آجکل می ٹو کا زمانہ ہے  ،فیکٹری کارخانوں ،اور آفس میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے کیس بہت زیادہ ہیں میڈیا کو ان کی دادرسی کے لئیے جانا چاہیے ، اور وہاں کام کرتی خواتین میں اس بات کا شعور اجاگر کرنا چاہیے کہ اگر آپ کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ  ہو جس میں آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے ساتھ جنسی ہراسگی والا معاملہ ہے تو فوراً سے بیشتر ہمیں اس نمبر پر آگاہ کریں  ، عوام بھی اس بات کو لائق تحسین سمجھے گی اور میڈیا کے رینک میں بھی اضافی ہوگا ، بیل بجا کر میاں بیوی کے معاملات میں دخل اندازی نہ کی جائے تو بہتر ہوگا ۔

Facebook Comments

عبدالروف
گرتے پڑتے میٹرک کی ، اس کے بعد اردو سے شوق پیدا ہوا، پھر اک بلا سے واسطہ پڑا، اور اب تک لڑ رہے ہیں اس بلا سے، اور لکھتے بھی ہیں ،سعاد ت حسن منٹو کی روح اکثر چھیڑ کر چلی جاتی ہے،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply