ہائے ٹھرک۔۔عارف خٹک

شارخ خان کی ڈر فلم تب دیکھی جب ساتویں جماعت تازہ تازہ پاس کی تھی۔ ہم نے فوراً سے پیشتر اپنی متوقع محبوبہ کا نام “کرن” رکھ دیا۔ انتھک محنت کے بعد چچا تلاوت خان کی منجھلی بیٹی کو پٹانے میں کامیاب ہوگئے۔ شیرین جانہ عمر میں مجھ سے دگنی اور صحت میں چار گنی تھیں۔ روز ہمارے کنویں  سے کھوتی پر پانی بھر کر لیجاتی تھی۔ ایک دن کھیتوں میں حوائج ضروریہ  سے فارغ ہوکر، تازہ آکسیجن پھیپھڑوں میں بھر کر، خراماں خراماں خود کو شارخ خان سمجھتا آرہا تھا کہ شیرین جانہ نے میری تھرکتی چال دیکھ کر آواز دی کہ مجھے لقوہ ہوگیا ہے؟۔

جواب میں شارخ خان کی طرح منہ ٹیڑھا کرکے  فقط اتنا کہا کہ  “نہیں کرن تیرا اندر گھسا پیار ٹھاٹھیں مار رہا ہے”۔

شیرین جان وہیں ڈھے گئی۔

شیرین جان اَن پڑھ تھی۔ پیار بذریعہ خطوط ناممکن، سو حل یہی نکلا کہ چچا قربت خان کے ٹیپ ریکارڈر پر کیسٹیں ریکارڈ کرکے ان کو حال دل سنایا جائے۔ یہ معمول تھا کہ صبح سویرے ٹیپ ریکارڈر میں بیٹریاں ڈال کر ملحقہ پہاڑی کے چوٹی پر چڑھ جاتے اپنا حالِ  دل سب ریکارڈ کرلیتے اور اگلے دن وہ کیسٹ کا جواب بذریعہ کیسٹ دیکر پورا دن ہمیں مست رکھتیں۔ اب باقاعدہ ہم نے بالوں میں سرسوں کا تیل ڈالنا، آنکھوں میں سرمہ ڈالنا ،اور روزانہ دانداسہ ملنا شروع کیا کہ صفائی نصف ایمان ہے۔

ایک گھنٹے دورانیے  کی کیسٹ میں جب باتیں ختم ہوجاتیں تو مشہور زمانہ فلم “خدا گواہ” جو افغانستان کی قومی فلم ہے، کے ڈائیلاگز بولے جاتے۔ چھ ماہ پر محیط اس عشق نے ہمیں اس قابل کیا کہ شیرین جانہ کی سب سے چھوٹی والی بہن گل جانہ ہماری محبوبہ کے درجے پر فائز ہوگئیں اور اگلے دن یہی شیرین جانہ ہمارے محبت ناموں کی ترسیل کا ذریعہ بھی بنی۔ نہ کوئی رقابت نہ کوئی حسد اچھے وقتوں کے  لوگوں کا خاصہ یہی تھا۔

سوچتا ہوں کاش اپنی ٹیڑھی منہ والی بیگم کو شیرین جانہ سے ٹیوشن لگوا دوں کہ “بڑا دل” رکھنا کس چڑیا کا نام ہے۔

اب یہ وقت ہے کہ بندہ کسی خاتون کو مسکرا کر جوابی کمنٹ میں مسکراہٹ والی ایموجی دے تو جاہل بیگم لٹھ  لے  کر پیچھے پڑجاتی ہے  کہ “بدکردار آدمی عمر دیکھو اور اپنے چونچلے”۔ ہزار قسمیں کھاؤ مگر بے سود کہ، اسی طریقہ واردات کا شکار میں بھی ہوگئی تھی۔

مجھے یاد ہے , انٹر کے بعد شاہ رخ خان کی فلم “دل والے دلہنیا لے جائیں گے”, دیکھنے کے بعد میں خیالوں میں اپنی خودساختہ کاجل کی بانہوں میں بانہیں ڈالے اپنے گاؤں کی پگڈنڈیوں پر سرپٹ دوڑتا تھا۔ نتیجہ گاؤں کی گل بی بی جس کا منہ بالکل توے کی طرح سیاہ تھا، ہمارے جھوٹی اور فلمی محبت ناموں کی اسیر ہوگئیں۔ کبھی کبھار اس کا منہ دیکھ کر سوچتا کہ “یار عارف اگر اس کی شادی تیرے ساتھ ہوگئی تو تیرے بچے تو گئے بیٹا”۔ پھر خود کو یہ کہہ کر مطمئن کرتا کہ کاجل کی کون سی شادی شارخ خان سے ہوئی ہے۔

جس ہفتے بنوں سنیما میں مسرت شاہین کی فلم دیکھ کر آتا، اس دن میں دس دفعہ فیروزہ چچی سے عشق میں گرفتار ہوجاتا تھا۔ چچی فیروزہ کو آج تک سامنے سے نہیں دیکھا کہ پردے کی بڑی سخت پابند تھیں، خیر سامنے سے تو ہم نے آج تک مسرت شاہین کو بھی نہیں دیکھا شاید دونوں از حد شرمیلی ہوں گی یا باجی مسرت شاہین بھی پردے کی پابند ہوں گی۔ اس چکر میں چچی فیروزہ کیلئے دو کلومیٹر دور بازارسے پیاز اور ٹماٹر لاتے ہوئے ہمارے پیر بھی چھل جاتےتھے مگر مجال ہے منہ سے “اُف” بھی نکلا ہو جب بھی نکلا تنہائیوں میں “اوئی” ہی نکلا۔ ۔

Advertisements
julia rana solicitors

الغرض کوئی ناول پڑھتا تو ناول کی ہیروئن اپنی چوسنی ہمارے منہ میں ضرور دیتی تھی۔
شکر ہے بیس سال بعد معلوم ہوا کہ اس کو ٹھرک کہتے ہیں۔ اگر اس زمانے میں خاندان والوں کو پتہ چل جاتا کہ ٹھرک گناہ ہے کفر ہے، ذلالت ہے اور نامردی بھی ہے تو وللہ آج کرک میں اس ناچیز کی قبر پر کوئی کھوتی گھاس چر رہی ہوتی۔

Facebook Comments