محبت کیا ہے؟ افلاطون اور ارسطو کا نقطہ نظر(2)-حافظ محمد زبیر

سقراط کے شاگرد افلاطون نے محبت کے بارے جو تصور دیا، وہ آج افلاطونی محبت (Platonic love) کے نام سے معروف ہے۔ واضح رہے کہ خود افلاطون نے اسے یہ نام نہ دیا تھا، یہ نام تو اسے بعد والوں نے دیا ہے۔ افلاطون کے تصورِ محبت پر اس کے استاذ سقراط کے نظریہ کا بہت اثر نظر آتا ہے۔ انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا کے مطابق افلاطونی محبت سے مراد وہ محبت ہے کہ جس میں شہوت یا جنسی تعلق شامل نہ ہو (affectionate relationship in which sexual intercourse is neither desires nor practiced)۔ قرون وسطی میں اسی سے ملتی جلتی ایک اصطلاح عظیم محبت (courtly love) کے نام سے بھی معروف ہوئی اور مغربی لٹریچر کا حصّہ بنی۔ یہ محبت اگرچہ شہوت انگیز (erotic) تھی لیکن محبوبہ کا حد درجہ احترام جنسی خواہش کی تکمیل (sexual intercourse) میں مانع رہتا تھا۔ البتہ محبوبہ کی اجازت سے اس کا امکان بھی تھا۔ آسان الفاظ میں عاشق اپنی محبوبہ سے محبت نہیں بلکہ اس کی پوجا کرتا تھا لہذا حد درجے مطیع اور اس کی رضا کا طلب گار رہتا تھا۔

افلاطونی محبت کوئی چیز ہے یا نہیں، بہر حال ایک بڑی تعداد کا خیال ہے کہ اس کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے۔ جہاں بھی محبت موجود ہے، خاص طور جنس مخالف کی محبت، وہاں شہوت موجود ہے، اس کا انکار ممکن نہیں ہے۔ افلاطون جنس کا انکار نہیں کرتا لیکن وہ یہ کہتا ہے کہ ہمیں محبت کو حیوانی خواہش سے اس حقیقی حسن (ideal beauty) کی طرف اٹھا دینا چاہیے جو کہ عالم امثال (world of ideas) میں موجود ہے۔ افلاطون معاشرے کو تین حصوں میں منقسم کرتا ہے۔ اس کے بقول لوگوں کا ایک طبقہ تو وہ ہے جو جبلت کی سطح پر زندگی گزارتا ہے کہ ان کی زندگی کا مقصد ہی اپنی جبلتوں (instincts) کو پورا کرنا ہوتا ہے، یہ حیات ِ انسانی کی حیوانی سطح (biological level) ہے۔ افلاطون کی نظر میں ایسے لوگ در حقیقت غلام ہیں یعنی اپنی خواہشات کے غلام۔ ان کا کام صرف اپنی خواہش مثلاً بھوک، جنس، غصہ وغیرہ کو پورا کرنا ہے۔ انہیں آپ سمجھا نہیں سکتے، نہ ان کی تربیت کر سکتے ہیں کہ یہ لوہے کی طبیعت (metal soul)کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو چاندی کی طبعیت(silver soul) رکھتے ہیں کہ جذباتی سطح پر زندگی گزارتے ہیں۔ یہ اچھے سپہ سالار اور فنکار (artists) ہو سکتے ہیں۔ ان سے ادب کی تخلیق اور وطن کے دفاع کا کام لیا جا سکتا ہے جیسا کہ شاعر اور سپاہی ہیں۔ ان کے لیے محبت کچھ اور معانی رکھتی ہے۔ معاشرے کا تیسرا طبقہ حکماء اور فلسفی ہیں جو کہ عقلی انسانی (rational human being) ہیں۔ انہی کو ریاست کے معاملات چلانے چاہئیں۔ یہ وہ ہیں جو محبت کی حقیقت کو پا لیتے ہیں اور وہ  مادی چیزوں سے محبت کی بجائے، غیر مادی چیزوں سے محبت کرتے ہیں جیسا کہ محبت کی صورت سے محبت جو کہ مثالی محبت (ideal love) ہے۔

افلاطون کا تصور محبت در اصل اس کے تصور حقیقت کا ایک جز ہے۔ افلاطون کے مطابق حقیقت (reality) یہ مادی دنیا (material world) نہیں بلکہ عالم امثال (world of ideas) ہے کہ جہاں ہر شئے اپنے کمال کے ساتھ موجود ہے۔ مادی دنیا کی ہر چیز کو زوال ہے جبکہ عالم امثال میں ہر شئے  ابدی (eternal)ہے۔ لہذا افلاطون نے محبت کو بھی ایک تصور (idea) بنا دیا تا کہ وہ کمال محبت کا نظریہ پیش کر سکے۔ بعض لوگوں نے اگرچہ افلاطونی محبت کی تعبیر ہم جنس کی محبت (same sex love) سے کی ہے لیکن جنسی جذبہ تو وہاں بھی موجود رہتا ہے۔

افلاطونی محبت کو ہماری روز مرہ کی زبان میں پاکیزہ محبت کا نام بھی دیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسی کوئی پاکیزہ محبت نام کی چیز موجود نہیں ہے۔ 2000ء میں جرنل آف سوشل اینڈ پرسنل ریلیشن شپس (Journal of Social and Personal Relationships) میں شائع شدہ ایک تحقیق کے مطابق کالج کے تین صد طلباء سے ایک سروے کیا گیا کہ جس کے مطابق ان میں سے 67 فی صد کی دوستی، جنسی تعلق میں تبدیل ہو چکی تھی۔

ایک امریکی یونیورسٹی، ونکونسین-ایو کلیئر (The University of Wisconsin–Eau Claire) نے 400 لوگوں کی دوستی کو تحقیق کا موضوع بنایا کہ جس کا نتیجہ یہ شائع کیا کہ ان میں قربت (intimacy) کی خواہش بہت عام تھی اور وہ محض دوستی نہیں تھی۔ اس تحقیق کا خلاصہ یہ تھا کہ دونوں کی طرف سے نہ سہی لیکن ایک کی طرف سے قربت کی خواہش ضرور موجود ہوتی ہے، چاہے کم درجے کی ہو اور یہ عموماً مرد کی طرف سے ہوتی ہے۔

ایک اور امریکی یونیورسٹی، الاباما (The University of Alabama) نے 418 طلبا پر تحقیق کی اور یہ نتائج شائع کیے کہ اگرچہ اکثریت اس بارے پُر امید ہے کہ “محض دوستی” (just friendship) کا وجود ممکن ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ 63 فی صد کا کہنا یہ بھی ہے کہ وہ نظر نہ آنے والی محبت (some kind of secret romantic interest) کا شکار ہوتے ہیں یعنی وہ کسی نہ کسی ذہنی سطح پر جا کر ایک دوسرے میں قربت، رومانویت اور جنسی خواہش محسوس کر رہے ہوتے ہیں لیکن وہ اس کو ماننے یا اس کے اظہار پر تیار نہیں ہوتے۔

افلاطونی محبت کی ایک تعبیر یہ بھی کی گئی ہے کہ جوانی میں تو یہ ممکن نہیں لیکن ڈھلتی عمر میں یہ محبت ہو سکتی ہے۔ جدید تعلیمی اداروں اور دفاتر میں جہاں مخلوط معاشرت ہوتی ہے تو بہت دفعہ جنس مخالف (opposite gender) کی محبت پیدا ہو جاتی ہے جو محض دوستی، پیار ومحبت اور عشق ومعاشقے تک محدود رہتی ہے اور کسی جنسی تعلق یا شادی کی صورت اپنے انجام کو نہیں پہنچتی۔ اسے محض دوستی (just friendship) نہیں کہا جا سکتا کہ یہ اس سے آگے کی چیز ہے کہ اس میں محبت کا لفظ موجود ہے۔ یہاں بھی در اصل حالات ہیں کہ جن کے سبب وہ محبت کا تعلق قربت یا شادی کے تعلق میں نہیں ڈھلتا لیکن قربت (intimacy) کی خواہش برابر موجود رہتی ہے، دونوں طرف نہ سہی، ایک طرف ہی سہی۔ اس لیے افلاطونی محبت محض ایک ذہنی شئے  ہے کہ جس کا خارج میں وجود تلاش کرنا مشکل امر ہے۔ ہاں البتہ خدا کی محبت کو اگر افلاطونی محبت کی نظر سے دیکھا جائے تو اس کا امکان ہے کیونکہ خدا کی محبت میں جنسی خواہش شامل نہیں ہوتی۔ اور شاید افلاطون یہی چاہتا ہو۔

ارسطو کے مطابق دو بندوں میں ایک روح (single soul inhabiting in two bodies) کو محبت کہتے ہیں۔ ارسطو جو کہ افلاطون کا شاگرد تھا، اس کے بقول انسان ایک سماجی حیوان (social animal) ہے اور ان کی باہمی محبت کا مقصد افلاطون کے بیان کردہ کسی مجرد حسن کی پائیداری (timeless reality of abstract beauty) کو کسی مثالی دنیا (world of ideas) میں تلاش کرنا نہیں بلکہ دو افراد کا اپنے باہمی تعلق کے ذریعے پھلنا پھولنا (flourish) ہے۔ ارسطو محبت کو جنسی تعلق (sexual relationship) یا خیر میں غور وفکر (contemplation of the good) کی بجائے دوستی سے ڈیفائن کرتا ہے۔ دوستی کی وہ تین قسمیں بناتا ہے؛ منفعت کی دوستی (friendship of utility)، لذت کی دوستی (friendship of pleasure) اور خیر کی دوستی (friendship of good)۔ فائدے کی دوستی میں ایک دوسرے کا احترام کم ہی ہوتا ہےجیسا کہ تاجروں کی باہمی دوستی ہے یا گاہک اور دوکاندار کی دوستی ہے۔ اس کے بعد دوسرا درجہ لذت کی دوستی کا ہے کہ جس میں دو دوست ایک دوسرے کی صحبت سے مزہ حاصل کرتے ہیں جیسا کہ ایک ساتھ کھانا پینا، کھیل کود کرنا وغیرہ۔ یہ دوستی بھی اس صورت ختم ہو جاتی ہے جبکہ وہ مشترکہ سرگرمی (shared activity) ختم ہو جاتی ہے۔

خیر کی دوستی وہ ہے کہ جس میں دو دوست ایک دوسرے کے کردار کو پسند (character enjoy) کرتے ہیں۔ عموماً ان کے کردار ملتے جلتے ہوتے ہیں اور وہ اپنے دوست سے دوستی اس دوست کی خاطر رکھتے ہیں نہ کہ اپنے فائدے اور لذت کے لیے۔ اسے وہ سچی دوستی (true friendship) کا نام دیتے ہیں۔ بُرے لوگوں کی دوستی پہلی دو قسم پر ہوتی ہے کہ وہ جب تک ایک دوسرے سے فائدہ یا لذت حاصل کرتے رہتے ہیں تو دوست رہتے ہیں لیکن جیسے ہی فائدہ یا لذت ختم ہو جاتا ہے تو دوستی ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن اچھے انسان کی دوستی تیسری قسم کی ہوتی ہے کہ جس میں وہ اپنے دوست کو ایک اور خود (another oneself) سمجھ رہا ہوتا ہے۔ اسی کو ارسطو نے ایک دو جسموں میں ایک روح (single soul in two bodies) کا نام دیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

حافظ محمد زبیر
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی ہیں اور کامساٹس یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ آپ تقریبا دس کتب اور ڈیڑھ سو آرٹیکلز کے مصنف ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply