فوجی مداخلت اور قائداعظم۔۔۔۔۔داؤد ظفر ندیم/قسط5۔حصہ چہارم

قائد اعظم کو سول سروس سے بھی یہ خطرہ ہو گیا تھا کہ یہ لوگ حکومت کی تابعداری کی بجائے خود حکومت کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں ان کو اس بارے میں واضح الفاظ میں روک دیا گیا۔

25 مارچ1948کو حکومت کے افسران سے چٹاگانگ میں ان کی حیثیت یاد دلاتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا۔۔۔۔

’’آپ کو ایک ملازم کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دینے ہیں آپ کا سیا ست اور سیاسی جماعتوں سے کوی سروکار نہیں۔یہ آپ کا کام نہیں ہے یہ سیاستدانوں کا ذمہ ہے کہ وہ کس طرح موجودہ اور مستقبل کے آئین میں رہتے ہوئے اپنے مقاصد کے حصول کی جنگ لڑتے ہیں جس سیاسی جماعت کو اکثریت حاصل ہو گی وہی حکومت بنائے گی آپ کی کسی سیاسی جماعت سے کوئی وابستگی نہیں ہونی چاہیے آپ صرف قومی ملازم ہیں حکومت کی خدمت ایک خادم کی حیثیت سے کرنی چاہیے۔ آپ کا تعلق حکمران طبقے سے نہیں بلکہ ملازمین کے طبقے سے ہے”۔

14اپریل1948کو گورنر ہاوس پشاور میں اعلیٰ سرکاری ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
’’آپ کو کسی سیاسی جماعت کے ساتھ تعاون کرنے کی اجازت نہیں یہ آپ کا کام نہیں کہ آپ کسی سیاسی جماعت کی اعانت کریں ،آئین کے تحت قائم کردہ کوئی بھی حکومت ہو بلا تفریق کہ کون وزیراعظم ہے اور کون وزیر ہے آپ کی ذمہ داری نہ صرف مکمل وفاداری کے ساتھ ان کی خدمت کرنی ہے بلکہ بے خوف ہو کر خدمت کرنی ہے‘‘۔کسی سرکاری ملازم کو خواہ اسکا تعلق گریڈایک سے ہو یا گرید بائیس سے یہ صوابدیدی اختیار کسی صورت میں حاصل نہیں کہ وہ جانبداری کا مظاہرہ کرے کسی بھی صورت میں کسی سرکاری اہلکارکاحکومت سازی کے لیے کسی فریق کی اعانت کرنا ،سازشیں کرنا، نہ صرف غداری جیسا مکروہ فعل ہے بلکہ غیر اسلامی،غیرآئینی اور غیر اخلاقی جرم ہے حکومت ان ملازمین کو عوام کی خدمت کے لئے بھرتی کرتی ہے اور جس معاشرے میں یہ سرکاری ملازم حکمران بن جاتے ہیں ۔قوم کے خون پسینے کی کمائی سے ناجائز مراعات حاصل کرنے،ناجائز طور پر عہدوں اور مرتبوں کے حصول کے لئیے ذاتی خودی اور قومی حمیت کو قربان کر دیتے ہیں تو وہ قوموں کا ایک ایسا ناسور ہوتے ہیں جس کا اثر زائل ہونے کے لئیے کئی دہائیاں چاہیے، بظاہر  وہ اپنے آپ کو عظیم لوگوں کی صف میں شمار کرتے ہیں مگر در حقیقت وہ اپنے منافقانہ رویوں کے باعث پستی کی اتھاہ گہرئیوں میں گر چکے ہوتے ان کوتاہ اندیش اور کج بینوں کو اس حقیقت کا ادراک نہیں ہوتا کہ منافق کبھی عظیم انسان نہیں بن سکتا۔وہ صرف اور صرف منافق ہی رہتا ہے۔تاریخ انسانی ایسے منافقوں کے انجاموں سے بھری ہوئی ہے ۔
قائداعظمؒ کو اس مفادپرست ٹولے کے عزائم کا بخوبی اندازہ تھا اسی لئیے اپنی تقاریر میں بار ہا انہیں متنبہ کیا۔اسی مقصد کے لئیے انہوں نے آئین ،جمہوری تصور اور سرکاری ملازمین کی آئینی حیثیت کو واضح کیا۔

 قائد اعظم اور پاکستان کی خود مختاری

جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت والے اپنے فیصلے میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ پاکستان نے مکمل آزادی حاصل نہیں کی ہے اور اب بھی جزوی طور پر تاج برطانیہ کا حصہ ہے۔ اس رو سے دستور ساز اسمبلی گورنر جنرل کے ماتحت ہے اور گورنر جنرل کو اسے برخواست کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اس مقدمے میں صرف ایک غیر مسلم جج جسٹس کارنیلس نے  یہ موقف اختیار کیا کہ پاکستان مکمل طور پر آزاد مملکت ہے اور دستور ساز اسمبلی ایک خود مختار ادارہ ہے جسے گورنر جنرل برطرف نہیں کر سکتا۔

اب اس بارے میں قائداعظم کے موقف کی تحقیق کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ دولتِ برطانیہ کے تسلط سے آزاد ہونے والے ممالک میں صرف پاکستان کو شرف حاصل ہے کہ جس کے پہلے   گورنر جنرل کے حلف نامے میں ’ہز میجسٹی سے وفاداری‘ کے الفاظ شامل نہیں تھے۔

’’ پاکستان کے نامور ماہر قانون جناب ایس ایم ظفر کی کتاب عدالت میں سیاست کے صفحہ 181 پر جناب ایس ایم ظفر لکھتے ہیں۔۔۔

”ہم نے اپنی تحقیق پاکستان کے ابتدائی تاریخ سے شروع کی ۔ حلف کی اہمیت کا اس سے پتہ چلتا ہے کہ جب 15اگست 1947کو قائد اعظم محمد علی جناح کے بطور گورنر جنرل پاکستان حلف اٹھانے کا وقت آیاتو گورنر جنرل کے حلف کے الفاظ کو جناح صاحب کے اعتراض کی روشنی میں تبدیل کرنا پڑا۔ہوا یوں کہ انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ 1947ءجس کے تحت پاکستان اور بھارت کو آزادی ملی تھی اس کے مطابق نئی مملکت کے گورنر جنرل کو اپنا عہدہ سنبھالنے سے پہلے مندرجہ ذیل  حلف اٹھانا پڑتا ہے۔ ہزمیجسٹی جارج ششم بادشاہ برطانیہ کے جاری کردہ پروانے کے مطابق حلف نامہ کے الفاظ یوں تھے۔

میں حلف اٹھاتا ہوں کہ میں ہز میجسٹی کا پورا وفادار رہوں گا

اور میں ہز میجسٹی اور ان کے جانشینوں کو وفاداری کا بھی یقین دلاتا ہوں

حلف اٹھاتے وقت جناح نے ”ہزمیجسٹی کی وفاداری “کے الفاظ پر اعتراض کیااور اس کی جگہ جن الفاظ کی تبدیلی حکومت برطانیہ سے منوائی وہ یوں تھے۔

”میں حلف اٹھاتا ہوں کہ میں نافذالعمل آئینِ پاکستان سے وفاداررہوں گا۔۔۔۔۔۔“

ہزمیجسٹی سے وفاداری کی بجائے آئین پاکستان سے وفاداری کی تبدیلی فقہی اور آئینی لحاظ سے کس قدر اہم تھی اس پر ابھی تک ہمارے مورخین نے کوئی زیادہ توجہ نہیں دی ہے ۔ قائداعظم نے شخصیت پرستی کی بجائے آئین کو اہمیت دی تھی ۔ وہ خود کوبھی آئین کا پابند بنانا چاہتے تھے اور قوم کو بھی آئین کی اہمیت بتارہے تھے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ بات بھی قارئین کو معلوم ہونی چاہیے  کہ برطانیہ کے تحت جتنے بھی نو آبادیاتی ممالک کسی وقت بھی آزاد ہوئے، ان کے سربراہوں نے وقتِ آزادی وہی حلف اٹھایا جوہزمیجسٹی کے پروانہ میں درج تھا۔ الفاظ کی تبدیلی صرف پاکستان کے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح کے اصرار پر کی گئی تھی ۔

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
برداشت اور محبت میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply