درویش سیاستدان۔۔رانا اورنگزیب

؎کی محبت تو سیاست کا چلن چھوڑ دیا
ہم اگر پیار نہ  کرتے تو حکومت کرتے

سیاست کی اصل تعریف کیا ہے؟
یہی کہ ریاست و حکومت سنبھالنے کے علم کو سیاست کہا جاتا ہے۔
یا شاید اپنے انسانی حقوق کو حاصل کرنے کا رستہ؟

حقوق میں اپنی پہچان کا حق ہے۔آزادانہ نقل وحرکت کا حق ہے۔اپنی مذہبی رسومات وعبادات کو آزادانہ طور پر بجا لانے کا حق ہے۔اپنی بات لوگوں تک پہنچانے کا حق ہے۔اور بہت سے حقوق ہیں جو انسان سیاست کے علم کے زور پر منوا سکتا ہے، حاصل کرسکتا ہے۔

موجودہ دور میں اس کی سب سے بڑی مثال پاکستان کا بطور ایک آزاد مسلم مملکت سامنے آنا ہے۔

پاکستان بنانے کی جدوجہد میں دوسرے بہت سے عوامل کے ساتھ سیاستدانوں  کی فہم وفراست بھی شامل ہے۔بلکہ یوں کہنا بے جا نہ  ہوگا کہ پاکستان چند مخلص سیاستدانوں کی محنت کا ثمر ہے۔
وطن عزیز میں لاکھوں لوگ سیاست میں آۓ اور گئے،جن میں بہت دبنگ لوگ بھی ہوں گے۔اپنی زبان کے دھنی، دُھن کے پکے اور من کے سچے بھی آۓ۔مگر اکثریت مفاد پرستوں کی رہی۔پچھلی تین دہائیوں سے سیاست سیاست نہ رہی ،سیاہ ست بن گئی۔کبھی مقولہ تھا کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے۔نئے دور کا مقولہ ہے سیاست میں سب کچھ جائز ہے۔

پاکستان کی سیاست میں نوے کی دہائی  سے کم وبیش اٹھانوے فیصد جرائم پیشہ لوگ شامل ہوۓ۔جن میں سے کچھ بذات خود جرائم میں ملوث تھے جو خود جرم نہیں کرتے وہ مجرموں کی سرپرستی کرتے ہیں۔منشیات فروشی سے انسانی سمگلنگ تک،جعلی ڈگریوں سے جعلی ادویات تک ایسا کونسا جرم ہے جس کی سرپرستی ہمارا کوئی  سیاستدان نہ  کرتا ہو۔ایسا کونسا سیاسی ڈیرہ ہے جہاں چور ڈکیت اور اشتہاری پناہ نہ لئے بیٹھے ہوں۔پاکستان کے صدارتی امیدواروں سے لے کر یونین کونسل کے کونسلروں تک مافیا ڈان رسہ گیر اورسمگلر چھاۓ بیٹھے ہیں۔دیہاتی علاقوں کی سیاست چوروں کی سرپرستی تھانہ کچہری کی ٹاؤٹی اور رسہ گیری کا نام ہے۔دیہی علاقوں میں سیاست دان ہوں یا ان کے حواری سب ہی غریب عوام کو براہ راست لوٹنے کا کام کرتے ہیں یا لوٹنے والوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔مگر ان سب میں چند لوگ ایسے بھی ہیں جو کوئلے کی کان میں ہیرے کی طرح جگمگاتے ہیں۔

ان چنیدہ سیاستدانوں میں ایک نام سمندری کے درویش سیاستدان رانا محمد فاروق سعید خان کا بھی ہے۔بطور انسان بہت ہی اچھے دل کے مالک صاف دو ٹوک بات کرنے والے۔بطور سیاستدان اپنے ووٹر سے کئے وعدوں کا سو فیصد مکمل کرنے والے سیاستدان۔ضلع فیصل آباد میں بہت سے بڑے نام سیاست میں ہیں۔جن کے پاس اربوں کی جائیدادیں ہیں فیکٹریاں ہیں ملیں ہیں کچھ جاگیردار ہیں تو کچھ صنعتکار۔ان سب میں فیصل آباد کی چھوٹی سی تحصیل سمندری سے تعلق رکھنے والے متوسط طبقے کے سیاستدان رانافاروق سعید خان جن کے پاس نہ  ملیں ہیں، نہ  فیکٹریاں، نہ ہی جاگیریں مگر ان کا سیاسی قد کاٹھ بہت زیادہ ہے۔پیپلز پارٹی سے تعلق اپنے طالبعلمی کے دور سے جوڑا جو ہر قسم کی اونچ نیچ مشکلات و کٹھنائیوں کے باوجود آج بھی نہیں توڑا۔سینکڑوں قسم کی پیشکشیں ہوئیں، بہت سے وعدے دلاسے دیے گئے مگر رانا صاحب اپنی جگہ ایک مضبوط ستون کی مانند ڈٹے ہوۓ ہیں۔

رانا فاروق کے والد محترم متحدہ بھارت کے ضلع انبالہ تحصیل کھرڑ کے پاس ایک قصبے خان پور سے ہجرت کرکے پاکستان پہنچے۔یہاں گوجرہ شہر میں رہائش پذیر ہوۓ۔حکمت کرتے تھے۔ان کے بارے میں بزرگ بتاتے ہیں کہ اگر کسی مریض کے پاس دوائی  کے پیسے نہ  ہوتے تو بھی دوائی  اس کو دے دیتے۔اگر کسی کو دودھ دہی مکھن وغیرہ سے دوائی  بتاتے اور وہ اپنی غربت کا ذکر کرتا تو اس کو دودھ وغیرہ کے پیسے بھی اپنی گرہ سے دیتے۔

رانا صاحب نے اپنی پڑھائی  پنجاب یونیورسٹی سے مکمل کی۔وہیں سے سیاست کے میدان میں آۓ۔پچھلے چالیس سال سے رانا صاحب سیاست میں ہیں۔ان کے بارے میں ان کے مخالفین بھی کہتے ہیں رانا صاحب چوروں اور منشیات فروشوں کو برداشت نہیں کرتے۔پنج وقتہ نمازی بہت کم سیاستدان ہیں۔رانا صاحب ان میں سے ایک ہیں۔کھری بات کرنے کے عادی ہیں۔ان کو کبھی یہ خوف دامن گیر نہیں رہا کہ ان کی بات ان کے اپنے ناراض ہونگے یا غیر۔حق بات کہتے ذرا بھی جھجھکتے نہیں۔جس کا کام کرنا ہے اس کے ساتھ جا کے کرنا ہے نہیں کرنا تو صاف جواب۔
لوگوں کو جھوٹے دلاسے لارے نہیں دیتے۔ان کے بہت ساتھی ان کی صاف گوئی  کی وجہ سے ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔
بقول شاعر؎
اپنے بھی خفا مجھ سے،بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نا سکا قند

Advertisements
julia rana solicitors london

حق بات یہ ہے کہ رانا فاروق سعید خان جیسے لوگوں کا دم قدم ہماری سیاست کے لئے خوش آئند ہے۔اور رانا صاحب اس گئے گزرے دور میں وفا کا استعارہ اناہیں۔

Facebook Comments

رانا اورنگزیب
اک عام آدمی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply