ٹھنڈے چکلے

ٹھنڈے چکلے۔۔ جن کا وجود سن شدہ گوشت کی باقیات کو دماغ کی جگہ استعمال کرنے سے کاغذ پہ رقم ہوتا ہے۔ سوچ کی بالیدگی کا یہ وہ زوال ہے جو مردانہ آسودگی ایکسپائر ہونے کے بعد گنے چنے لوگوں کی قسمت میں آتا ہے۔ عموماً یہ لوگ مردانہ نروان کے اس مقام کو پا لیتے ہیں جہاں یہ محبوب کے بستر پہ رات بھر بیٹھ کر کچھ نہیں کر پاتے۔ کمال کرتے ہیں ایسے لوگ۔ محبوب پہ ایسے عاشقوں کے ایکسپائر شدہ ہتھیاروں کا راز کھلتا ہے تو وہ ان کے حقیقی وجود سے دور رہنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگ عموماً دانشوری کے اعلی مناصب پر فائز کر دیے جاتے ہیں۔ محبوب دور سے ان کی پوسٹس لائیک کر دینے پر اکتفا کیا کرتا ہے۔ اکیلا پن دور کرنے کے لئے یہ بے آواز معصوم ناپاک محبت پر مبنی فلموں کا رخ کرتے ہیں جہاں ان کے دکھ بھرے آنسووں کو پونچھنے ٹشو کا ڈبہ پڑا رہتا ہے۔ آنسو مگر باوجود کوشش کے نکل کہاں پاتے ہیں؟ ان آنسووں کی معدومی کا احساس ہی تو محبوب کو ان سے دور کرتا ہے۔

ایسے ہی حالات سے دل برداشتہ ہوکر ایکسپائری ڈیٹ سے کہیں پہلے ایکسپائر ہوجانے والے افراد معاشرے میں کاغذ کے پنوں پر ٹھنڈے چکلے کھولتے ہیں۔ یہ وہ طریقہ ہے جسے استعمال کرکے رقمطراز اپنی تخیلاتی گرمی اور طبعیاتی ٹھنڈک کا فرق جنسی تحریروں کی شکل میں نکالتا ہے۔ چونکہ ہم ابھی فرنگی لبرلزم تک نہیں پہنچ سکے لہذا لواطت ہمارے ایکسپائرڈ دانشوروں کے زیر قلم نہیں۔ یوں ایسی جنسی تحریریں ہمارے معاشرے میں عورت کے گرد ہی گھوما کرتی ہیں۔ اب لکھنے والا خود مرد اور مرد بھی ایسا کہ معاشرے میں جانا پہچانا حاجی ثناءاللہ یا پھر صحافتی بابا، لہذا ایک نسوانی کردار تخلیق پاتا ہے جس کے ذریعے اپنا احساس کمتری پورا کرنے کی کوشش چلتی رہتی ہے۔

اب اس فرضی نسوانی کردار سے فرضی کہانیاں لکھوائی جاتی ہیں۔ ایسی کہانیوں کے عنوان خوب دلچسپ ہوا کرتے ہیں۔ غور کیجیے گا ذرا: پورن دیکھنے سے ازدواجی زندگی تباہ ہوتی ہے، ثبوت دو کہ اپنے باپ کی اولاد ہو، جائز بچوں کی ناجائز ماں، میں صاحب کی دوست گڑیا ہوں، حرم پاک میں جنسی ہراسانی اور بری خصلت کے مشاہدات، چمی والی سرکار کے نام، وٹے سٹے میں ٹھرک، مجھے ایک دن کی ملکہ اور ایک رات کی دلہن نہیں بننا، مرد بھی بکتے ہیں مگر دام ذرا اونچے ہیں، گھر والی باہر والی، صاحب محبت اور ساہوکاری، کیسی غلطی شباب کر بیٹھا، میری بہن کی سہاگن موت، میں پاکستان کی سنی لیون ہوں وغیرہ وغیرہ۔ کوئی ایک عنوان جس میں چسکے بازی کی دعوت نہ دی گئی ہو؟

کسی زمانے میں سٹیج ڈرامے عام ہوا کرتے تھے اور خاندان بھر انہیں مل کے دیکھا کرتا تھا۔ پھر سٹیج ڈراموں میں مجرے چلنا شروع ہوئے۔ آہستہ آہستہ یہ مجرے تقریباً عریاں رقص میں بدل گئے اور ڈراموں کا مزاح غیر اخلاقی جگت بازی کی نظر ہوگیا۔ میرا ایک دوست عمران حیدر آج کل لطافت سے بھرپور طنز و مزاح کا متلاشی ہے۔ مجھے خوف کے کہ جیسے سٹیج کی عریانیت نے ہمیں معیاری طنز و مزاح سے محروم کر دیا کے ویسے ہی ایک دن عمران حیدر کہیں معیاری اردو تحاریر سے بھی محروم نہ ہوجائے کہ سٹیج ڈراموں کی طرح جنسی چسکے باز فیمنزم کے نام پر شجر ممنوعہ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ ٹھنڈے چکلے اب جگہ جگہ قائم ہونے لگے ہیں۔ ایک معاصر سائیٹ کی جانب سے تو باقاعدہ ان کی ترویج کی جاتی ہے۔ کبھی خواتین کے سینٹری پیڈز کو موضوع سخن بنایا جاتا ہے تو کبھی ایک خاتون کو بتائی جانے والی مساج سینٹر کی ٹپس اینڈ ٹرکس زیر بحث رہتا ہے۔ ہم روایتی کنویں کے مینڈک بننے سے گریز کرتے ہیں تاہم اس قسم کے ٹھنڈے چکلے چلانے سے بھی برأت کا اظہار کرتے ہیں۔ مکالمہ پہ ایسی “پیار دی گنڈیری چوپ لے” قسم کی تحاریر کا ردعمل طنز سے دینا ہماری مجبوری ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ عمران حیدر دس سال بعد معیاری مضمون دیکھنے میں ناکام و نامراد ٹھہرے۔ آخر میں ایکسپائرڈ دانشوروں کی محبوباوں سے گزارش ہے کہ پروان چڑھتے اردو ادب کی خاطر آپ دل مضبوط کریں اور ایک آدھ شام ایسی بے ضرر مخلوقات کے نام کر دیا کریں۔ اوپر والا اس عظیم نیکی کے مطابق اجر عظیم دے گا۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply