کیا ہم لوگ نارمل ہیں؟-عطاء المصطفیٰ جمیل

استاد محترم ڈاکٹر گابور ماتے کے مطابق اس وقت دنیا کی کثیر آبادی ٹراما زدہ ہے یعنی کسی حد تک ابنارمل ہے اور اگلی نسل میں یہ تعداد مزید بڑھ جائے گی اور اس بات کا امکان ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ دنیا کی اکثر آبادی ابنارمل ہو۔

اسکی دیگر وجوہات کے ساتھ ایک اہم وجہ یہ ہے کہ جدید معاشرے کے والدین بالخصوص ماں کو بچوں کی تربیت کا ہی نہیں پتا۔ وہ اپنا سٹریس بچوں میں ٹرانسفر کرکے ان کو ٹراما میں مبتلا کررہی ہے۔
جب تک خاندانی نظام مضبوط تھا بچے بہت کم ٹراما کا شکار ہوتے تھے۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ خاندان کی بڑی عورتوں کی سربراہی میں نئی لڑکی ماں بنتی تھی اور وہ عورتیں تجربے اور سینہ بہ سینہ چلتے علم کی بنیاد پہ اس کو بتاتیں  کہ اسکی تربیت کیسے کرنی ہے۔

مگر اب جدید معاشرے میں ایک عورت اکیلے ہی ماں بن رہی ہے اور وہ نہیں جانتی کہ بچوں کی تربیت کیسے کرنی ہے اور یہ چیز بچوں کو چائلڈ ہوڈ ٹراما ( چائلڈ ہوڈ ٹراما یعنی بچپن کا وہ صدمہ جو دماغ کو متاثر کرے) کا شکار بنارہی ہے۔

ٹراما میں مبتلا لوگ بہت جلد ا  ڈیکشن کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان چیزوں کا استعمال شروع کردیتے ہیں جو ان کو وقتی طور پر لذت دیں۔ ان کا نشے میں مبتلا ہونے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں جدید کمپنیاں اپنی پراڈکٹس میں  آڈیکشن کا عنصر ڈال کے لوگوں کو اپنی غیر ضروری پراڈکٹ بیچ رہی ہیں اور ٹراما زدہ لوگوں کی اکثریت ان کو بغیر سوچے سمجھے محض وقتی لذت کے لیے  خرید لیتی ہے نا  کہ کسی خاص مقصد کے لیے، یہی وجہ ہے کہ ان کو اپنی زندگیاں بے مقصد لگتی ہیں۔

ٹراما زدہ لوگ اچھے ریلشن شپ بھی نہیں رکھ پاتے۔ ان کے تعلق نبھانے کی بنیاد بھی لذت پر مبنی ہوتی ہے نہ کہ احساس و وفاداری۔ یہی وجہ ہے کہ جدید معاشرے میں مفاد پر مبنی دوستیاں ہوتی ہیں اسکے علاوہ طلاق کا رجحان بہت بڑھ چکا ہے ،کیونکہ مرد و عورت کو ریلیشن شپ کی سینس ہی نہیں  ہے۔ یہ چیز لوگوں کو دن بدن تنہائی پسند بنارہی ہے اور معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔

اس واسطے ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کی تربیت اس انداز سے کی جائے جیسے صدیوں سے کی جاتی رہی ہے نہ کہ میڈیا کے بتائے ہوئے طریقے یا جدید کلچر کے مطابق تاکہ وہ ٹراما کا شکار نہ ہوں اور ایک نارمل انسان کے طور پر پروان چڑھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ فیس بک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply