جب کالا باغ ڈیم بنانے کی باری آتی ہے تو کہا جاتا ہے پختون خواہ کے باشندے بنانے نہیں دیتے
۔ جب بلوچستان میں ترقی کی بات کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ وہاں کے سردار ترقی نہیں چاہتے۔
مگر
کیا ملک پر چار بار قبضہ ہم سب سے پوچھ کر کیا؟
ہزاروں میل دور پشاور اور لاہور تک وہاں سے گیس پہنچا دی اور ساتھ کوئٹہ کو نہ ملی تو کیا بلوچیوں سے پوچھ کر پہنچائی؟
ملک کو دو ٹکڑے کر دیا گیا یہ سب پاکستانیوں سے پوچھ کر کیا؟
ملک کو ایک نہ ختم ہونے والے مزہبی دھشگردوں کے حوالے کر دیا
گیا، ہم سے پوچھ کر حوالے کیا؟
پہلے پختون خواہ کو تباہ کیا اور اب
بلوچستان کو تباہی کے دھانے پر پہنچا رہے ہیں، کیا یہ سب کچھ ہم سے اجازت لے کر کیا؟
جہاں مفادات ہوتے ہیں وہاں سب کچھ ہو جاتا ہے۔
بیچ چوراھے پر لاکھوں کا مجمع، ایک پٹاخہ بھی نہ پھوٹے
مگر دور دست پہاڑوں میں کھیلی جاتی ہے سینکڑوں کی خون کی ہولی
جہاں امن مقصود ہوتا ہے، وہاں چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی
مگر جس کو تباہ کرنا مطلوب ہوتا ہے وہاں صرف
تباہی اور بربادی
ڈائینیں بھی سات گھر چھوڑ کر خون پیتی ہیں
کیا امن کے مذہب کے پیروکار ڈائینوں سے بھی گھٹیل ہیں؟
اناللہ وانا الیہ راجعون
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں