ترکی کے پُر امید نتائج،احتیاط لازم ہے

تحریک کا دوسرا نام ’’انتھک کوشش‘‘ ہے اور اس کوشش کے نتیجے میں جب کسی پھل اور مثبت نتائج کی اُمید نظر آتی ہے تو بحیثیت ایک تحریکی کارکن و ذمہ دار خوشی کا احساس پیدا ہونا فطری عمل ہے، اور اس ’’اُمید‘‘ کے سہارے ہی تحریک سے جڑا ہر فرد کام کرتا ہے۔چنانچہ آج دنیا میں بے شمار نظریات کی حامل تحریکیں کام کر رہی ہیں جن کے مقاصد واضح بھی ہیں اور غیر واضح بھی۔ ان میں کئی ایسی مذہبی ودینی تحریکیں بھی ہیں جو مختلف ناموں سے پوری دنیا میں کام کر رہی ہیں ۔ ان کے مقاصد کے حوالے سے جب غور کیا جاتا ہے تو ہر ایک دینی ومذہبی تحریک کا مقصد اپنی بنیادی اساس ’’مذہب‘‘ کو وہ مقام دینا ہے جس کے لیے وہ وجود میں آیا ہے۔ اس سلسلے میں مختلف ناموں سے کام کرنے والی یہ دینی ومذہبی جماعتیں برسرپیکار ہیں ۔ ہر ایک ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اس کوشش میں ہے کہ وہ اُس منزل کو پہنچ سکے جس کے لیے اسے وجود میں لایا گیا ہے۔ اس دوران انہیں بے شمار تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن تحریک سے وابستہ جو کارکن جس قدر ذمہ دار ہو وہ اسی قدر جدوجہد میں لگا رہتا ہے۔ اسے ایک طرف مثبت سوچ کے حامل لوگوں سے سابقہ پیش آتا ہے اور دوسری جانب منفی ذہن رکھنے والے لوگوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کشمکش میں تحریک کے کام میں جس قدر وسعت ہوتی ہے اس سے تحریک سے جڑے کارکنوں کی محنت صاف دکھائی دیتی ہے۔ حالانکہ مذہبی ودینی تحریکوں سے وابستہ کارکنوں کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ ہماری کوششیں ہی کافی نہیں ہیں بلکہ اس کے لیے خدائے لم یزل کی مدد بھی درکار رہتی ہے تاہم خدائے ذوالجلال کی سنت ہے کہ وہ مدد گار ومعاون اسی کا بنتا ہے جو اس کے سہارے کو تسلیم کرنے کے بعد اپنے آپ کو متحرک کرکے کام کرے۔ چنانچہ اسی حوالے سے ایک عربی محاورہ ہے کہ ’’من جد وجد‘‘ یعنی جس نے کوشش کی اس نے پایا۔
بہرحال اس حوالے سے تحریک سے وابستہ کارکن و ذمہ داران اس کوشش میں رہتے ہیں کہ منزل مقصود تک پہنچا جائے۔ جس کے لیے وہ دن رات کوشش کرتے ہیں اور جب اس کے نتائج کی اُمیدیں بر آتی ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہوجانا ایک فطری عمل ہے (مضمون: امریکی فوج کی انسانیت سوز درندگی) ۔دور حاضر میں جب اسلامی تحریکوں کے کام کا سرسری جائزہ لیا جائے تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ کہاں کیا کچھ ہو رہا ہے۔ تحریکوں سے جڑے کارکنان کے اذہان ، کام کی وسعت وگہرائی کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب کبھی ان کے ہاتھوں میں بظاہر ’’دکھنے والی طاقت‘‘ آجاتی ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں جب پوری دنیا کے خاکے پر نظر ڈالیں تو تحریک اسلامی کے حوالے سے مختلف ممالک میں کام ہو رہا ہے، جن کے نتائج بھی دھیرے دھیرے سامنے آرہے ہیں ۔ ان میں عرب ممالک میں سے ’’مصر‘‘ میں الاخوان المسلمون‘‘ کا کام سرفہرست ہے جس نے اپنی حد تک بہت کام کیا ہے ۔اس کے بعد بنگلہ دیش میں تحریک اسلامی کا کام بہت ہی کارآمد طریقے سے ہو رہا ہے، جس کے نتائج بھی آج پوری دنیا کے سامنے ہیں ، حالانکہ علی الترتیب دونوں ممالک کو غیروں سے زیادہ ہ اپنوں کی کارستانیوں اور سازشوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تاہم کام میں جب اخلاص اور وسعت ہو تو امید کی کرن نظر آہی جاتی ہے۔ یہی حال ان دونوں ممالک کا ہے ، جہاں دشمنوں کے روپ میں دوست دکھائی دیتے ہیں اور دوستی کے روپ میں دشمن بھی کام کرتے نظر آرہے ہیں ۔ تاہم تحریک سے وابستہ زعماء اور کارکنان اپنی جدوجہد میں محوہیں ۔ ’’امید بہار رکھ ‘‘کی فضابننے کے انتظار میں کام کر رہے ہیں ، جس کا ایک مشاہدہ حال ہی میں ترکی میں صدارتی اختیارات کے حوالے سے ہونے والے ریفرنڈم میں 51.4 فیصد لوگوں نے صدارتی اختیارات کو وسعت دینے کے حق میں ووٹ ڈالے جس کے بعد اب صدر رجب طیب اردگان کو نہ صرف وسیع تر اختیارات حاصل ہوں گے بلکہ ان کے نتیجے میں وہ ممکنہ طور پر 2029تک اقتدار میں رہ سکتے ہیں ۔ اس کامیابی پر انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ خوشی محسوس کرے لیکن جذباتیت کا شکار ہوکر دنیاوئی حقیقت کا اندازہ کرتے رہنا چاہیے، کس کے مقابلے میں کس کی جیت ہوئی ہے اس پر غور کرنا چاہیے۔ تاہم عقل مندوں کا کہنا ہے کہ’’ جب ’’امید کی کرن‘‘ نظر آئے تو عاقل لوگ نہ ہی اس خیال میں رہتے ہیں کہ یہ میری کارستانی ہے بلکہ اس کے پیچھے وہ اس سب کو اس سہارے سے منسوب کرتے ہیں جس کو تھام کر اس کام میں آج انہیں اُمید نظر آرہی ہے، اور دوسری طرف وہ عاقل اس بات کے لیے تیار رہتے ہیں کہ یہ ہماری ’’امید کی کرن‘‘ اُن لوگوں کی نظروں میں بھی ہے جو اس کے بالمقابل ہمارے ہی ممالک میں کام کر رہے ہیں ۔ جن کے پاس اپنا ایک مقصدِ وجود ہے اور وہ اس مقصد کو ڈوبتے ہوئے دیکھنا پسند نہیں کر سکتے اس لیے وہ اس کے ردعمل میں اپنا وہ طریقہ اختیار کر سکتے ہیں جو آج تک انہوں نے آزمایا نہ ہوگا۔‘‘( مضمون: برطانیہ: عالمی انتشار کا نقطہءآغاز) ۔
بہر حال اس کا مشاہدہ بھی ہم کئی بار کر چکے ہیں ، حال ہی میں ’’الاخوان المسلمون‘‘ کی محنت سے مصر میں جو عوامی انقلاب کی جھلک دیکھنے کو ملی تو تحریک کی اُس پُر بہار کرن کو دیکھ کر دشمن دشمنی کی صورت میں نہیں بلکہ دوست بن کر ان صفوں میں آبیٹھے اور اس طرح کام کر گئے کہ آج تک امت حیران وششدر ہے۔ ترکی کی حالیہ کامیابی اگرچہ حوصلہ افزا ہے لیکن اس حوالے سے وہاں تحریک اسلامی سے وابستہ ذمہ داروں کو خصوصاً اور باقی دنیا کے کونے کونے میں کام کرنے والے تحریک اسلامی سے جڑے اداروں کو باخبر رہنا چاہیے کہ ’’فضائے امید‘‘ کے پیچھے کیا کیا کام ہو رہے ہیں ۔ کون لوگ ہیں جو نہیں چاہیں گے کہ تحریک اسلامی کسی بھی طرح سے پھولے پھلے، کیوں کہ وہ چپ سادھے بیٹھ کر رہنے والے نہیں ہیں ۔ اس کے مدمقابل وہ بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، ان کے پاس بھی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو کبھی بھی کسی بھی طرح ہوا کا رُخ موڑ سکتے ہیں اور بہرحال وہ اس بات کی کوشش بھی کریں گے، یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ وہ ردعمل کے طور پر کھڑے ہو چکے ہیں !

Facebook Comments

ابراہیم جمال بٹ
مقبوضہ جموں وکشمیر سے ایک درد بھری پکار۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply