واقعہ معراج پر سائنسی توجیہات

واقعہ معراج پر بےشمار اسلامی سکالرز اور اہل اہلِ علم مختلف توجیہات پیش کرتے ہیں۔ جن میں روحانی و مادی سفر وغیرہ جیسے دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔ جبکہ کئی اسکالرز جدید سائنس میں وقت کے حوالے سے مختلف نظریات کا تذکرہ بھی کرتے ہیں۔
جدید سائنس میں وقت کی حدود کو پار کرنے کے حوالے سے چار مختلف نظریات/مفروضات پیش کیے جاتے ہیں۔
1.کوانٹم انٹینگلمنٹ/ٹیلی پورٹیشن
یعنی دو ذرات خواہ ایک دوسرے سے لاکھوں میل دور ہوں پھر بھی وقت کے ایک لمحے میں ایک جیسی حرکت کرتے ہیں۔ اس کے عملی تجربات بھی ہو چکے ہیں۔
2. نظریہ اضافیت
البرٹ آئن سٹائن نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ دنیا کی کوئی بھی مادی شے روشنی سے زیادہ تیز رفتار سفر نہیں کر سکتی۔ اگر بالفرض ایسا ہو تو وقت اس کے لیے بے معنی ہو جائے گا۔
3۔ نظریہ اضافیت
وقت کائنات کی چوتھی جہت ہے اور زمان و مکان کی طرح وقت بھی ایک سمت و جہت رکھتا ہے۔
4. وقت نام کی کوئی چیز وجود ہی نہیں رکھتی۔ یہ صرف ایک پیمانہ ہے تبدیلی کا۔ ۔ ۔
درجہ بالا نظریات کے علاوہ اور بھی کئی توجیہات پیش کی جاتی ہیں۔ تاہم میں اتنا کہوں گا کہ واقعہ معراج کسی سائنسدان، کسی اہل علم کی سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ اس کو سمجھنے کے لیے سیدنا صدیق اکبر (رض) جیسی بصیرت کی ضرورت ہے۔ جو ہر کسی میں نہیں ہو سکتی۔
ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آفاقی کلام میں فرما دیا

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
ترجمہ: پاک ہے وہ اللہ تعالی جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجدحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیاجس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے تاکہ ہم اُسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں،یقیناً اللہ تعالی ہی خوب سننے دیکھنے والا ہے۔“

سورہ والنجم میں اللہ تعالی اپنے بندوں سے ارشاد فرماتا ہے۔ ۔ ۔

ترجمہ:” قسم ہے پیارے تارے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی جب وہ معراج سے اترے۔ تمہارے صاحب نہ کبھی گمراہ ہوئے اور نہ کبھی بہکے۔ اور وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ نہیں ہے وہ مگر جو انہیں وحی کیا جاتا ہے۔ انہیں خوب پڑھایا سخت قوتوں والے طاقتور دانا( اللہ ) نے۔ پھر اس نے قصد فرمایا۔ اور وہ آسمان بریں کے سب سے بلند کنارہ پر تھا۔پھر وہ (اللہ ) قریب ہوا پس وہ خوب قریب ہوا۔ یہاں تک کہ فاصلہ تھا دو کمانوں کا یا اس سے کم۔ اب وحی فرمائی اپنے بندے کو جو وحی فرمائی۔ دل نے جھوٹ نہ کہا جو دیکھا۔ تو کیا تم جھگڑتے ہو اس کے دیکھنے پر؟۔ اس نے تو اسے پھر دیکھا۔ سدرہ المنتہیٰ کے پاس۔ جس کے پاس جنت الماویٰ ہے۔ جب سدرہ پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا۔ آنکھ نہ پھری نہ حد سے بڑھی۔ بیشک اس نے اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان آیات میں الہ پاک نے معراج النبی صہ کو کھول کر بیان کر دیا ہے۔ جب خالق خود گواہی دے کہ میرا بندہ جسے میں نے رحمت اللعلمین بنا کر بیجھا اسے راتوں رات عرش پر بلایا۔ تو معراج النبی صہ کی سائنسی اور عقلی توجیہات بے معنی ہیں۔ کیونکہ انسان خواہ کچھ بھی کر لے کبھی بھی علم کے اس درجے پر نہیں پہنچ سکتا جس پر خالق نے اپنے مقرب بندوں کو فائز کیا ہوا ہے۔
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

Facebook Comments

ندیم رزاق کھوہارا
اردو زبان، سائنس، فطرت، احساس، کہانی بس یہی میری دنیا ہے۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply