• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سعودی عرب، العلاء میں مدائن صالح و الحجرا کی تاریخ(پہلا حصّہ)۔۔منصور ندیم

سعودی عرب، العلاء میں مدائن صالح و الحجرا کی تاریخ(پہلا حصّہ)۔۔منصور ندیم

مدینہ منورہ ضلع میں “العلاء ایک ایسا ریت کا صحرا جو پتھروں سے بھرا ہوا ہے، اور اپنے سیاہ آسمان کی وجہ سے مشہور ہے کیونکہ اس کی فضائی آلودگی سے پاک تاریکی ستارہ شناس ماہرین کے لیے بہت پُرکشش اور اپنی خاموشی راتوں کے لئے ایک حیران کن زمین ہے، العلاء کمشنری جس کا رقبہ 14.6مربع کلومیٹر ہے، العلاء مدینہ منورہ شہر سے تقریباً  300 کلومیٹر دور واقع کمشنری ہے۔ سعودی عرب میں انتہائی ثقافتی و تمدنی آثار سے مالا مال علاقہ ہے، العلاء ایک ایسا صحرا ہے جہاں بعض آثار قدیمہ زمین پر نظر آتے ہیں جبکہ بہت سارے زیر زمین دفن ہیں، یہاں قوم ثمود، مدائن صالح اور الحجر (Hegro) کے آثار قدیمہ پائے جاتے ہیں۔ آج یہ ایک مکمل سیاحتی شہر بن چکا ہے ۔ سعودی عرب کے موجودہ حکمران اسے مشرق وسطیٰ کا انتہائی اہم سیاحتی مقام بنانے کیلئے عملی طور پر کوشاں ہیں۔ سعودی عرب میں مدائن صالح یا الحجر پہلا سعودی مقام ہے جسے یونسکو نے عالمی ورثے کی فہرست میں سنہء 2012 میں شامل کیا تھا۔ ترکوں کے عہد سلطنت عثمانیہ کے دور میں اسی راستے سے حجاز ریلوے کی ٹرین کی گزرگاہ بھی بنائی گئی تھی۔

مدائن صالح کے بارے میں مذہبی عقائد :

سنہء 2012 سے پہلے تک سعودی عرب کی سپریم علماء کونسل نے مدائن صالح کو ممنوعہ علاقہ قرار دینے کا فتویٰ دیا ہوا تھا جس کے بعد اس علاقے کو ہر قسم کی آمد و رفت کے لئے بند کر دیا گیا تھا۔ مدینہ منورہ کی انتظامی حدود میں واقع مدائن صالح کا علاقہ قبل از اسلام حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ثمود کی آخری منزل سے موسوم کیا جاتا تھا، روایات کے مطابق قوم ثمود نے حضرت صالح کی اونٹنی کو اسی مقام پر ہلاک کیا تھا جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر عبرتناک عذاب نازل کیا۔ زلزلے اور طوفان کی شکل میں آنے والے عذاب سے پوری قوم کو نیست ونابود کر دیا تھا۔

علماء نے مدائن صالح میں داخلے سے متعلق امتناع کی  وجہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمان بتایا ہے کہ
” آپ ایک مرتبہ مدائن سے گذر رہے تھے تو صحابہ سے فرمایا کہ ’’یہ قوم صالح کے عذاب کا مقام ہے۔ یہاں سے روتے ہوئے گذرنا چاہیے۔ پھر آپ نے اپنا سرجھکا لیا اور اسی حالت میں وہاں سے گذر گئے‘‘۔ (بہرحال اس جگہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گذرنے اور اس احادیث کااسی مقام سے نسبت کی کوئی مستند روایت موجود نہیں ہے۔ کہ آیا مطابق حدیث یہی وہ مقام ہے)

سنہء 2012 میں فتاویٰ کونسل اور محکمہ سیاحت یونیسکو کی جانب سے عالمی ورثہ منتخب ہونے کے بعد سے مدائن صالح کی تاریخی اور ثقافتی اہمیت کے پیش نظر فتویٰ واپس لے لیا تھا جس کے بعد اسے سیاحتی مقاصد کے لئے کھولا گیا۔ اس کے بعد سےاب ہزاروں سیاح دنیا بھر سے اسے دیکھنے کیلئے آرہے ہیں۔ سعودی حکمران خادم حرمین شریفین شاہ سلمان نے العلاء رائل اتھارٹی اسی مقصد کیلئے قائم کی ہے۔ اس کی بدولت سعودی وژن 2030 کے اقتصادی اور ثقافتی مقاصد بھی حاصل ہونگے۔

بعد از عالمی آثار قدیمہ میں شامل مدائن صالح کے محل وقوع کی بابت سعودی محکمہ سیاحت و آثار قدیمہ اور پرانے آثار کے ماہرین کے درمیان خاصا اختلاف ہے، سعودی محکمہ سیاحت و آثار قدیمہ کا دعویٰ ہے کہ مدائن صالح ہی پیغمبر خدا حضرت صالح علیہ السلام سے تعلق رکھتا ہے جبکہ غیر ملکی ماہرین آثار قدیمہ اور قرائن وآثار یہ باور کرارہے ہیں کہ مدائن صالح کا حضرت صالح علیہ السلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اس سلسلے میں مقامی سعودی اسکالرز میں بھی اختلاف ہے، سعودی معروف اسکالر احمد بن سلم کا کہنا ہے کہ حضرت صالح علیہ السلام اور آثار قدیمہ کے درمیان تعلق کی تردید حتمی طور پر نہیں کی جاسکتی۔ جبکہ ایک اور اسکالر ڈاکٹر تنیضب الفایدی کا کہنا ہے کہ حضرت صالح علیہ السلام سے اس کا تعلق ہے البتہ ان کی قوم سے اس کا کوئی رشتہ نہیں ۔ایک اسکالر عبداللہ الشنقیطی کا کہنا ہے کہ بلاشبہ اس میں اختلاف ہے کہ آیا مدائن صالح کا اللہ کے نبی کی قوم سے بھی کوئی رشتہ ہے یا نہیں ۔

محکمہ سیاحت و آثار قدیمہ کے نائب سربراہ ڈاکٹر حسین ابوالحسن کا کہنا ہے، پے درپے کئی تمدن آئے اس وجہ سے صورتحال پیچیدہ ہوگئی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ الحجر ہی مدائن صالح کی اصل جگہ ہے۔ اور یہ العلاء سے 22 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ہے اور القرآن الکریم کی کئی سورتوں میں اس کا تذکرہ آیا ہے ۔قدیم زمانے سے اس جگہ کو الحجر ہی کہا جاتا رہا ہے۔ اس کی شہر کی کئی وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ الحجر شام اور جزیرہ نمائے عرب کے جنوبی علاقے کو جوڑنے والی قدیم تجارتی شاہراہ پر واقع ہے۔ شہرت کا دوسرا سبب یہ ہے کہ اس مقام پر آباد قوم ثمود قدیم زمانے ہی سے اپنی شہرت رکھتی اور اس کا تذکرہ قرآن کریم میں آیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کلام مجید میں واضح کیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے نبی صالح علیہ السلام کی آسمانی دعوت کو ٹھکرایا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی گئی آسمانی نشانی اونٹنی کو ذبح کیا۔ ڈاکٹر حسین ابوالحسن نے واضح کیا کہ الحجر (مدائن صالح) میں قوم ثمود کے بعد کئی تمدن برپا ہوئے ،یہاں لحیانی اور نبطی آباد ہوئے۔ نبطی وہ ہیں جنہوں نے مدائن صالح کو اپنی ریاست کا جنوبی دارالحکومت بنایا تھا۔ نبطیوں کی سلطنت جزیرہ عرب کے شمال مغرب میں اپنا رعب و دبدبہ قائم کئے ہوئے تھی۔ البتراء Petra آج کے موجودہ اردن میں واقع ہے اور نبطیوں کی سلطنت کا شمالی دارالحکومت تھا۔

نبطی تہذیب :

تاریخ میں گم ہوجانے والی قدیم نبطی تہذیب اس خطے میں کم و بیش 100 سال قبل مسیح میں آباد ہوئی تھی اور تقریباً 200 سال تک آباد رہی تھی، گذشتہ کچھ دہائیوں سے مختلف ممالک کی آثار قدیمہ کے ماہرین کی کئی ٹیمیں سعودی عرب کے آثارِ قدیمہ کے بارے میں معلومات جمع کرنے کےلئے یہاں کا جائزہ لے رہی ہے تاکہ وہاں کی ماضی کی پر اسرار تہذیب کے رازوں کو سمجھ سکیں۔ نبطی ثقافت کے زمانے کی کئی ایک پتھر سے تعمیر ہونے والی عمارتوں کے نشان وہاں اب بھی باقی ہیں اور ان میں کئی ایسے مقامات ہیں جہاں اس سے پہلے کھدائی نہیں کی گئی ہے۔ جو ابھی تک راز ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ ہوگا کہ اتنا بڑا خطہ جس کا اب سے پہلے کسی نے جائزہ نہ لیا ہو اس پر ایک سائنسی انداز میں تحقیقی کام ہورہا ہے ۔

نبطی تہذیب کے افراد جزیرہ نما عرب کے شمال میں اور قدیم عراق کے جنوب میں چوتھی صدی قبل مسیح سے لیکر سنہ 106 بعد از مسیح تک آباد رہے۔ نطبی باشندے خانہ بدوش تھے اور عرب اور اردن کے راستے بحیرہ روم ، مصر ، شام اور میسوپوٹیمیا تک خوشبویات اور مسالہ کے تجارتی راستوں پر تصرف رکھتے تھے۔ خوشبودار اشیاء، کالی مرچ ، مصالحہ جات اور جڑی بوٹیوں، چینی اور روئی کے ڈھیروں سے لدے اونٹوں کے قافلے اس جنوبی سرحدی علاقے حجرا سے گزرتے تھے، اسی لئے نبطی ان خوشبوؤں اور مصالحوں کے تاجر بھی تھے۔

میامی یونیورسٹی کے پروفیسر گراف کا کہنا ہے کہ “یہ لوگ تخلیقی ، اختراعی ، اور فنی طور پر بہت پروفیشنل تھے ، نبطی فن تعمیرات اور ہائیڈرولکس کے قدیم علمبردار تھے، جس کی بنیاد پر انہوں نے اس صحرائی ماحول کو اپنے لئے فائدہ مند بنایا، بارش کا پانی جو کریگی پہاڑوں سے بہتا تھا اس کو زمینی سطح کے حوضوں میں اور بعد میں استعمال کرنے کے لئے جمع کیا جاتا تھا۔ قدرتی پانی کے پائپوں کو وہاں پر موجود قبروں کے چاروں طرف کٹاؤ سے بچانے کے لئے تعمیر کیا تھا ، جس نے ان کی تعمیر کے ہزاروں سال بعد بھی انہیں اچھی طرح سے محفوظ رکھا ہوا ہے۔ یہاں 111 مقبرے موجود ہیں۔

پروفیسر گراف کے مطابق “ہم ان کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ان کی لکھی کتابیں یا ذرائع موجود نہیں ہیں جو ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ کس طرح زندگی گزارتے تھے اور مرتے وقت کیا رسوم ادا کرتے تھے اور اپنے دیوتاؤں کی پوجا کیسے کرتے ہیں۔” “ہمارے پاس کچھ ذرائع ہیں جو بیرونی ہیں ، لہذا وہ لوگ جو ان کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ انہوں نے ہمارے پاس گلگامیس اور میسوپوٹیمیا کے جیسی بڑی متکلمی متون کو نہیں چھوڑا۔ ہمارے پاس ان کی داستانیں نہیں ہیں۔ پیٹرا کی طرح الحجرا میں بس باقی رہ جانے والے نشان ہیں جو آج بھی دکھائے جاسکتے ہیں وہ مقبرے ہیں ، جس میں شہر کی زیادہ تر آرکیٹیکچرل باقیات موجود ہیں ، جو لفظی طور پر وقت کی ریت کے مطابق رہتی ہیں۔ حجرا کے کئی مقبروں کے داخلی راستے پر لکھی گئی شبیہہ میں نباطیوں کے الفاظ موجود ہیں۔

الحجرا سے ملنے والے آثار اور عمارتوں اور اردن کے پیترا کی عمارتوں میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے، اس تہذیب کا دارالحکومت اردن کے ایک علاقے پیٹرا میں قائم تھا، لیکن موجودہ سعودی عرب کا مدائن صالح بھی ان کے لیے کافی اہم تھا۔ چٹانوں سے کاٹے ہوئے پتھروں پر نازک قسم کی کشیدہ کاری ان کی عمارتوں پر یونان اور میسوپوٹامیا کے تہذیبی اثرات ظاہر کرتی تھیں۔ وہ اپنے معبدوں کے سامنے والے حصوں پر مہین قسم کی سنگ تراشی سے دلچسپ نمونے بناتے تھے۔ یہاں نبطی کندہ کاری کی کئی ایک مثالیں ہیں لیکن اس حوالے سے کسی قسم کے مواد کا کوئی علم حاصل نہیں ہو سکا ہے۔ رومن بادشاہ ٹروجن کی فتح کے بعد ان کا ایک آزاد تہذیب کی حیثیت سے اختتام ہو گیا تھا۔۔ مدائن صالح اپنے اندر تاریخ کے کئی ادوار سموئے ہوئے ہے۔ یہ جگہ قدیم لحیان اور رومی بادشاہتوں کا پایہ تخت رہی۔ نبطی بادشاہت کے زمانے میں یہ نطبی قوم کی سب سے بڑی کالونی تھی جو پانچ سو کلومیٹر تک پھیلی ہوئی تھی۔ یوں اس جگہ نبطی، رومی اور کئی دوسری اقوام کے کھنڈر موجود ہیں

نبطیوں نے چوتھی صدی قبل مسیح سے ترقی کی اور یہ ترقی پہلی صدی عیسوی تک رہی ، اس کے بعد رومن سلطنت نے اسے اپنے قبضے میں لے لیا اور اس خطے کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا، جس میں اردن ، مصر کا جزیرہ نما سینا ، اور سعودی عرب ، اسرائیل اور شام شامل تھے۔ آہستہ آہستہ ، نباطینی شناخت پوری طرح ختم ہوگئی۔ صدیوں سے غائب اردن کے پیٹرا کو سنہء 1812 میں سوئزر لینڈ کے ایکسپلورر ماہر جوہن لڈویگ برکارڈ نے اس خطے کو دوبارہ دریافت کیا، حالانکہ مقامی بدو قبائل کئی نسلوں سے غاروں اور مقبروں میں مقیم تھے۔ شاید یہ کہا جاسکتا ہے کہ پیٹرا کو واقعی بیشتر مغربی شہریوں نے پہلی مرتبہ ڈیڑھ صدی بعد دیکھا تھا اور سنہء 1989 میں انڈیانا جونز اور آخری صلیبی جنگ کے لئے بنائے گئے کردار کے طور پر اس کے اداکاری کے کردار کی بدولت ہی دیکھا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments