کرونا اور حکومتی رویہ۔۔محمد اسد شاہٍ

ملتان میں پی ڈی ایم کا جلسہ روکنے کے لیے عمران حکومت پوری ریاستی مشینری کے ساتھ ہر قسم کے حربے استعمال کر رہی ہے ۔ سٹیڈیم کے تمام دروازوں کو اندر کی طرف سے بند کر کے تالے لگا دیئے گئے ہیں ۔ مسلم لیگ (نواز شریف) ، جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمٰن) اور پیپلز پارٹی کے تمام مشہور اور سرکردہ مقامی لیڈرز اور کارکنوں کی پکڑ دھکڑ جاری ہے ۔ ن لیگی ایم این اے ملک عبدالغفار ڈوگر کو پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا لیکن وہ عدالت سے ضمانت پر رہا ہوئے ۔ اس بار حکومت کا موقف یہ ہے کہ کرونا کی دوسری لہر شروع ہو چکی ہے، چنانچہ پی ڈی ایم کا جلسہ کسی صورت ہونے نہیں دیا جائے گا ۔ میڈیا بھی حکومتی موقف کی بھرپور حمایت کر رہا ہے ۔ لیکن حکومت کے اپنے اعمال ایسے ہیں کہ اس کے “کرونا” بہانے پر عوام یقین کرنے کو تیار نظر نہیں آتے ۔ مثلاً گزشتہ سے پیوستہ روز ملتان شہر میں دو جلوس نکالے گئے ۔ ایک جلوس حکومتی جماعت پی ٹی آئی کا تھا اور دوسرا اپوزیشن کے کارکنوں کا ۔ ہؤا یہ کہ ان جلوسوں کے بعد ، کرونا ایس او پیز کی خلاف ورزی کے الزام میں سرکار نے اپوزیشن جماعتوں کے بہت سے کارکنوں پر مقدمہ درج کر لیا اور پھر سابق وزیراعظم یوسف رضا شاہ کے بیٹے علی موسیٰ شاہ سمیت 30 سے زائد لوگوں کو گرفتار بھی کر لیا گیا ۔ ان سب نے رات تھانہ چہلک کی حوالات میں گزاری اور اگلے دن مقامی عدالت سے ضمانت پر رہا ہو سکے ۔ لیکن پی ٹی آئی کے جلوس میں سے کسی پر کوئی مقدمہ ہوا نہ کوئی گرفتار ہؤا ۔ یہ کیسا کرونا ہے اور کیسی ایس او پیز ہیں جن کا اطلاق صرف اپوزیشن پر ہی ہوتا ہے ؟
کرونا اور ایس او پیز کے حوالے سے اس حکومت کے تمام معاملات تقریباً اسی طرح چل رہے ہیں ۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ ماہ رمضان میں نمازِ تراویح پر بھی بہت سی پابندیاں لگائی گئیں ۔ مساجد اور مدارس کی انتظامیہ کو حکم دیا گیا کہ نماز با جماعت میں 5 سے زائد افراد نہ ہوں ۔ تب نمازی 6 ، 6 فٹ کے فاصلے پر کھڑے ہوتے تھے ۔ مساجد سے صفیں اور قالین ہٹا دیئے گئے اور جو چند نمازی آتے وہ اپنے اپنے مصلے ساتھ لاتے یا ننگے فرش پر نماز ادا کر کے قرون اولیٰ کے مومنین کی یادیں تازہ کرتے تھے ۔ ان احکام کی خلاف ورزیوں پر مساجد کے آئمہ کو گرفتار بھی کیا جاتا تھا اور پھر “مناسب” تحریری یقین دہانیوں پر رہا کیا جاتا تھا ۔ لیکن اسی دوران رمضان کی اکیسویں تاریخ کو سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے یوم شہادت کی یاد میں ملک کے تمام شہروں میں بڑے بڑے جلوس نکالے گئے جن پر حکومت نے کوئی اعتراض نہ کیا ، بل کہ حکومت نے خود ان جلوسوں کی اجازت دی ۔ کراچی میں تو شاید کئی لاکھ افراد جلوس میں شامل ہوئے ۔ اس دن کرونا کہاں گیا اور حکومتی ایس او پیز کا کیا بنا ؟ اس کے بعد عیدین (عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ) کے اجتماعات پر پھر ایس او پیز کا نفاذ کر دیا گیا ۔ لیکن محرم الحرام کی مجالس اور جلوسوں کے دوران کرونا ایس او پیز غائب ہو گئیں ۔ اللّٰہ کا خاص کرم ہؤا کہ تب ملک بھر میں کرونا کے کیسز کی خبریں آنا بھی بند ہو گئیں اور ہم سب مطمئن ہوئے کہ شاید اس وباء سے جان چھوٹ گئی ۔ تعلیمی ادارے کھولنے کی اجازت بھی مل گئی ۔ صفر المظفر کا مہینہ اطمینان سے گزرا ۔ 12 ربیع الاوّل کو ملک بھر میں پھر جلوس نکالے گئے تب بھی کرونا کا کہیں کوئی ذکر نہ تھا ۔ اس پر پوری قوم کے ساتھ اپوزیشن جماعتوں کی قیادت بھی مطمئن تھی کہ اب جلسے جلوسوں سے عوام کی جانوں کو کوئی خطرہ نہیں ۔ اسی اطمینان کے باعث پی ڈی ایم تشکیل دی گئی اور ملک بھر میں جلسوں جلوسوں کا شیڈول جاری کر دیا گیا ۔ حیرت انگیز طور پر “فوت شدہ کرونا” اچانک زندہ ہو کے اٹھ کھڑا ہوا ۔ اب یہ اتفاق ہے یا بدنصیبی ، کہ جیسے ہی پی ڈی ایم کے جلسوں کا شیڈول جاری ہؤا ، وزیراعظم سمیت تمام وزراء نے کرونا ، کرونا کا شور مچانا شروع کر دیا ۔ ٹی وی چینلز پر روزانہ نئے کیسز سامنے آنے لگے اور کرونا سے اموات کی تعداد بتائی جانے لگی ۔ گجراں والا اور کراچی کے جلسے کرونا کے شور و غوغا میں ہی ہوئے ۔ کوئٹہ کے جلسے سے پہلے بلوچستان کے ایک ایسے وزیر نے پریس کانفرنس کر کے دہشت گردی کا خطرہ ظاہر کیا ، جو پہلے شاید کبھی ٹی وی یا خبروں میں نہیں آئے ۔ عین جلسے والے دن کوئٹہ کے نواح میں ایک بم دھماکہ بھی ہؤا اور چند معصوم جانیں ضائع بھی ہوئیں ۔ یوں حکومت کی طرف سے کرونا اور دہشت گردی ، دونو خطرات کا بہت شور مچایا گیا ۔ لیکن جلسہ کامیاب رہا ۔ اس کے فوری بعد گلگت بلتستان میں انتخابات کا ڈول ڈالا گیا تو کرونا پھر غائب ہو گیا ۔ تمام انتخابی ضابطوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے پہلے عمران خان ، اور پھر وفاقی وزراء وہاں انتخابی مہم چلاتے رہے ۔ محترمہ مریم نواز اور بلاول زرداری بھی وہاں جلسے کرتے رہے ۔ اسی دوران راول پنڈی اور اسلام آباد میں تحریک لبیک کا دھرنا ہؤا ۔ کرونا اور دہشت گردی کا شور بند رہا ۔ تحریک لبیک کے سربراہ خادم حسین رضوی اچانک وفات پا گئے اور لاہور میں ان کی نمازِ جنازہ کے لیے خود حکومت نے مینار پاکستان کے وسیع گراؤنڈ میں اجتماع کی اجازت دے دی ۔ یہ ایک یادگار نماز جنازہ تھی کہ انسانوں کا جیسے پورا سمندر امڈ آیا تھا ۔ کرونا کا کہیں ذکر تک نہ تھا ۔ پھر پشاور میں پی ڈی ایم کا جلسہ ہونا تھا تو کوئٹہ کی طرح وہاں کے ایک صوبائی وزیر نے بھی کرونا اور دہشت گردی ، دونو خطرات سے آگاہ کر دیا ۔ اس بار حکومت اور میڈیا کی طرف سے ان دونو خطرات کا اتنا زیادہ شور مچایا گیا کہ پشاور کے لوگ واقعی خوف زدہ نظر آئے اور جلسہ میں خاطر خواہ تعداد میں جمع نہ ہوئے ۔ اس پر حکومتی وزراء کے بیانات نے کرونا کے حوالے سے عوام کو پھر سے غیر سنجیدہ کر دیا ۔ کیوں کہ انھیں تو کرونا اور دہشت گردی سے ڈرا کر جلسے سے دور رہنے کا کہا گیا تھا ، لیکن جب عوام نے حکومت کی یہ بات مان لی تو انھی وزراء کا کہنا تھا کہ عوام نے جلسے میں شرکت نہ کر کے دراصل پی ڈی ایم کا بیانیہ مسترد کر دیا ہے اور حکومت کی حمایت کی ہے ۔ یہاں وہ دوغلا پن کھل کر سامنے آ گیا جس کو تقریباً ہر پاکستانی نے محسوس کر لیا ۔ اس واضح دوغلے پن نے پی ڈی ایم قیادت کو بھی مجبور کر دیا کہ وہ کرونا کے خطرے کو حقیقی کی بجائے سیاسی سمجھے ۔ اس دوران حکومت نے اچانک ملک بھر کے تمام تعلیمی ادارے ایک بار پھر بند کر دیئے ہیں ۔ لیکن لوگوں کی اکثریت پھر بھی اس وباء کو سنجیدہ نہیں لے رہی اور حکومتی ایس او پیز پر عمل کرنے پر تیار نظر نہیں آتی ۔ اسی شور میں ملتان جلسے کی تیاریاں جاری ہیں ۔ ملتان میں بھی وہی دوغلا پن ظاہر ہو رہا ہے کہ حکومت ایک طرف خود جلوس نکالتی ہے اور دوسری طرف کرونا ایس او پیز کی خلاف ورزی کا شور مچا کر مخالفین کی گرفتاریاں کر رہی ہے ۔ اللّٰہ کریم ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور اس وباء سے نجات عطا فرمائے ۔ آمین بالخیر !

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply