روٹ ہمراہ ہے۔۔عارف انیس

ہم سب اس زمین پر سیاح اور مسافر ہیں اور خدا ہمارا بہترین ٹریول ایجنٹ ہے جس نے ہمارے لئے بہترین روٹ، سٹاپ اور منزلیں طے کر رکھی ہیں. بس اس پر مکمل بھروسہ رکھو اور زندگی کے اس ٹرپ سے بھرپور لطف اٹھاؤ.
میں نے پانچ سال قبل یہ الفاظ لندن میں ایک تقریب میں رتن ٹاٹا کے منہ سے سنے تھے، شاید یہ اس کے اپنے الفاظ تھے یا چارلی چیپلین کے، مگر یہ بہت مؤثر الفاظ تھے. ایک ایسا بچہ جس کے والدین سات سال کی عمر میں علیحدہ ہوگئے تھے، جو اپنی دادی کے ہاتھوں پلا تھا، جس کا اپنا مستقبل ایک سوالیہ نشان تھا مگر پھر وہ دنیا کے موثر ترین سرمایہ کاروں میں شامل ہوا تھا، پیسہ کمانے والا بھی ایسا کہ کاروبار کا ٪66 خیراتی اداروں کے لیے وقف تھا. ٹاٹا گروپ دنیا بھر میں اپنے ملازمین کی دیکھ بھال اور انسانی رویوں کی وجہ سے مثال بن چکا ہے. رتن نے زندگی میں ایسا افسانوی عروج دیکھا جس کی مثال دی جاتی ہے.
رتن ٹاٹا نے 1991 میں ٹاٹا گروپ میں شمولیت اختیار کی اور اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے گروپ چیرمین بن گیا. 1998 کی بات ہے جب رتن کی کمپنی نے اس کی ڈریم کار بنائی جو صارفین کی توقعات پر پوری نہ اتر سکی اور فلاپ ہو گئی ۔ یہ ٹاٹا موٹرز کی طرف سے بنائی جانے والی پہلی پیسنجر کار تھی۔ اس کار کو بنانے اور کار کے بزنس میں داخل ہونے کا فیصلہ رتن ٹاٹا کا تھا. اس سے پہلے ٹاٹا موٹرز صرف ٹرک بنایا کرتا تھا.
کار نے ٹاٹا موٹرز کا بھٹہ بٹھا دیا، رتن ٹاٹا کو بہت سارے لوگوں نے مشورہ دیا کہ یہ بزنس بند کر دو یا پھر بزنس بیچ دو۔ رتن نے بہت کوشش کی لیکن وہ کاروں کا بزنس نہ چلا سکا۔ رتن کو کسی نے مشورہ دیا کہ وہ اس بزنس کو مشہور امریکی کمپنی فورڈ کو فروخت کر دے۔ اس سلسلے میں پیغام رسانی شروع ہوئی. جب 1999 میں رتن ٹاٹا ڈیٹرائٹ میں میٹنگ کے لیے ٹیم سمیت پہنچا گیا تو فورڈ کمپنی کے مالک بِل فورڈ نے ایک کاؤ بوائے کی طرح برتاؤ کیا. میٹنگ تین گھنٹے جاری رہی. باتوں باتوں میں بل فورڈ نے طعنہ دیا :
“رتن، آخر تم اس بزنس میں آئے ہی کیوں تھے جب تم کو اس کی الف بے کا بھی نہیں پتہ تھا. تمہارا بزنس خرید کر ہم تم ہر بہت بڑا احسان کریں گے”۔
یہ بات سن کر رتن ٹاٹا کے عزت نفس تار تار ہوگئی۔ وہ اسی رات اپنی ٹیم سمیت میٹنگ ادھوری چھوڑ کر نیویارک آگیا اور توہین کے احساس سے پوری فلائٹ میں اس کا چہرہ اترا رہا. وہاں سے وہ بمبئی چلا آیا اور دوبارہ سے بزنس کرنے لگا۔ اگلے ایک دو سال میں اس کے پاؤں زمین سے لگ گئے اور اس کی قسمت پلٹنے لگی.
دوسری طرف اتفاق سے فورڈ کمپنی کو اپنی برطانوی کار جیگوار میں شدید گھاٹا اٹھانا پڑا اور چند ہی سالوں میں بِل فورڈ کا جیگوار کا بزنس دیوالیہ پن کے دھانے پر پہنچ گیا. 2008 میں وہی بِل فورڈ جس نے رتن ٹاٹا کی تحقیر کی تھی، اسے اپنی لیڈرشپ ٹیم کے ساتھ ڈیٹرائٹ سے اڑ کر بمبئی جانا پڑا. تاہم اس مرتبہ معاملہ مختلف تھا. وہ رتن سے رحم کی اپیل کرنے آیا تھا کہ وہ جیگوار، لینڈ روور گروپ کو خرید لے جس کا دیوالیہ نکلنے والا تھا. رتن نے اس کے ساتھ معززانہ برتاؤ کیا اور دس سال پرانی تحقیر نظر انداز کرتے ہوئے 2.3 ارب ڈالرز میں سودا کرلیا اور اگلے تین سال میں ڈوبتے ہوئے جہاز کو سنبھال کر اس سے پانچ ارب ڈالر بنالیے.
بل فورڈ نے رتن ٹاٹا سے یہ الفاظ کہے تھے “ہم تباہ و برباد ہونے والے ہیں. آپ جے ایل آر خرید کر ہم ہر بہت بڑا احسان کر رہے ہیں”.
رتن ٹاٹا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اربوں ڈالرز خیرات کرنے کی وجہ سے دنیا کا امیر ترین شخص تو نہیں بن سکا، مگر اس کے ساتھ کام کرنے والے اسے دنیا کا عظیم ترین شخص ضرور مانتے ہیں.
عارف انیس
مصنف کی زیر تعمیر کتاب “صبح بخیر زندگی” سے اقتباس

Facebook Comments