مجھے چلغوزے کی مثال نہیں چاہیے

مجھے چلغوزے کی مثال نہیں چاہیے
زینی سحر
قرآن پاک اسلام کی آخری الہامی کتاب ہے اللہ پاک نے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ اسے نازل فرما کر دین کو مکمل کر دیا ہےقرآن پاک وہ کتاب ہے جو اتاری تو نبی پاک پر گئی لیکن اس میں ِہدایت قیامت تک آنے والے ہر انسان کے لیے ہےقران پاک میں اللہ پاک اپنے بندوں سےمخاطب ہو کر واضح احکامات دیتا ہےاس میں مرد وزن کی تفريق نہیں ہے ۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو مخاطب کیا ہے ۔جو احکامات يکساں تھے وہاں لفظ انسان استعمال کیا گیا جہاں انفردی نوعیت کے احکامات تھے وہاں مرد اور عورت کوعلیحدہ علیحدہ مخاطب کیا گیا
قرآن پاک اللہ پاک کا پيغام ہے جسے ہر انسان اپنے علم اپنے ظرف اور محبت کی بنا پر سمجھتا ہے، اس کی مثال ایسے ہے کے کچھ چیزيں فرائض میں شامل نہیں بھی ہوتی جیسے نماز میں سنتیں اور نوافل لیکن اپ اسے رب کی خوشنودی کے لیے پڑھتے ہیں۔
پردے کا حکم بھی اللہ پاک نے اپنی آخری کتاب میں واضح فرما دیا ہے۔ اس پہ کوئی دو رائے نہیں ہو سکتي ہیں لیکن سمجھنے والوں نے اسے اپنے ظرف اور محبت کی بنا پر سمجھا ہےکچھ کو يہ پیغام سمجھ آيا کے دراصل پردے کا حکم چہرے سے مطالق نہیں ہے يہ محض باقی بدن ڈھانپنے اور سينے کو کور رکھنے سے متعلق ہے ۔
اور کچھ کو اللہ پاک کا يہ خاص حکم کے اے نبی اپنی بیویوں اور مسلمان عورتوں کو کہہ دو کے گھر سے نکلتے ہوئے اپنی اوڑھنیوں کو اپنے آگے لٹکا لیا کريں تا کے پہچان لی جائيں اور ستائی نہ جائيں
يہ پیغام سمجھ آیا کے يہ چہرے سے متعلق ہے کیونکہ سر پہ دوپٹہ تو زمانہ قديم کی خواتین بھی لیتی تھیں اور ازواج مطہرات بھی ۔لیکن اللہ پاک نے اس حکم کو واضع کیا ہے تو اسکا مطلب وہ خاص پيغام ہے جو رب نے دیا۔پردہ سنت ہے، فرض ہے ،يا مستحب میں نہیں جانتی ۔لیکن میں اتنا جانتی ہوں کے میں اپنے رب کی خوشنودی کے لیے افضل چیز کو اپناوں گی ۔اس کے لیے نہ تو مجھے کسی چلغوزے کی مثال کی ضرورت ہے نہ کیلے اور نہ ٹافی کی۔
میں الحمدلله حجاب لیتی ہوں اور چودہ پندرہ سال کی عمر سے لینا شروع کیا اور کیوں لیا یہبھی آپ کو بتاتی ہوں ۔مجھے اپنی خالہ کے ساتھ ایک ہاسپٹل جانا پڑا خالہ بیمار تھیں جب ہم ڈاکٹر کے کیبن میں پہنچے تو ڈاکٹر خالہ کی بیماری کی طرف توجہ دینے کی بجاۓ اس طرف انٹرسٹڈ تھا کے ہم لوگوں کی ذات کیا ہے ہم کہاں سے آۓ وغیرہ وغیرہ۔
ڈاکٹر کی نظريں بار بار میرے چہرے کی طرف اٹھ رہی تھیں جو میرے ساتھ ساتھ خالہ کو بھی اچھی نہیں لگ رہا تھا۔اچانک ڈاکٹر نے مجھ سے سوال کیا کے کیا آپ لوگ پٹھان ہیں؟
ڈاکٹر کی ان نظروں اور سوال نے مجھے اپنا چہرہ ڈھانپنے پہ مجبور کر دیا ۔واپسی پہ میں سارے راستے سوچتے آئی کے اگر میں مکمل حجاب میں ہوتی تو کیا وہ شخص اس طرح سوال و جواب کرتا؟
اس واقعے کے بعد میں نے ايک بڑی چادر کو اپنےچہرے اور سینے پہ ویسے ہی پھیلانا شروع کر دیا جیسا مجھے میرے رب کا پیغام سمجھ آیا۔پہلے پہل تو حجاب میں بہت تکلیف ہوتی خصوصاً گرمیوں میں اگر بازار جانا ہوتا تو سمجھو سانس ہی بند ہو جاتی کوئی بھی چیز کھانے پینے میں مسئلہ ہوتا پھر آہستہ آہستہ عادت ہوگئی۔ اس دوران ایک ایسا واقعہ بھی ہوا جس سے مجھے لگا شايد میں پھر کبھی حجاب نہیں پہن پاوں گی۔
مشرف دور میں جب لال مسجد کا واقعہ ہوا ان دنوں اسلام اباد ائیرپورٹ جانا پڑا ۔اپنے چھوٹے بھائیوں اور کزن کے ساتھایئرپورٹ میں طرح طرح کے مرد و زن کا سیلاب تھا اور اس سیلاب میں میں اور میرا چھوٹا بھائی بھیڑ میں کزن سے علیحدہ ہو گے ۔اس اثنا میں ايک فوجی جوان جس نے ایک کلاشنکوف اٹھائی ہوئی تھی ہمارے پاس آيا اور ہماری شناخت مانگنے لگا۔ ان دنوں میرا شناختی کارڈ کارڈ نہیں بنا ہوا تھا بھائی چھوٹا تھا تو اسکا تو ویسے بھی نہیں تھا۔میں نے اس سے کہا میرے پاس آئی ڈی کارڈ نہیں ہے تب اس نے مجھ سے کہا یا تو نقاب اتار کر اپنی شناخت کروائيں یا پھر کسی کا آئی ڈی کارڈ دکھائيں۔
میں نے اپنے ادھر گرد نگاہ دوڑائی تو بہت سی ماڑرن خواتین میرے پاس کھڑی میرا تمسخر اڑا رہی تھی۔ کچھ کے چہرے پہ تو باقاعدہ ہنسی بھی تھی مجھے لگا میری ٹانگيں بے جان ہو رہی ہیں اتنے میں کزن ہمیں ڈھونڈتا ہوا وہاں آ گیا ۔اس نے آ کر اپنا آئی ڈی کارڈ دکھایا تو آرمی افیسر وہاں سے جانے لگا ۔جب وہ جانے لگا تو میں نے اس سے پوچھا کیا يہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے،
میرے سوال میں چھپے درد اور غصے کو محسوس کر کے وہ جوان رک گیا اس نے آکر میرے سر پہ ہاتھ رکھا اور کہا میں شرمندہ ہو لیکن کیا کروں ہمیں يہ خاص حکم ہے کے نقاب والی خواتین کو لازمی چیک کرنا ہے۔يہ وہ مقام تھا جب مجھے حجاب اتار کر لبرل اور آزاد ہو جانا چاہیے تھا کیونکہ مجھے لگا تھا کے خدا کا پیغام غلط ثابت ہو گیا ہے میں حجاب میں بھی ستائی گئی تھی اور میرا جرم صرف حجاب تھا
لیکن،پھر مجھے خدا کا يہ پیغام بھی ملا کے ہم تمہیں آزمائيں گے بہت سارے خساروں سے کبھی جان و مال کا اور کبھی عزت و آبرو سے۔صد شکر کے میں سرخرو ہوئی ۔
میرا رب ہمیں عزت دینا چاہتا ہے اب يہ ہم پہ ہے کے ہم اسے کھونا چاہتی ہیں يا پانا،معاشرے چاہے کتنے بھی اسلامی ہو جائيں یا سیکولرفطرتی کمزوریاں انسانوں کے ساتھ رہتی ہیں ۔پھر وہ چاہے مرد کی بدنگاہی ہی کیوں نہ ہو،ہم اس نگاہ کو نہیں روک سکتے لیکن خود کو بے حجابی سے روک سکتے ہیں۔مجھے اچھا لگتا ہے میں اپنے رب کے لیے خود کو ڈھانپ کر رکھوں۔کیونکہ يہ اس کا حکم ہے اور میرے لیے میرے رب کا حکم ہی کافی ہے کسی مولوی کا فتویٰ نہیں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply