• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گلگت بلتستان کے لوگ کس قانون کے تحت گندم پر سبسڈی کا حق مانگتے ہیں؟ / اشفاق احمد ایڈوکیٹ ۔

گلگت بلتستان کے لوگ کس قانون کے تحت گندم پر سبسڈی کا حق مانگتے ہیں؟ / اشفاق احمد ایڈوکیٹ ۔

گزشتہ چند دنوں سے سوشل میڈیا میں یہ بحث چل رہی ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگ گندم پر سبسڈی کے حقدار ہیں یا نہیں اگر حقدار ہیں تو کس قانون کے تحت؟

Advertisements
julia rana solicitors

گلگت بلتستان میں بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ یہ حق کس قانون کے تحت دیا گیا تھا ۔
بعض لوگ تین صفحات پر مشتمل شملہ معاہدہ کو گندم سبسڈی کا ماخذ قرار دے رہے ہیں بعض معاہدہ کراچی کو۔ دونوں دلائل بے بنیاد ہیں کیونکہ ان معاہدوں کا گندم سبسڈی سے تعلق نہیں ہے۔
درحقیت جب گلگت بلتستان میں ایف سی آر کے کالے قانون کے خلاف گلگت بلتستان کے وکلاء کی قیادت میں تحریک چلائی گئی تو اس کے نتیجے میں 1972 کے بعد زوالفقار علی بھٹو نے گلگت بلتستان کو سبسڈی دینے کا حکم دیا تھا جس کی بنیادی وجہ علاقے کی پسماندگی تھی جس کی وجہ 1947 سے 1973 تک یہاں ایف سی آر کے کالے قانون کا نفاذ تھا جس میں گلگت بلتستان کے عوام کے تمام تر بنیادی انسانی جمہوری سیاسی معاشی حقوق غصب ہوئے تھے ، کوئی سکول، کالج، یونیورسٹی، ہسپتال قائم نہیں کئے گئے نہ عدالتی نظام تھا نہ ہی اس خطے میں الیکشن ہوتے تھے یہاں تک کہ خطے کا شناخت بھی ختم کرکے نادرن ایریاز کا نام دیا گیا۔
بنگال ٹوٹنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے اس خطے کا دورہ کیا اور ریاست ہنزہ نگر ،پونیال کی راجگی سمیت خطہ سے ایف سی آر کا سیاہ قانون ختم کیا، انتظامی اصلاحات متعارف کرائی، بعد ازاں سٹیٹ سبجیکٹ رول کا بھی خاتمہ کیا گیا، دوسری طرف آزاد کشمیر میں تاحال سٹیٹ سبجیکٹ رول بحال ہے۔
گلگت بلتستان کا علاقہ پاکستان کے زیر انتظام آنے کے بعد حکومت پاکستان کو چاہئے تھا کہ وہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو پاکستان کے شہریوں کے برابر حقوق دیتا یا پاکستان کے زیر انتظام آزاد جموں وکشمیر کے برابر حقوق دیتے لیکن نہ تو آج تک گلگت بلتستان کو پاکستانی شہریوں کے برابر حقوق دئے گئے نہ ہی آزاد کشمیر کے برابر حقوق دیے گئے نہ ہی گلگت بلتستان کے وسائل کی مد میں رائلٹی ادا کی جاتی ہے۔ آزاد کشمیر کو 14 ارب روپے پانی کی ریلٹی ادا کی جاتی ہے دوسری طرف گلگت بلتستان کو پاکستان کے قومی اداروں میں گذشتہ 76 سال سے نمائندگی نہیں اور نہ ہی آزاد کشمیر کی طرح یہاں آئینی نظام موجود ہے، ساتھ ہی باشندہ ریاست کا بھی خاتمہ کیا گیا ہے۔ پورے خطے میں ایک بھی معیاری ہسپتال نہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے 76 سالوں میں وفاق پاکستان یہاں ایک بھی میڈیکل کالج یا انجینئرنگ کالج تک نہیں بنا سکا ہے جس سے اس خطے کی اصلی پسماندگی اور یہاں کے عوام کے بنیادی انسانی جمہوری حقوق کو سلب کرنے کی پالیسی واضح ہو جاتی ہے۔ 1974 کے بعد ایک احسان گندم سبسڈی کی شکل میں ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا اس کا بھی خاتمہ کرنے پر حکومت تلی ہوئی ہے ، اور 150 گناہ گندم کی قیمت میں اضافہ کیا ہے جس کی وجہ سے پورا گلگت بلتستان سراپا احتجاج ہے۔ گلگت بلتستان میں صرف 2 فیصد زمین قابل کاشت ہے اور دوسری طرف مہاراجہ پنجاب رنجیت سنگھ کا خالصہ سرکار قانون کے تحت گلگت بلتستان کی بنجر اراضیات پر گلگت بلتستان کے عوام کی حق ملکیت کو حکومت پاکستان نے تا حال تسلیم نہیں کیا ہے اس لئے عوام اور حکومت میں زمینوں کی ملکیت پر ایک تنازعہ چل رہا ہے اسی صورت میں غذائی اجناس کی قلت پیدا ہونا فطری امر ہے۔
دوسری طرف گلگت بلتستان کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے 17 جنوری 2019 کو متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کا حصہ قرار دیا ہے ،اس لیے یہاں کے عوام اب متنازعہ علاقہ جات کو بین الاقوامی قانون میں حاصل حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں، اس لیے لوگ ان قوانین کا پوچھ رہے ہیں جن میں ان کے قومی وسائل کا تحفظ اور حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔
عام طور پر اشیاء پر سبسڈی کا تعلق ملکی قوانین سے ہوتا ہے اس لئے حکومت پاکستان اپنے شہریوں کو مختلف اشیاء میں سبسڈی دیتی ہے، مثال کے طور پر میڑو منصوبہ، گرین اورنج لائن وغیرہ پر پنجاب سندھ کو عوام کو سبسڈی دے رہے ہیں ان سہولیات سے گلگت بلتستان کے شہری محروم ہیں چونکہ گذشتہ 76 سالوں سے پاکستان کی قومی اسمبلی سینٹ اور NFC میں گلگت بلتستان کی نمائندگی نہیں ہے، چونکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 257 کے مطابق اور اقوام متحدہ کی کشمیر پر قراردادوں کے تحت گلگت بلتستان متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کا حصہ تسلیم کیا گیا ہے۔
گلگت بلتستان ائین پاکستان کا حصہ نہیں اس لیے یہاں آرڈر 2018 کے تحت حکومت چلائی جاتی ہے جس کے رو سے یہاں کی اسمبلی کے پاس اختیارات موجود نہیں کہ وہ خود سے اپنے شہریوں کو سبسڈی دے سکے چونکہ اس خطے کے اہم معملات امور کشمیر اور گلگت بلتستان کونسل کے چیئرمین یعنی وزیراعظم پاکستان کے دائرہ اختیار میں ہے۔
جبکہ گلگت بلتستان آرڈر 2018 میں گندم سبسڈی کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔
البتہ کسی بھی خطے کے مقامی لوگوں کےمعاشی، سیاسی سماجی اور دیگر بنیادی انسانی حقوق کا زکر ہمیں
International Law on Indigenous people and human rights
میں ملتے ہیں، ان عالمی قوانین کی رو سے مقامی لوگوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے ان ریاستوں کی ذمہ داری ہوتی ہے جن کے وہ زیر کنٹرول ہوتے ہیں ۔
جس طرح No taxation without representation کا اصول دنیا بھر میں تسلیم شدہ ہے اس طرح دیگر حقوق کے بھی مقامی لوگ حقدار ہوتے ہیں۔
گذشتہ دنوں حکومت گلگت بلتستان نے گندم سبسڈی میں کمی کرنے اور گندم کی قیمتوں میں بیش بہا اضافہ کا اعلان کیا ہے جس کی وجہ وہ یہ بتا رہے ہیں کہ وفاقی حکومت پاکستان نے سبسڈی کی مدد میں دی جانے والی گرانٹ میں کمی کی ہے جبکہ آئی ایم ایف کا دباؤ بھی ایک وجہ بتائی جاتی ہے۔ حکومت کے اس اقدام کے فورا بعد گلگت بلتستان میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا ہے، عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے نمائندوں نے مختلف سٹیک ہولڈرز سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا ہے اس سلسلے میں انہوں نے کل ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن گلگت-بلتستان کے نمائندوں سے ملاقات کی ہے جس کے بعد وکلاء برادری نے گلگت بلتستان حکومت کے اس اقدام کو غیر قانونی اور عوام دشمن قرار دیتے ہوئے عوامی ایکشن کمیٹی کا ساتھ بھر پور تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے اور پورے گلگت بلتستان کی عدالتوں میں آج مورخہ 17 نومبر 2023 کو مکمل عدالتی ہڑتال کا اعلان کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور آنے والے دنوں میں ایک بڑی عوامی تحریک شروع ہوگی جس طرح 2013 میں گلگت بلتستان کے عوام نے گندم سبسڈی میں خاتمہ کے خلاف تحریک چلائی تو وفاقی حکومت نے اپنے فیصلے کو واپس لیا تھا ، اس بار یہ عوامی تحریک صرف گندم سبسڈی کی حد تک نہیں بلکہ اس کے ساتھ دیگر تمام بنیادی انسانی جمہوری سیاسی معاشی حقوق اور زمینوں پر حق ملکیت کے لئے بھی تحریک چلائی جائے گی جس سے حکومت گلگت بلتستان کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا عوامی منتخب نمایندوں کو گلگت بلتستان کے عوام کو جواب دینا ہوگا کہ وہ عوام کے ساتھ ہیں یا صرف اپنی زاتی مراعات کے لئے سیاست کر رہے ہیں۔
اس عوامی سیاسی تحریک کے نتیجہ میں گلگت بلتستان میں ایک نئی مزاحمتی تحریک جنم لے سکتی ہے جس سے اس خطہ کی سیاست اور مستقبل پر دور رس اثرات مرتب ہونگے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply