راکھ کا ڈھیر/محمد اسد شاہ

غزہ میں قتل عام کا حالیہ سلسلہ گزشتہ تقریباً سوا مہینہ سے جاری ہے۔ اتنی شدید، مسلسل اور طویل بمباری انسانی تاریخ نے یقیناً اس سے قبل نہیں دیکھی۔ بے گناہ اور نہتے فلسطینیوں کے قتل کا سلسلہ یوں تو تقریباً 80 سال سے جاری ہے۔ اس دوران بعض مواقع پر پڑوس کے عرب ممالک کی شمولیت سے یہ سلسلہ جنگی صورت بھی اختیار کرتا رہا، لیکن اسرائیل کے قابضانہ اور توسیع پسندانہ عزائم میں کبھی کوئی رکاوٹ نہ آ سکی۔ آہستہ آہستہ انہی پڑوسی ممالک نے جزوی یا کلی طور پہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہ اپنائی۔ تسلیم و رضا کے اس راستے کی منزل بظاہر کبھی اہل فلسطین کے حقوق کا دفاع نہیں رہی۔ اہل فلسطین خود اپنی بے بسی کے ساتھ نہتے ہاتھوں اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

یہ جدوجہد کیا ہے؟ بس یہی کہ کبھی مسجد اقصٰی میں صلواۃ الجمعہ ادا کر لی، کبھی نوجوانوں کی شہادتوں پر نعرے بازی کر لی، کبھی معصوم بچوں کے جنازوں کو تحریک آزادی کا جلوس سمجھ لیا اور کبھی مکانوں کے انہدام کے منظر میں اپنے خون کا رنگ شامل کرتے وقت اپنے چہرے فلسطینی روایتی رومالوں سے ڈھانپ کر ہاتھوں میں غلیلیں پکڑ کر بارود اگلتے ٹینکوں کی طرف کنکریاں اچھال دیں۔ شاید فلسطینی بچوں اور بچیوں کی یہ کنکریاں بھی غاصبوں کے دلوں پر اسی طرح لگتی ہیں جیسے ابرہہ کے لشکر پر ابابیلوں کی کنکریاں۔ ان 80 سالوں میں ہزاروں فلسطینی نوجوانوں، عورتوں، بچوں اور لڑکیوں کو قابض فوج سرعام اغواء کر کے اپنے قید خانوں میں بند کرتی رہی۔ سینکڑوں انھی قید خانوں کی ان کہی اذیتوں کے سامنے دنیائے فانی سے گزر گئے، بہت سے ایسے بھی ہیں جو سالہا سال کی سزائیں سہ کر اور اپنی جوانیوں سے محروم ہو کر اپنی گلیوں کو لوٹ آئے جہاں زندگی ان کے لیے اجنبی ہو چکی تھی۔ اور ہزاروں اب بھی خفیہ زندانوں کی تاریکیوں میں قید ہیں کہ جن کی خبر کسی اخبار میں چھپتی ہے اور نہ کسی ٹی وی چینل سے سنائی دیتی ہے۔

7 اکتوبر 2023 کو حماس نے مقبوضہ علاقے میں گھس کر چھاپہ مار کارروائی کی۔ اس دوران بہت سے فوجی مارے گئے اور تقریباً 200 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا۔ یرغمالیوں میں فوجیوں کے ساتھ عام شہری بھی تھے۔ حماس کا مطالبہ یہ تھا کہ قید خانوں میں موجود ہزاروں بے گناہ فلسطینی لڑکوں، لڑکیوں اور عورتوں کو رہا کیا جائے تو وہ ان یرغمالیوں کو بھی چھوڑ دیں گے۔ لیکن اس کے جواب میں مذاکرات کی بجائے پرتشدد کارروائیوں کو باقاعدہ فضائی حملوں کی شکل دے دی گئی۔ گزشتہ سوا مہینے سے فلسطین کے ایک چھوٹے سے علاقے غزہ کے نہتے شہریوں پر دن رات مسلسل بمباری جاری ہے۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے مطابق ان 41 دنوں میں اہل غزہ پر برسائے گئے بارود کی شدت 7 ایٹم بموں کے برابر ہے۔ غزہ میں اب تک 12 ہزار سے زیادہ افراد شہید ہو چکے ہیں، جن میں نہتے مردوں اور بوڑھوں کے ساتھ ساتھ ساڑھے 5 ہزار سے زیادہ نوزائیدہ اور چھوٹے بچے، بچیاں اور 3 ہزار سے زیادہ عورتیں بھی شامل ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اس خوف ناک قتل عام پر دنیا کا ردعمل کیا ہے۔ امریکا نے فوری طور پر غزہ کے نہتے عوام کے مقابلے میں اسرائیلی مسلح افواج کی مدد کے لیے مزید اسلحہ، جنگی جہازوں کی کھیپ، جدید ترین میزائل ٹیکنالوجی اور ہزاروں فوجی بھی بھجوا دیئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مختلف ممالک کی طرف سے غزہ پر بمباری روکنے کی قراردادیں بار بار پیش کی گئیں لیکن ہر بار امریکا نے ان قراردادوں کو ویٹو کر دیا۔ امریکا، برطانیہ اور بھارت مکمل طور پر اسرائیلی بمباری کی حمایت کر رہے ہیں۔ لیکن انھی ممالک کے عوام اہل غزہ کی حمایت میں باہر نکل آئے ہیں۔ گزشتہ ایک ماہ میں نیویارک، لندن، پیرس اور دہلی سمیت دنیا بھر میں غزہ کے مظلوموں کے حق میں تاریخ ساز عوامی مظاہرے ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

دوسری جانب مسلم ممالک کی حکومتوں اور عوام کا رویہ عجیب ہے۔ یہ حکمران بیان بازیوں پر گزارہ کر رہے ہیں اور عوام چھوٹی موٹی نعرے بازی پہ مطمئن ہیں۔ امریکا اور یورپ کے شہری لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پہ نکلے اور بار بار نکلے۔ لیکن مسلم ممالک کے عوام کہاں ہیں؟ اہل غزہ کی حمایت میں جیسے عظیم الشان مظاہرے لندن اور نیویارک میں تقریباً ہر ہفتے ہوتے ہیں، ویسا کوئی ایک بھی مظاہرہ آپ کو کراچی، لاہور، کابل، قاہرہ، جدہ، ریاض، طرابلس، کوالالمپور، دبئی اور شارجہ کی سڑکوں پر نظر نہیں آیا۔

ہفتہ 11 نومبر 2023 کو سعودی عرب کی میزبانی میں عرب لیگ اور او آئی سی، یعنی تمام مسلم ممالک کے سربراہان کا ایک اجلاس غزہ کی کرب ناک صورت حال پر غور کرنے اور لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے منعقد ہوا ۔ لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ کہاں کا غور اور کون سا لائحہ عمل ! سرکاری اخراجات پہ ملاقاتیں ہوئیں، قسم قسم کے عمدہ ترین مشروبات اور کھانوں سے لطف اٹھایا گیا، پسندیدہ درجہ حرارت کے پرسکون ماحول میں بیٹھ کر تقاریر کی گئیں، اور پھر ایک اعلامیہ نما لطیفہ جاری کیا گیا۔ اس اعلامیے یا لطیفے پر یہ لوگ خود تو شاید ہنسے ہوں، لیکن دنیا بھر کے اہل درد مزید مایوس ہو گئے۔ دوسری طرف اسرائیل اور امریکا نے اس اعلامیے پر کسی بھی قسم کا ردعمل دینا گوارہ ہی نہیں کیا۔ ان کے لیے اس اعلامیے کی وہی حیثیت تھی جو ہم سب کے لیے کسی دور دراز جنگل میں پڑے کسی بیمار گیدڑ کی خارش کی ہو سکتی ہے کہ وہ کبھی ہمارا موضوع سخن نہیں ہوا کرتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شہزادہ محمد بن سلمان، رجب طیب اردوغان، محمود عباس، تمیم بن حمد الثانی، عبد الفتاح السیسی اور ابراہیم رئیسی جیسے حکمرانوں کی تقاریر کو میڈیا میں بظاہر بہت اہم بنا کر پیش کیا گیا۔ لیکن ان کے لہجوں میں وہ کرب، ذہنوں میں وہ سوچ اور الفاظ میں وہ احساس نہیں تھا جو مطلوب تھا۔ اگر کرب ، سوچ اور احساس کا وجود ہوتا تو کیا آج بھی غزہ کے محصورین پہ بم برس رہے ہوتے؟
شاعر نے سو سال پہلے کہ دیا تھا:
بجھی عشق کی آگ ، اندھیر ہے ۔۔۔۔
مسلماں نہیں ، راکھ کا ڈھیر ہے !

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply