• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ڈرامہ انڈسٹری، آئی ایس پی آر اور عوامی رائے ۔۔۔ معاذ بن محمود

ڈرامہ انڈسٹری، آئی ایس پی آر اور عوامی رائے ۔۔۔ معاذ بن محمود

یہ بات حقیقت ہے کہ پاکستانی فلم انڈسٹری پچھلی کئی دہائیوں سے تنزلی کا شکار ہوچکی ہے۔ اس زوال کی وجوہات بذات خود ایک مفصل مضمون کی متقاضی ہیں تاہم میرے خیال سے بہترین اداکاروں اور فلم پر پیسہ لگانے والوں کی موجودگی کے باوجود بھی اس ناکامی کی ایک بڑی وجہ فلمی سکرپٹ کا معاشرے میں پیش آنے والے تغیر اور جدت کے ساتھ مطابقت نہ رکھنا ہے۔ بالی وڈ نے بدلتے ماحول کے حساب سے خود کو ڈھالنا سیکھا اور کامیاب رہا۔ یقیناً اور بھی کئی وجوہات ہوں گی تاہم میرے نزدیک یہ انزال کی ایک بڑی وجہ رہی۔ پچھلے چند برسوں میں جب جب سنیما نے گاؤں دیہات کے عشق و محبت کی داستانوں یا دشمنیوں سے ہٹ کر کچھ پیش کیا، فلم کامیاب رہی۔

دوسری جانب پاکستانی ڈراموں نے اس بدلاؤ کو قبول کرتے ہوئے اپنے سکرپٹس اور کہانی کو نئی نسل کے انتخاب کے مطابق استوار کیا اور کامیاب رہے۔ پاکستانی ڈراموں کو “ڈرامے بازی” کی ایک نئی صنف ٹاک شوز نے کسی حد تک متاثر ضرور کیا مگر یہ صنف مکمل طور پر اصل ڈراموں کو ختم کرنے میں ناکام رہی۔ ڈرامہ انڈسٹری نے ناصرف معاشرتی مسائل کو موضوع بنا کر مزید مقبولیت حاصل کی بلکہ ان مسائل کے خلاف آگہی پھیلانے میں بھی قابل ذکر کردار ادا کیا۔ ان معاشرتی مسائل میں خواتین پر ظلم، غریب کا استحصال، مڈل کلاس کے مسائل سے لے کر خواتین و بچوں کے جنسی استحصال وغیرہ تقریباً سبھی شامل ہیں۔ یہ پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کا ایک مثبت پہلو ہے جسے سراہا جانا ضروری ہے۔ دوسری طرف ڈرامہ انڈسٹری پر بے حیائی اور بے راہ روی پھیلانے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے جو میڈیا پر لگایا جانے والا پرانا اور عمومی الزام ہے۔ یہ کس حد تک ٹھیک ہے یا غلط اس کا فیصلہ میں پڑھنے والوں پر چھوڑتا ہوں تاہم یہ مبینہ بے حیائی ان ممالک میں بھی عام ہے جہاں کی ڈرامہ انڈسٹری اتنی فعال نہیں۔ کئی عرب ممالک اس کی ایک مثال ہیں۔

پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری میں ہر چند سال بعد ایک اور موضوع پر ڈرامہ ضرور بنتا ہے جو تقریباً ہمیشہ ہی کامیاب رہتا ہے۔ یہ موضوع ریاستی سیکیورٹی اداروں خصوصاً افواج پاکستان کے جوان اور ان کی زندگی ہے۔ آئی ایم ڈی بی پر پاکستانی ڈرامہ سیریز کی ریٹنگ کو اگر کامیاب ڈراموں کا پیمانہ مان لیا جائے تو ڈرامہ سیریز “دھواں” مقبول ترین ڈرامہ سیریز میں ٹاپ پر ہے۔ نوے کی دہائی کے بچے، آج کی پہلی اور دوسری عمر رسیدہ نسل اچھی طرح اس ڈرامے سے واقف ہیں۔ اس صنف میں بنیادی طور پر دفاعی اداروں سے تعلق رکھنے والے جوانوں کی تربیت، ان کی پیشہ ورانہ زندگی اور ان کے اہل خانہ کو پیش آنے والے مسائل کو سامنے لایا جاتا ہے۔ الفا براوو چارلی، سنہرے دن اور لاگ ایسے ہی دیگر ڈراموں میں شامل میں۔ آئی ایس پہ آر کی شراکت سے پیش کردہ ڈراموں میں الفا براوو چارلی، دھواں، سپاہی مقبول حسین، ولکو، خدا زمیں سے گیا نہیں وغیرہ شامل ہیں۔

حال ہی میں ہم ٹیلی وژن پر آئی ایس پی آر کی شراکت سے ایک نیا ڈرامہ “عہد وفا” لانچ ہوا ہے جو اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ میرے ذہن میں اس وقت الفا براوو چارلی کے بعد کوئی قابل ذکر ڈرامہ نہیں جو پاک فوج پر بنایا گیا ہو۔ الفا براوو چارلی ۱۹۹۸ میں قومی نشریاتی ادارے پی ٹی وی پر پیش کیا گیا۔ یہ پاکستان کی کامیاب ترین ڈرامہ سیریز میں سے ایک تھی۔

دفاعی موضوعات پر پڑوسی ملک بھی طبع آزمائی کرتا رہتا ہے تاہم جس تفصیل سے پاکستانی ڈرامے پی ایم اے کی ٹریننگ وہاں کہ رسم و رواج اور ہر کردار کی کہانی دکھایا کرتا ہے، بھارت اس کا عشر عشیر بھی نہیں دکھا پاتا۔ اس کی وجوہات کے بارے میں میں اپنی کم علمی کا اعتراف کرتا ہوں لیکن شاید ایک وجہ یہ ہے کہ بھارتی دفاعی ڈرامہ سیریز کردار سے زیادہ پاکستان کو منفی دکھانے پر توجہ دیتا ہے۔ ایک اور وجہ بھارت کی نسبت پاکستان میں فوج بلکہ یوں کہیے کہ فوجی جوان کی وہ امیج ہے جس سے جڑنا ایک زمانے تک عمومی طور پر باعث فخر سمجھا جاتا رہا۔ آج اس عمومی تاثر میں کسی حد تک بدلاؤ آچکا ہے تاہم پی ایم اے کاکول میں تربیت پانے والے جوانوں سے انسیت اب بھی قائم ہے۔ آگے چل کر اس پر مزید بات کرتے ہیں۔

ڈرامہ سیریز عہد وفا کے بارے میں سوشل میڈیا پر ملی جلی رائے ہے تاہم غالب اکثریت اس ڈرامے کے معیار سے زیادہ آئی ایس پی آر کے میڈیا میں ہاتھ ڈالنے پر ٹھٹھہ اڑا رہی ہے۔ اسے عوام کے ٹیکس کا ضیاع اور باجوہ صاحب کی جانب سے ففتھ جنریشن وار میں افواج پاکستان کا ایک قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ گو میں اس دلیل کو مکمل طور پر رد نہیں کر سکتا البتہ یہاں ہمیں دوہرے معیار پر بات ضرور کرنی پڑے گی۔ ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ کیا بین الاقوامی معیار کے مطابق ہم کچھ غلط کر رہے ہیں جو ناپسندیدہ ہے؟ ہمیں جاننا ہوگا کہ ماضی میں ایسی سیریز پر ہمارا ردعمل کیا رہا ہے۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس تنقید کی جڑیں کہاں ہیں۔

میں یہ بات اوپر بھی لکھ چکا ہوں کہ ڈراموں کی اس صنف پر عموماً کئی سالوں بعد کوئی کوشش ہوتی ہے۔ سنہرے دن ۱۹۹۱میں ریلیز ہوا، الفا براوو چارلی اور لاگ ۱۹۹۸ میں۔ ان میں لاگ خالصتاً افواج پاکستان سے متعلق نہیں بلکہ کشمیری جد و جہد اور کشمیری مجاہدین پر رؤف خالد مرحوم کی پیشکش تھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ڈرامے ناکام تھے؟ جواب ہے ہرگز نہیں۔ یہ سوال دور حاضر کے سیاسی کینوس کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائے تب بھی ہم دیکھتے ہیں کہ پرو اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ دونوں ہی طبقے ان ڈراموں کی مقبولیت سے انکار نہیں کر سکتے۔ پھر آج کے دور میں ایسے ڈرامے پر صرف پھبتیاں کسنا اور حوصلہ شکنی کرنا میرے نزدیک غلط ہے۔ ذاتی طور پر مجھے اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار سے نفرت ہے تاہم اتنی ہی محبت مجھے سرحد پر کھڑے جوان سے ہے جس کے باعث میرے گھر والے سکون کی نیند سو سکتے ہیں۔ آئی ایس پی آر کا اصل مقاصد افواج اور عوام کے درمیان تعلقات پختہ کرنا ہے۔ اس قسم کے ڈرامے یقیناً آئی ایس لی آر کے سکوپ میں آتے ہیں۔ یہ بات الگ ہے کہ “نوٹیفیکیشن از ریجیکٹڈ” قسم کے ڈرامے نہ آئی ایس پی آر پر جچتے ہیں اور نہ یہ ان کا کام ہے۔ دوسرے الفاظ میں افواج پاکستان سے محبت اپنی جگہ البتہ انہی افواج یا ان کے ذیلی اداروں کا اپنی حدود سے تجاوز ایک حقیقت ہے پھر بھی اس حقیقت کو بنیاد بنا کر ان کی جانب سے ایک مثبت اور آئینی کام کا مذاق اڑانا میری فہم سے باہر ہے۔ اگر آپ کو الفا براوو چارلی، دھواں وغیرہ اچھے لگے اور عہد وفا فوج کے سیاسی کردار سے عناد کے باعث برا لگا تو یہ میرے نزدیک دوہرا معیار ہے۔

حب الوطنی پر فلمیں اور ڈرامے بین الاقوامی سطح پر عام ہیں۔ ہمارے لیے عموماً قریب ترین مثال بھارت سے دی جاتی ہے۔ بھارت کا مسئلہ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا اپنے کرداروں میں جان ڈالنے کی بجائے پاکستانی کرداروں کی کڑواہٹ بڑھانا ہے۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ بھارت میں افواج کی تربیت پر فخر کم اور پاکستان سے نفرت اجاگر کرنے کا عنصر زیادہ ہے۔ وطن پرستی پر حال ہی میں کئی بھارتی ڈرامہ سریز سامنے آئی ہیں جن میں سیکرڈ گیمز، دی بارڈ آف بلڈ، فیملی مین وغیرہ شامل ہیں۔ حب الوطنی کے نام پر بھارت آپ کو پاکستان کی جانب سے جارحیت یا پاکستان میں کاروائیاں ہی بیچتا دکھائی دے گا۔ صرف فیملی مین میں کافی حد تک دفاعی اہلکار کی ذاتی زندگی پر روشنی ڈالتا نظر آئے گا۔

بھارت سے ہٹ کر دیکھیں تو اسرائیلی ڈرامہ سیریز Fauda (فوضٰی) ایک زبردست سیریز ہے جس میں فلسطین اسرائیل تنازعے کے تناظر میں دونوں جانب دفاعی عناصر اور ان سے جڑے خاندانوں کی زندگیوں پر مرتب ہونے والے اثرات دکھائے گئے ہیں۔ ایک اور قابل ذکر ڈرامہ ترک سیریز بورو یا ولف ہے جو ترک فوج میں اردوان گولن تقسیم کے تناظر میں بنائی گئی ہے۔ اسرائیلیوں کی نسبت ترکوں نے ڈرامے میں اپنا بابا نسبتاً اوپر رکھا ہے تاہم حب الوطنی کے تناظر میں یہ دونوں سیریز دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔

ان مثالوں کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حب الوطنی یا دفاعی اداروں سے متعلقہ ڈرامے دنیا بھر میں ایک نارم ہیں۔ ہم اپنے جذبات کو ایک جانب رکھ کر تجزیہ کریں تو آئی ایس پی آر نے کوئی انوکھا یا نیا کام نہیں کیا۔ پھر بھی تنقید جاری ہے۔ اس تنقید کی جڑیں کہاں ہیں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ آئی ایس پی آر فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو سنبھالتی ہے۔ آئی ایس پی آر کا اپنا چہرہ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر ہوا کرتا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی آواز فوج کی آواز کے طور پر دیکھی سنی ہے۔ ۱۹۴۹ سے قائم اس ادارے میں مشرف دور سے پہلے کے ڈی جی آئی ایس پی آر کا شاید عوام میں کسی کو نام بھی یاد نہ ہو۔ وجہ پرائیویٹ میڈیا کی اس انگڑائی میں چھپی ہے جس سے پہلے سرکاری ٹی وی پر “سب اچھا ہے” کی سرکاری گردان پیش کی جاتی تھی۔ مشرف کے چند بولڈ کاموں میں پرائیویٹ میڈیا کو چھوٹ دینا تھا، گو بعد ازاں اسی پرائیویٹ میڈیا نے مشرف کی رخصت میں اہم کردار ادا کیا۔ مشرف سرکار کی امیج بلڈنگ کے لیے آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنسز کا آغاز کیا اور یہاں سے مسئلے کا آغاز ہوا۔ آپ کچھ بھی کہہ لیجیے، آمر کے خلاف پرو جمہوری طبقہ ایک طاقت کی حیثیت اختیار کر کے رہتا ہے۔ آمر فوجی ہو تو فوج مخالف جذبات استوار ہوتے ہیں۔ مشرف دور میں یہی ہوا۔ چونکہ فوج کی آواز آئی ایس پی آر اور آئی ایس پی آر کی آواز ڈی جی آئی ایس پی آر ہوا کرتا ہے لہذا اس آواز کا خوش الحان ہونا انتہائی اہم ہے۔ مشرف سرکار کی رخصت کے بعد آئی ایس پی آر بھی موجود تھی، ڈی جی بھی، میڈیا بھی اور عوام بھی لیکن فوج کے سیاسی کردار کے خلاف سوشل میڈیا پر ردعمل مشرف اور میاں صاحب کے تیسرے ادوار کے درمیان نہ ہونے کے برابر تھا۔ مِسنگ پرسنز پر ایک نحیف سا ردعمل دیکھنے کو ضرور ملتا مگر اس درجے کا ہرگز نہیں جو مشرف دور میں تھا اور جو آج مزید شدت اختیار کر چکا ہے۔ افواج پاکستان کے جوان ہمارا فخر ہیں اور قومی حمیت کا اہم جزو۔ لیکن جب انہی افواج کی آواز سیاسی جانبداری یا مخالفت کے لیے اٹھتی ہے تو ردعمل میں منفی جذبات سامنے آتے ہیں جن کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ مثبت کام بھی صفر سے ضرب دے دیے جاتے ہیں۔ عہد وفا پر اٹھتے ٹھٹھے اسی منفی جذبات کی ایک مثال ہے۔ آئی ایس پی آر کو اپنے طرزعمل پر سنجیدگی سے نظر ثانی کرنی ہوگی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بات لمبی ہوگئی جس کے لیے معذرت قبول فرمائیے۔ لب لباب یہ کہ اگر آپ ڈرامے کو اس کی کہانی، اداکاری یا ڈائیلاگ وغیرہ پر اعتراض ہے یا پسند نہیں آئے تو یہ جائز تنقید ہے تاہم صرف اس وجہ سے ناپسندیدگی کا اظہار کہ آئی ایس پی آر نے ایسا کیوں کیا کلی طور پر ناجائز تنقید کے زمرے میں آتا ہے۔ دوسری جانب آئی ایس پی آر اور دیگر فوجی اداروں کو بھی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھنا ہوگا اور اس کے سدباب کے لیے بلاگرز یا سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کو غائب کرنے کی بجائی اپنی پالیسی میں جائز تبدیلیاں کرنی ہوں گی تاکہ افواجِ پاکستان کو عوامی تائید و پذیرائی اور مقبولیت حاصل رہے۔ ریاست کے لیے یہی فائدے میں ہے۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply