• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • امریکہ کے زوال پذیر ہونے کی وجوہات۔۔۔۔محمد کاظم انبارلوئی

امریکہ کے زوال پذیر ہونے کی وجوہات۔۔۔۔محمد کاظم انبارلوئی

اس سوال کا جواب ہمارے لئے بہت زیادہ اہم ہے کہ امریکہ زوال کی جانب گامزن کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ امریکہ کی طاقت کن بنیادی ارکان پر استوار ہے۔ ایک سپر پاور ہونے کے ناطے امریکہ کی طاقت چار بنیادی ستونوں پر استوار تھی:
1)۔ اخلاقی اور نظریاتی رکن، 2)۔ خود کو اور اپنے اتحادیوں کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت، 3)۔ اتحاد سازی اور حریف سے مقابلے کیلئے دیگر ممالک کی طاقت استعمال کرنے کی صلاحیت، اور 4)۔ حریف کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت۔

پہلا رکن
امریکہ خاص طور پر گذشتہ نصف صدی کے دوران خود کو دنیا میں “جمہوریت” اور “آزادی” کا علمبردار قرار دیتا آیا ہے۔ امریکی حکام ان دو نعروں کی بنیاد پر اپنے ملک اور دنیا بھر میں انسانی حقوق کے دعویدار بنتے آئے ہیں۔ امریکی صدور ایک اخلاقی میک اپ کے ذریعے خود کو اخلاقی اقدار کا حامی ظاہر کرتے آئے ہیں لیکن آج یہ میک اپ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ آج وائٹ ہاوس میں ایسا شخص برسراقتدار آ چکا ہے جس نے اخلاق، مذہب، انسانیت، آزادی اور قوانین کی پابندی جیسی اقدار کو مکمل طور پر ٹھکرانا شروع کر دیا ہے۔ مغرب اور امریکہ کے سیاسی فلاسفہ اخلاق، سیاست، بنیادی قانون، بین الاقوامی قوانین وغیرہ جیسے موضوعات کے بارے میں اظہار خیال کرنے سے عاجز ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ لبرل ازم تاریخ کا اختتام ہے اور اس کے بعد انسان کی نجات اور فلاح و بہبود کیلئے کوئی اور نظریہ پیش نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن آج وہ انتہائی سوگوارانہ انداز میں اپنے گھسے پٹے نظریات سے چپکے ہوئے ہیں اور انسان کو دینے کیلئے ان کے پاس کچھ نہیں۔

وہ اسلامی دنیا کی جانب سے اسلامی تہذیب و تمدن کے احیا کیلئے اٹھ کھڑے ہونے اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی سربراہی میں اسلامی انقلاب رونما ہونے اور ان کے بعد امام خامنہ ای کی قیادت میں اس انقلاب کے تسلسل کے بعد موجودہ زمانے سے متعلق اہم سوالات کا جواب دینے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ امریکی حکام ایسے زمانے میں زندگی بسر کر رہے ہیں جس میں وہ نامحدود سوالات خاص طور پر آزادی کے بارے میں سوالات میں دفن ہو چکے ہیں۔ ایران کے خلاف نرم جنگ میں مسلسل ناکامیوں کے بعد ان کی برداشت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ان کی جانب سے فیس بک، ٹویٹر، اینسٹاگرام جیسے سوشل میڈیا پر ایسے سینکڑوں اکاونٹس جن میں سے بعض 25 ملین فالورز کے حامل تھے، جام کئے جانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ آزادی اظہار اور معلومات کی آزاد منتقلی امریکی حکام کو شدید رنج پہنچاتی ہے۔

دوسرا رکن
آج امریکی عوام پر ایسی حکومت برسراقتدار ہے جو ملکی تاریخ کی مقروض ترین حکومت ہے۔ دوسری طرف امریکہ کا بنیادی اہمیت کا حامل انفرااسٹرکچر ہر پہلو سے تعمیر نو کا محتاج ہے۔ اب جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ ٹیکسز کی جنگ کے ذریعے اپنے ہی اتحادیوں اور دوستوں کی جیب کاٹنے میں مصروف ہے معلوم ہوتا ہے کہ وہ امریکہ کی تعمیر نو کیلئے بجٹ کی شدید کمی سے روبرو ہے۔ لیکن یہ کمی قرض اور بھتہ وصول کر کے پوری نہیں کی جا سکتی۔ لہذا اسے اپنے اخراجات خاص طور پر دنیا کے مختلف حصوں میں فوجی جارحیت پر ہونے والے اخراجات کم کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکی حکام آج اپنے طرز حکومت کے بارے میں ایسے بے شمار سوالات سے روبرو ہو چکے ہیں جن کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں۔ لہذا وہ تمام عالمی معاہدوں سے دستبردار ہو جانے میں ہی اپنی عافیت جانتے ہیں۔ امریکہ کا مرکز شماریات اس بارے میں کہتا ہے: “48 فیصد امریکی عوام بھوکی ہے اور غربت کی لائن سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔” یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ہی اتحادیوں سے لوٹ مار کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ امریکہ آج نہ تو اپنی مشکلات حل کرنے کے قابل ہے اور نہ ہی اپنے اتحادیوں کو درپیش مشکلات پر قابو پا سکتا ہے۔

تیسرا رکن
امریکہ کی اتحاد سازی کی طاقت اور صلاحیت میں شدید زوال آیا ہے۔ سابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ایران سے جوہری معاہدے کے بعد کانگریس میں رپورٹ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب ہمارے اتحادی ہمارا ساتھ دینے پر تیار نہیں اور ہمارا اتحاد ٹوٹ چکا ہے اور ہم ان کے ساتھ مزید آگے نہیں بڑھ سکتے۔ امریکہ ماضی میں افغانستان، عراق اور شام پر حملہ ور ہونے کیلئے چند گھنٹوں میں نیٹو فورسز کو اکٹھا کر لیتا تھا لیکن آج صورتحال بہت مختلف ہو چکی ہے۔ آج وہ خود بھاری اخراجات کے ساتھ اپنی فوج استعمال کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے شام اور افغانستان سے فرار کو ترجیح دیتے ہوئے فوجی انخلا کا فیصلہ کر لیا ہے۔

چوتھا رکن
امریکہ اپنے حریف ممالک پر قابو پانی کی طاقت بھی کھو چکا ہے۔ اس بات کا واضح ثبوت گذشتہ چالیس برس کے دوران ایران کی جانب سے امریکہ کی مختلف سازشوں اور شیطنت آمیز اقدامات کے خلاف کامیاب مزاحمت ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں ایرانی حکومت اور قوم کے خلاف ایک گیدڑ بھبکی لگائی جس کا جواب جنرل سلیمانی نے اسے دے دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ جنرل سلیمانی کا جواب نہ دے سکا۔ پینٹاگون کا کوئی جنرل بھی ان کا جواب دینے میں کامیاب نہ ہوا۔ اس خاموشی کا راز ایران اور خطے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کی طاقت میں مضمر ہے۔ امریکی حکام اس حقیقت کو قبول کر چکے ہیں کہ ایران کی طاقت کنٹرول نہیں کی جا سکتی۔ اسی وجہ سے امریکہ نے اب تک ایران سے فوجی ٹکر لینے سے گریز کیا ہے اور ثقافت، اقتصاد اور سیاست کے میدانوں میں نرم جنگ کو ترجیح دی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ  https://www.islamtimes.org

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply