• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • فیصل واڈا کی نا اہلی-تصویر کا تیسرا رخ۔۔آصف محمود

فیصل واڈا کی نا اہلی-تصویر کا تیسرا رخ۔۔آصف محمود

فیصل واڈا نا اہل قرار دیے جا چکے۔ان کی نا اہلی جانے ، فیصل واڈا جانیں ،میرا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ بطور ایک شہری میرا سوال صرف اتنا ہے کہ جس منصب کا کل دورانیہ صرف پانچ سال ہو اس منصب کی اہلیت اور نا اہلیت کا فیصلہ کرنے کے لیے ہمارے نظام قانون کو آ خر کتنے نوری سال درکار ہوتے ہیں؟ فیصل واڈا جس جھوٹے بیان حلفی کی بنیاد پر نااہل قرار پائے ہیں وہ آج یا کل کی بات نہیں ، 2018 کا قصہ ہے۔ لیکن اس کا فیصلہ 2022 ء میں آ رہا ہے اور ابھی بھی یہ حتمی فیصلہ نہیں ہے۔اس فیصلے کے حتمی ہونے تک ، معلوم نہیں کتنی برساتیں مزید گزریں گی۔پھر جا کر پتا چلے گا کہ زلف کے سر ہونے تک کون زندہ رہا اور کون انتخابی اصلاحات کی خواہش سینے میں لیے رزقِ خاک ہو گیا۔ فیصل واڈا 2018 ء میں قومی اسمبلی کے رکن بنے۔ ان کے مخالفین نے ان پر یہ الزام لگایا کہ جس وقت انہوں نے قومی اسمبلی کے انتخاب کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے اس وقت وہ دہری شہریت کے حامل تھے اور ان کے پاس امریکی شہریت تھی۔جب کہ اپنے بیان حلفی میں انہوں نے لکھا کہ وہ کسی دوسرے ملک کے شہری نہیں ہیں۔لہذا اس جھوٹے بیان حلفی پر انہیں آئین کے آرٹیکل باسٹھ کے تحت نا اہل قرار دیا جائے۔بس اتنی سی بات تھی جس کا تعین کرتے کرتے 2018ء سے 2022ء آ گیا۔ ایک شخص قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑتا ہے۔ اس مرحلے پر اس کی اہلیت چیلنج ہوتی ہے تو کیا یہ انصاف ہے کہ اس کی اہلیت کا نا اہلی کا فیصلہ کرنے میں چار چار سال لگا دیے جائیں ۔ ایک بیان حلفی تھا اور ایک امر واقعہ تھا کہ کیا واڈا صاحب اس وقت امریکی شہری تھے یا نہیں اور کیا انہوںنے جھوٹا بیان حلفی دیا یا نہیں۔ یہ معاملہ قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس سے پہلے نہیں تو اس اسمبلی کی پہلی سہہ ماہی میں ضرور نبٹایا جا سکتا تھا لیکن یہاں ہمارا کمال دیکھیے کہ قریب چار سال بعد فیصلہ بھائی جان تشریف لائے ہیں۔ اس دوران کیا سے کیا نہیں ہوا۔ کبھی معاملہ یہاں ، کبھی وہاں ، کبھی الیکشن کمیشن میں ، کبھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں۔ جب بچنے کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو صاحب نے قومی اسمبلی سے استعفی دے دیا ااور سینیٹ کا الیکشن لڑ کر سینیٹر بن گئے۔ ان کی خالی کردہ سیٹ پر نیا الیکشن ہو گیا۔ اس ملک کے قانون نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ قبلہ ایسی کیا مصیبت آن پڑی ہے کہ ایک ایوان سے دوسرے ایوان میں جا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن بھی مزے سے دہی کے ساتھ کلچہ کھاتا رہا کہ ایک انوکھے لاڈلے کے شوق کی خاطر اگر کراچی میں نئے سرے سے قومی اسمبلی کا الیکشن کرانا پڑ رہا ہے تو کون سے اس کے پلے سے پیسے لگ رہے ہیں۔ غریب اور بے زبان قوم کی رگوں سے نکالے گئے ٹیکس کا پیسہ ہی تو ہے۔ لگتا ہے تو لگتا رہے۔ تحریک انصاف میں سے بھی کسی نے قیادت سے یہ سوال نہ پوچھا کہ فیصل واڈا صاحب اتنے ناگزیر کیوں ہو گئے کہ قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ رہے ہیں تو سینیٹ کا ٹکٹ تھما دیا گیا ہے۔پارٹی قیادت نے بھی ان سے یہ عرض کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی جناب آپ قومی اسمبلی کے ممبر ہیں ، اپنا مقدمہ لڑیں اور بے گناہی ثابت کریں ورنہ گھر جائیں۔ آزاد میڈیا کے پاس بھی یہ سوال اٹھانے کی فرصت نہ تھی کہ یہ جو بلاوجہ ضمنی الیکشن ہو رہا ہے اس کا خرچہ تحریک انصاف دے گی یا واڈا صاحب ۔ آزاد میڈیا سارا دن خصوصی ٹرانسمیشن کے کھلونے سے کھیلتا رہا اور شام کو سب نے ’ سب سے پہلے‘ نتائج سے اس قوم کو آگاہ فرما کر خود کو سرخرو بھی فرما لیا۔ پاکستان میں انتخابی قوانین محض اقوال ز ریں کا ایک مجموعہ ہیں۔ کتابوں میں لکھے ہیں ۔ پریم پتر کی طرح انہیں فروری کی دھوپ میں کہیں بیٹھ کر پڑھتے رہیے اور خوش ہوتے رہیے۔آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ میں درج اہلیت اور نا اہلی کا پیمانہ وہ ہے جس کو بنانے والوں کو بھی معلوم نہیں وہ کہنا کیا چاہتے ہیں۔ایسی ایسی اصطلاحات قانون قرار پائی ہیں کہ نافذ نہ کرنی ہوں تو سب کے لیے امان ہے اور نافذ کرنے پر من مچل جائے تو کسی کے لیے کہیں کوئی امان نہیں۔ بھارت کا الیکشن کمیشن انتہائی طاقتور ہے۔ یہاں تک کہ وہاں الیکشن کے لیے کسی عبوری حکومت کی بھی ضرورت نہیں پڑتی نہ ہی کسی کو عبوری وزیر اعظم بنا کر اس کا رانجھا راضی کیا جاتا ہے۔الیکشن کمیشن خود ہی الیکشن کراتا ہے اور اس کے نتیجے میں انتقال اقتدار ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں الیکشن کمیشن کی سنتا ہی کوئی نہیں۔ وہ وزراء کو نوٹس بھیجتا رہتا ہے کہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نہ کریں اور وزراء اس نوٹس کو پڑھے بغیر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں۔ کبھی کبھار کہیں الیکشن کمیشن ایک فیصلہ دے ہی دیتا ہے تو پارٹی جا کر سٹے لے آتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ ان کا قانونی حق ہے۔ اس سے مگر سمجھنے والی بات یہ ہے کہ قانون میں اصلاحات ضروری ہو چکی ہیں۔ یا تو الیکشن کمیشن کا فیصلہ حتمی قرار دے دیا جائے یا اس کے فیصلے کے خلاف اپیل کا دائرہ کار محدود کر کے صرف سپریم کورٹ میں اپیل کی گنجائش دی جائے اور وہاں بھی سٹے کی بجائے میرٹ پر جلد از جلد فیصلہ ہو۔ ابھی چند روز پہلے بھارتی سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہو گی۔ہمیںفیصلہ کر نا ہو گا، پاکستان میں انتخابی اصلاحات کرنی ہیں یا نہیں۔ اب اس کیس میں الیکشن کمیشن نے فیصل واڈا کو قومی اسمبلی کے الیکشن کے وقت جمع کرائے جھوٹے حلف نامے کی بنیاد پر سینیٹ سے بھی نا اہل قرار دے دیا ہے۔ اب اس سے ایک منطقی سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس حلف نامے کا اثر سینیٹ میں بھی پڑ رہا ہے تو اس حلف نامے کے جعلی یا حقیقی ہونے کا تعین کرنے سے پہلے انہیں سینیٹ کا الیکشن لڑنے ہی کیوں دیا گیا۔ آپ چاہیں تو اس سوال کویوں پڑھ لیں کہ اس کیس کا فیصلہ فیصل واڈا کے سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے سے پہلے کیوں نہیں کر لیا گیا؟ جب فیصلوں میں اتنی تاخیر ہوتی ہے تو پھر اہل صحافت اور تجزیہ کار اسے بدلتے موسم کی بدلتی ہوائوں سے تعبیر کرتے ہیں۔وہ اسے معمول کی قانونی کارروائی کے طور پر لینے کی بجائے اس میں سے بادوباراں کے امکانات تلاش کرتے ہیں۔ قانون کے اطلاق کے باب میں یہ رویہ اور یہ بدگمانی کسی المیے سے کم نہیں۔ اور اس سے بڑا المیہ ہے کہ یہ رویہ بے سبب بھی نہیں۔یہ مشاہدے کی بات ہے۔ کاش کسی کے پاس وقت ہو اور کوئی غور کر سکے۔فیصل واڈا تو اب تک کی ساری مراعات اورتنخواہیں واپس کریں گے،سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن سے بھی کوئی اس تاخیر پر ازرہ مروت ایک آدھ ماہ کی مراعات اور تنخواہ واپس کر دے گا ؟

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply