• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ابوالکلام ، سید مودودی اور ڈاکٹر اسرار احمد/محمد اسد شاہ

ابوالکلام ، سید مودودی اور ڈاکٹر اسرار احمد/محمد اسد شاہ

شخصیت پرستی کا اہلیان برصغیر کے ساتھ شاید خصوصی تعلق ہے ۔ بھارت ، پاکستان ، بنگلہ دیش ، بل کہ سری لنکا تک میں لوگ شخصیات کے سحر میں یوں مبتلا ہوئے کہ ساحر بھی نسل در نسل چلتے ہیں ، اور مسحور بھی ۔

یورپ اور دیگر خطوں میں بھی اس مرض کے جراثیم پائے جاتے ہیں ۔ کم فہمی یا شعور و ادراک کی کوتاہی ایسی کہ بعض لوگ جس شخص کے دام محبت میں ایک بار گرفتار ہو جائیں ، اس کی غلطیوں کو بھی غلط تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں ۔ یوں تو یہ چکر صدیوں یا شاید ہزاریوں سے ہی چل رہا ہے ، لیکن عصر حاضر میں سوشل میڈیا نامی بلا نے اس خرابی کو سجا سنوار کر بہت پرکشش بنا دیا ہے ۔ ہم نے خود اپنے ہی وطن میں اچھے خاصے تعلیم یافتہ لوگوں کو ، خاص طور پر گزشتہ چند سالوں میں اس ذہنی و نفسیاتی مرض میں اس بری طرح مبتلا ہوتے دیکھا ہے کہ وہ تمام عقل و خرد کا ستیاناس کر بیٹھے ۔ یہ لوگ ایک ساحر عیار کے منتر اس انہماک سے سنتے ہیں کہ جیسے موتی جھڑتے دیکھ رہے ہوں ۔ حال آں کہ دل کے نہاں خانوں میں ، کسی نہ کسی درجے میں وہ اچھی طرح جانتے بھی ہیں کہ سامنے والا شخص جھوٹ بول رہا اور دغا دے رہا ہے ۔ حقیقت تو اللّہ ہی کو معلوم ہے ، البتہ ایک غیر ملکی صحافی خاتون نے لکھا تھا اگر ساحر کا خانہ بھی کسی ساحرہ کے دم سے آباد ہو ، تو اس کا سحر سر چڑھ کے کیوں نہ بولے گا ۔ مان لیجیے صاحبو ! کوئی نہ کوئی جادو تو ہے ۔

ایک بھارتی شاعرہ نے شاید ایسے ہی کسی سامری کے متعلق لکھا ہے؛
سنہرے خواب دکھانے میں خوب ماہر ہے ؛
وہ بے وقوف بنانے میں خوب ماہر ہے !
وطن چلانا تو اس آدمی کے بس میں نہیں؛
مگر زبان چلانے میں خوب ماہر ہے !
معروف مجاہد شاعر لالہ صحرائی مرحوم نے تو زیادہ وضاحت سے لکھا؛
اگائے ظلم کے ببول
اڑائے نفرتوں کی دھول
وہ توڑے سارے ضابطے
تباہ کرے سبھی اصول
مشن ہے اس کا لوٹ مار
اور اقتدار کا حصول !

سوشل میڈیا کو “شخصیت پرستی” کے لیے مذکورہ جادوگر نے بہت زیادہ استعمال کیا اور اسے باقاعدہ ایک فن اور کاروبار بنا لیا ۔ اس میں “فارن فنڈنگ” تک شامل کی گئی ۔ ماہر اور محنتی نوجوانوں کو جھوٹ ، دغا بازی ، کٹ حجتی، جعلی تصاویر بنانے، اصل تصاویر کو بگاڑ کر کچھ سے کچھ بنا دینے ، لاکھوں کی تعداد میں جعلی اکاؤنٹس بنانے اور چلانے ، حتیٰ کہ جعلی وڈیوز تک بنانے کی تربیت دی جاتی ہے ، اور پھر اس کارکردگی کے لیے بھاری تنخواہیں دی جاتی ہیں ۔ جب کہ ہمارے دین نے تو ہمیں بتایا کہ جھوٹ سب برائیوں کی جڑ ہے ۔ اور ہم نے دیکھا کہ ایک شخص ، جس کی ساری جادوگری جھوٹ پہ قائم ہے ، اس نے جھوٹ کو کتنا بڑا کاروبار بنا لیا اور پھر پورے معاشرے اور ملک بھر کی اخلاقیات ، سیاسیات ، معاشیات ، سفارت کاری ، حتیٰ کہ داخلی و خارجی محاذوں تک کو برباد کر کے رکھ دیا ۔ اس کے دیوانوں کی تربیت ایسی ہے کہ اگر ان سے پوچھا جائے کہ بھائی کھانا کھا لیا کیا؟ تو جواب میں ہاں یا نہ کہنے کی بجائے الٹا سوال داغ دیں گے کہ کیا فلاں نے کھایا؟ اب ایسے دماغی مریضوں سے پورے ملک کا واسطہ پڑ چکا ہے ۔

سوشل میڈیا کے بدترین نقصانات میں سے یہ بھی ایک ہے کہ اس نے شخصیت پرستی جیسی بدی کو معاشرے کا ضروری حصہ بنا دیا ہے ۔ گزشتہ روز فیس بک پر کسی نے ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم پر یہ اعتراض اٹھایا کہ وہ کسی معاملے میں تو حضرت ابوالکلام آزاد کی تعریف کرتے تھے اور کسی دوسرے معاملے میں ان پر تنقید ، کسی ایک معاملے پر سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تعریف کرتے تھے تو کسی دوسرے معاملے میں ان پر تنقید کرتے تھے ۔ کہنے والے نے ڈھکے چھپے الفاظ میں اس رویئے کو منافقت سے ملانے کی کوشش کی ۔ اس کا مقصد یا ذہن شاید یہی تھا کہ یا تو ہر معاملے میں ابوالکلام آزاد اور سید مودودی کی تعریف ہی کرتے رہیں یا مخالفت برائے مخالفت !

میں نے اس پر لکھا؛ “میری ذاتی رائے ہے کہ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم بنیادی طور پر امت مسلمہ کے لیے درد دل رکھنے والے مخلص مفکر تھے ۔ وہ صاحب مطالعہ و صاحب قلم تھے ۔ ان کا یہ انداز تھا کہ کسی شخصیت کی کوئی بات اچھی لگی تو تعریف کر دی ، اور اگر اسی شخصیت کی کوئی دوسری بات پسند نہ آئی تو تنقید کر دی ۔ یہ عین فطری اور اچھی بات ہے ۔

انبیاء کرام علیھم السلام پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ایمان رکھنا ، اور تمام صحابہ کرام رضوان اللّہ علیھم اجمعین کو معیار حق ماننا اور دل سے احترام کرنا لازم ہے ۔ البتہ بعد کی شخصیات کے معاملے میں کسی ایک ہی رائے پر منجمد ہو جانا کوئی فرض تو نہیں ۔ ایسا ممکن ہے کہ ، مثلاً ہمیں کسی معاملے میں علامہ محمد اقبال کی رائے پسند ہو ، اور کسی دوسرے معاملے میں ان کے موقف سے ہم متفق نہ ہوں ۔ اس پر کسی کو متشدد ہونا نہیں چاہیے ۔ ہر صاحبِ مطالعہ و فکر کو اپنی دیانت دارانہ رائے رکھنے ، اور مہذب انداز میں اس کا اظہار کرنے کا حق حاصل ہے ، اور اس حق کا احترام بھی ہم سب پر لازم ہے۔”

ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کو اللّٰہ کریم نے بہت خوبیوں سے نوازا ۔ وہ ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ایک عظیم مفکر ، مقرر اور مصنف بھی تھے ۔ وہ قرآن کریم اور کتب احادیث کا بہت مطالعہ کرنے اور ان میں غور و فکر کرنے والے تھے ۔ دکھاوے اور نمائش کے شائق نہیں تھے ۔ انھوں نے مختصر وقت میں دین کے لیے بہت کام کیا ۔ سیاست کے حوالے سے ان کی اپنی ایک سوچی سمجھی رائے تھی جس سے ہم اور آپ اختلاف بھی کر سکتے ہیں ۔

میں نے کالج اور یونیورسٹی کے ایام میں ڈاکٹر صاحب کی بعض تقاریر سامنے بیٹھ کے بھی سنیں ، اور پھر ان کی کتب کا مطالعہ تو اب تک جاری ہے ۔ خلافت کے احیاء کے لیے بھی انھوں نے علمی سطح پر محنت کی اور کتب بھی لکھیں ۔ اس سلسلے میں جو تفصیلات ان کی کتب میں موجود ہیں ، ان کے بعض اجزاء سے میں خود متفق نہیں ہوں ، یا شاید یہ میری کم فہمی ہو ۔ سو فی صد متفق یا مختلف ہونا لازمی تو نہیں ۔ ایم فل کے دوران میری خواہش تھی کہ میں اس پر تحقیق کروں اور مقالہ بھی اسی حوالے سے لکھنے کی خواہش کا تحریری اظہار کیا لیکن ہمارے اساتذہ کرام نے اس کی اجازت نہ دی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسی طرح میں سید ابوالاعلیٰ مودوی اور ابوالکلام آزاد جیسے مفکرین کی تحریروں اور خیالات کے حوالے سے بہت پسندیدگی رکھتا ہوں ، لیکن بعض مقامات پر میں اپنی مختلف سوچ بھی رکھتا ہوں ۔ مثلاً مودودی صاحب نے “خلافت و ملوکیت” میں جو کچھ لکھا ، اس پر میرے بہت سے تحفظات ہیں اور میں سوچتا ہوں کہ اگر وہ یہ کتاب نہ لکھتے تو بہتر تھا ۔ سکول و کالج کے ایام میں ” سرکاری مطالعہ پاکستان” کے زیر اثر میں ابوالکلام آزاد کے حوالے سے ناپسندیدگی رکھتا تھا ۔ لیکن یونیورسٹی کے ایام میں مطالعے میں وسعت اور تحقیق کی عادت سے خیالات کو تبدیلی اور گہرائی ملی ۔ چناں چہ میں سمجھتا ہوں کہ بعض مقامات پر ذاتی اختلاف رائے کے باوجود ہمیں ابوالکلام آزاد، سید ابوالاعلیٰ مودودی اور ڈاکٹر اسرار احمد جیسے مفکرین کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہنا چاہیے کہ ان ہستیوں کو اللّہ کریم نے بہت صلاحیتوں سے نوازا اور یہ توفیق بھی بخشی کہ وہ ان صلاحیتوں کو امت مسلمہ کی فلاح و راہ نمائی کے لیے استعمال کریں ۔

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply