ڈاکٹرسہیل کی سوانح حیات/تبصرہ:صادقہ نصیر

ڈاکٹرسہیل ایک ایسی قد آور شخصیت ہیں جن کی کسی تحریر ’ کتاب یا تخلیق پر اپنی رائے کا اظہار کرنا اسی طرح مہماتی کرشمہ ہے جس طرح ان کی تحریریں، کتب، اور دیگر تخلیقات بذات خود تخلیقی مہماتی کرشمے ہیں۔ اسی طرح ان کے منفرد انداز تحریر پر رائے لکھنا بھی ایک انوکھا تجرباتی اور تخلیقی معرکہ ہے جس کا احساس مجھے ان کی سوانح عمری۔ ۔دی سیکر(The Seekers)  پر تبصرہ لکھنےکے شرف سے حاصل ہوا۔

کتاب پڑھنے سے خیال یہ پیدا ہوا کہ اگر ڈاکٹر سہیل کو اپنی سوانح حیات کو اتنے انوکھے انداز سے لکھنے کا حق حاصل ہے اور وہ اپنی انوکھی تخلیقی پیدائش کے ذریعہ کسی بھی قاری کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتے ہیں تو اس منفرد کتاب کے پڑھنے والے کو بھی حق ہےکہ وہ انوکھے انداز سے تبصرہ کر سکے۔

‘دی سیکر’ اگرچہ بہت آسان اور رواں انداز میں انگریزی زبان میں لکھی گئی ہے لیکن میں نے اردو زبان میں اس پر رائے دینے کو ترجیح دی ہے۔

میں خود عرصۂ دراز سےاس طرح کی کتاب اور اس کتاب میں انوکھے انداز سے پیش کئے جانے والے علوم کے سمندر کی تلاش میں تھی۔ میرے اپنے تجربات، مشاہدات اور علم کی کمی سےمجھے وہ اعتماد نہیں مل رہا تھا جو مجھے ڈاکٹر سہیل کی زندگی کے اس عظیم الشان کیلنڈرسے ملا جو معجزاتی طور پر میری جھولی میں آ گرا۔

کتاب کاناظرہ مکمل کیا تو بےاختیار منہ سے نکلا کہ اس کتاب کا مصنف کوئی جن ہےجس نے صرف 147 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں اپنی ہی نہیں بلکہ تمام متلاشیوں خاص طور پرسچ کےمتلاشی،علم و حکمت کےمتلاشی، آگہی کا ذوق رکھنے والے اور سب سےبڑھ کرانسان اور انسانیت کا کھوج لگانے والے تمام لوگوں کےاجتماعی قصۂ تلاش کو پرکیف اور انوکھے انداز میں بیان کرکے کوزے میں دریا کو بند نہیں کیا بلکہ اس دریا کے بہنے اور متلاشیوں کے سیراب ہونے کے راستوں کو مزید وا کر دیا ہے۔

مصنّفہ:صادقہ نصیر

اور کون ہے جو اس کتاب کوایک بار پڑھ کرشیلف میں ہمیشہ کے لئےسجا کر رکھ دے۔ اور علم و فکر اور تخلیق کے گہرے پانیوں میں کئی بار غوطہ زنی پرآمادہ نہ ہو۔

اس کتاب کے مصنف ڈاکٹرسہیل یا تو خود ایک “جن” ہیں یا کوئی جن ان کے تابع اور دسترس میں ہے جس کی طاقت نے ڈاکٹرسہیل کو بیک وقت معالج، محقق، ماہرنفسیات، ادیب، شاعر اور تخلیق کار بنا دیا۔ اور اسی جن نے ان کےایک اشارے پر علم، عرفان، نفسیات، فلسفہ، ادب اور تخلیق کے پہاڑوں کو  ان کے سامنے جھک کران کی ہتھیلی پر رکھ دیا اور ڈاکٹر سہیل نے بڑی فراخ دلی سے اس کو دوسرے متلاشیوں کو کتاب کی صورت میں تھما دیا یعنی فکر کے پہاڑ کو متعارف کرایا جس کوہر متلاشی سر کرنا چاہے گا۔

سوانح عمری لکھنےکا یہ انداز اتنا منفرد اور انوکھا ہے جو میری نظر سےپہلے کبھی نہیں گزرا۔

اس کو پڑھتے ہوئے یوں خیال گزرتا ہےکہ یہ مصنف اپنی ذات کی سچائی اور آگہی کی تلاش میں اس طرح نکلتا، چلتا اور مہمات کرتاہے جیسے دیومالائی کہانیوں کا شہزادہ اپنی اس شہزادی کی تلاش میں نکلتا ہےجسے کوئی دیو اٹھا کر لے جاتا ہے اور کسی طلسماتی محل میں قید کر لیتا ہے۔ اور پھرشہزادہ اپنی شہزادی کو دیوکی قید سے چھڑانے کے لئے میلوں کی مسافت کے بعد اس طلسماتی محل میں پہنچتا ہے جہاں شہزادی قید ہے۔شہزادہ پنجرے میں بند اس طوطے کی گردن دباتا ہے اور دیو کو مار کرشہزادی کو آزاد کروا لیتا ہے اور شادی کرکےہمیشہ کے لئےہنسی خوشی رہنے لگتا ہے۔

مصنف کے اس قصۂ عشق میں شہزادی مصنف کی منظور نظر”سچائی” ہے، دیو روایات کی سر زمین یعنی لینڈ أف ٹریڈیشن اور طلسماتی محل أزاد زمین یعنی لینڈ أف فریڈم ہے

مصنف کی یہ سوانح حیات نثر میں ہےلیکن تاثیرمیں “غزل” ہے جس کو بڑے دلربا انداز سے لکھا گیا ہے۔ آج تک کسی بھی سوانح عمری میں غزلیہ دلربائی نہیں دیکھی گئی۔ ڈاکٹرخالد سہیل کی یہ سوانحی تحریر رومانوی غزل کا پرتُو لئے ہوئے ہے جس میں منفرد اصطلاحات کواشارے کنائے میں چھپتے چھپاتے بغیرکسی حقیقی نام، کردار اور حوالے کے واقعات اور تجربات کے ساتھ نظریات کوبیان کیا گیا ہے۔ مصنف نےمحبوب، عشق اور رقیب کا ذکر بھی اشاروں کنایوں میں کیا ہےگرچہ ہرچیزبڑی ادا کےساتھ جلوہ گربھی نظر آتی ہے۔

علمی لحاظ سے یہ کتاب بہت مشکل مضامین کو چھیڑتی ہے لیکن نہایت اختصار کےساتھ کہ جس کی وجہ سےقاری کی علمی تشنگی بڑھتی اور گھٹتی ہےلیکن خضر کی صورت میں مصنف حقیقی رہنما کا کردار ادا کرتا نظر آتاہے۔ وہ جب روایات کی سر زمین سےنکل طلسماتی محل یعنی أزادی کی سر زمین پر پہنچتا ہے تو سیربین نظر آنےکےساتھ رہنما بھی بنتا ہوا نظر آتا ہے۔وہ اپنے قاری کی انگلی تھام کرعلم اور سچائی کی تلاش میں طلسماتی محل کے ہر دروازے کو اپنے ہاتھوں سے خود کھول کر محل کےحصوں کی سیر کراتا ہے اور اگلا دروازہ کھلنے سے پہلے بتا دیتا ہےکہ کیسےکھولناہے اور وہاں کیا ہوگا اور یوں خضر آسانیاں پیدا کرتا ہے درحقیقت انسانوں کے لیے  آسانیاں انسان دوست ہی پیدا کرتے ہیں اس طرح سچائی کے متلاشی انسان علم آگہی اور سچائی کے متلاشی لوگ متوحش نہیں ہونے پاتے بلکہ سرشاری کی کیفیت سے گزرتے ہوئے تلاش کے برزخ سےأسانی سےگزرتے جاتےہیں۔ یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ خضر سچائی اور علم کےمتلاشیوں کےسامنےسچائی اور علم کے طشت کو رکھنے والا جن ہے۔ یہ جن دراصل مصنف کے اندر موجود سچائی کی لگن ، جذبہ اور گہرا انہماک ہے۔

سائنس،نفسیات ،ادب اور روحانیت کےحسین امتزاج سےمزین یہ کتاب ہرمتلاشی انسان کو پاتال ،ٹوٹ پھوٹ، ناکامی ، انتشار اور بریک ڈاؤن سےنکال کراچانک معجزاتی کامیابی اور بریک تھرو سےروشناس کراتی ہے۔

لگتاہےمصنف نےآگہی اور آگاہی کو لازم و ملزوم بنا دیاہے۔ آگہی یعنی باطن کی کھوج سےہی مطلق سچائی ملتی ہے مصنف بتاتا ہےکہ یہ کھوج صرف گہری حکمت’دانائی اور تخلیق کےکرب سے ہی حاصل ہوتی ہے

اس کتاب کاایک جملہ بہت بڑاپیغام ہے

“Knowledge is arrogant and wisdom is Humble”

علم مغرور اور دانائی ہمیشہ عاجز ہوتی ہے۔

یہ کہتےہوئے مصنف کے اندر چھپا ہوا صوفی اور درویش نظر آتاہے جو پیغام دیتا ہے کہ”اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ  زندگی”

یہ باطن ہی روشنی دیتا ہےجس روشنی میں کائنات کےبلندو پست نظر آتےہیں۔

اس کتاب میں ہولسٹک اپروچ امن ،یگانگت اور اتحاد کااستعارہ ہےجس میں تمام انسان مل کرذہنی،جسمانی اور روحانی صحت کے ان پہلووں پرکام کریں جن کوسدہارکر فرد اور معاشرےکی اجتماعی ذہنی، روحانی اور جسمانی بیماریوں کا علاج کیا جا سکے اور انفرادی اور اجتماعی ٹوٹ پھوٹ، انتشار، بد امنی اور مایوسی کامیابی کےمعجزوں اور بریک تھرومیں بدل جائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کتاب میں مصنف خضر کے نام سے صرف لفظی رہنمائی نہیں کرتا بلکہ کسی کٹیا میں اس نےکوئی منزل کلینک کے نام سے بھی سجا رکھی ہےجہاں ذھنی اور روحانی ناآسودہ انسانوں کی مسیحائی بھی کی جاتی ہےیوں خضر شب بھرمیں بنا دی جانےوالی عبادت گاہوں کاخطیب نہیں بلکہ عملی طور پرمرھم کشائی کرنے والا ہیلر اور مسیحا بھی ہےجو نماز انسانیت کا قائل ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply