ٹموتھی ویکس یا جبریل عمر سے ایک ملاقات (2)۔۔افتخار گیلانی

ٹموتھی سوچنے لگے کہ 12یا 13سال کی عمر میں یہ بچے بندوق اٹھائیں گے اور اگر زندہ رہے تو 19یا 20سال کی عمر میں انکی شادی ہوجائیگی اور پھر کسی دن ہلاک ہو کر یتیموں اور بیوائوں کی آبادی میں اضافہ کریں گے۔ افغانستان کے وسیع تر علاقہ کی یہی کہانی ہے۔ ’’یہ ایک ایسا موڑ تھاجب میں نے سوچا کہ مجھے ان بچوں اور افغانستان کیلئے کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ افغان بچے بھی بہتر تعلیم و تربیت اور زندگی کے مستحق ہیں۔‘‘ ایام اسیری کے بارے میں جب ان سے سوال کیاتو معلوم ہوا کہ ان کے جسم اور پیروں پر تشدد کے کئی نشانات ہیں۔ ان کے ساتھی امریکی پروفیسر کنگ چونکہ عمر رسیدہ اور معذور تھے، تو ان کے حصے کی مار بھی ان کو ہی پڑتی تھی۔ تین برسوںمیں ان کو 33بار منتقل کیا گیا۔ چونکہ یہ منتقلی اچانک ہوتی تھی، اسلئے ان کو تیاری کیلئے بس چند سیکنڈ ہی ملتے تھے۔ اس سے زیادہ وقت لینے پر پٹائی ہوتی تھی۔ کسی وقت امریکی پروفیسر اپنا پاجامہ بند کر نا بھول جاتے تھے تو طالبان ان کے بدلے ٹموتھی کو ہی پیٹتے تھے کہ وہ ان کا خیال کیوں نہیں رکھتے ۔ ایک بار ان کے جسم پر خارش نکل آئی، وہ اپنی قمیض اتار کر رکھتے ، اس پر طالبان گارڈ خاصے ناراض ہوتے اور بھر پور پٹائی کرتے ۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ امریکی جیلوں میں موجود طالبان کے قیدیوں نے بھی اسی طرح کے تشدد کا سامنا کیا ہے۔ نہایت سست رفتاری کے ساتھ پلیٹ سے جب وہ چاول اور چکن کھارہے تھے تو میں نے ٹموتھی سے پوچھا کہ ایام اسیری میں کھانے کا کیا انتظام تھا۔ان کا کہنا تھاکہ کئی کئی ماہ بس ایک ہی طرح کا سالن ملتا تھا۔ جب ایک بار دو ماہ تک لگاتار بینگن ہی کھانے میں ملتے رہے تو ایک دن تنگ آکر امریکی پروفیسر نے سبزی لیٹرین میں رکھ دی جس کی وجہ سے گارڈ ناراض ہوگئے، بس انہوں نے پھر مجھے ہی پیٹ ڈالا۔ جب کھانے کی شکایت کرتے تو وہ کہتے تھے کہ وہ خود ایسا ہی کھانا کھاتے ہیں۔ اپنی اسیری کے دوسرے سال کے آخر میں جب ٹموتھی نے اسلام قبول کرکے نما ز وغیرہ ادا کرنا شروع کی تو طالبان گارڈ پھر بھی ان کو تشدد کا نشانہ بناتے تھے۔ ان کو شاید یقین نہیں آ رہاتھاکہ وہ مسلمان ہو گئے ہیں۔ اپنی قید کے دوران خوفناک ترین واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2018میں امریکی افواج نے ان کا پتہ لگا کر طالبان کے ٹھکانہ پر دھاوا بول دیا۔ یہ شدید سرد رات تھی اور وہ کمبل میں لیٹے تھے کہ طالبان گارڈ نے ان کو اٹھایا اور ٹائلٹ کا کموڈ اٹھا کر ان کو اندر جانے کا حکم دیا۔ وہ ابھی پس و پیش میں ہی تھے کہ مشین گن کے ایک برسٹ نے دیوار کو چھلنی کردیا۔ طالبان گارڈ نے ان کو دھکا دیکر نیچے خلا میں پھینک دیا ۔ وہ قلابازیاں کھاتے ہوئے تقریباً 40فٹ نیچے گر گئے اور ان کا ٹخنہ تقریباً پیر سے الگ ہو گیا تھا۔ نیچے معلوم ہوا کہ سرنگوں کا ایک وسیع نیٹ ورک ہے۔ پیٹ کے بل کئی میل تک ٹنل میں رینگنا پڑا، اوپر شدید بمباری ہو رہی تھی۔ ٹنل کے در و دیوار ہل رہے تھے۔ لگ رہا تھا کہ زمیں بس ابھی نیچے آکر ہمیں زندہ درگور کر دے گی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ امریکی فوج بس ہم سے 30سیکنڈ کی دوری پر تھی جب ہمیں ٹنل میں پھینکا گیا۔ ٹموتھی کا کہنا ہے کہ طالبان عسکریوں کی ایک خصوصیت تھی کہ وہ رات کو بغیر کسی ٹارچ وغیر ہ کے بلی یا چیتے کی طرح بغیر کوئی آواز کئے نقل و حرکت کرتے تھے۔ محض دو فٹ کی دوری سے بھی اس نقل و حرکت کو محسوس کرنا مشکل ہوتا تھا۔ چونکہ امریکی یا افغان فوج کی کارروائیاں بھی رات کو ہی ہوتی تھیں، اسلئے رات بھر سونا ناممکن ہوتا تھا۔ ان ٹھکانوں پر صبح فجر کی اذان کے بعد ایک سکوت سا چھا جاتا تھا۔ یہ بھی ایک وجہ تھی جس پر میں صبح کی اذان کا انتظار کرتارہتا تھا۔ ‘‘ سب سے اچھا دن 19نومبر 2019کا تھا۔ جب فجرکی نماز کے بعد ان کو پانی کی ایک بالٹی دیکر بتایا گیا کہ وہ نہا دھو کر تیار رہیںکیونکہ ان کو رہائی ملنے والی ہے۔ انکو یقین نہیں آرہا تھا۔ اس طرح کے وعدے کئی بار کئے گئے تھے ۔ خیر اس بار انکے جسم کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنے کے بعد ان کو گاڑی میں سوار کیا گیا اور آنکھوں سے جب پٹی اتاری گئی تو معلوم ہوا کہ پہاڑوں کے درمیان ایک وسیع میدا ن ہے۔ یہ زابل کا علاقہ تھا۔ گارڈپاس کے پہاڑوں پر براجمان تھے، ان میں سے کئی عسکریوں کے پاس کیمرہ تھے ، جو اس پورے واقعہ کی فلم بنا رہے تھے۔ چند ساعتوں کے بعد فضا میں گڑگڑاہٹ ہوئی۔’’ دو بلیک ہاک امریکی ہیلی کاپٹر ہمارے سروں کے اوپر پرواز کرکے لینڈنگ کیلئے گرائونڈ دیکھ رہے تھے۔ گر د وغبار کا ایک طوفان سا آگیا، جس میں کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ چند لمحوں کے بعد جب گرد و غبار چھٹ گیا تو دیکھا کہ دونوں ہیلی کاپٹر چند سو گز کی دوری پر کھڑے ہیں۔ اس میں سے امریکی اسپیشل فورس کا ایک اہلکار نمودار ہوا ، طالبان گارڈ نے مجھے اس کی طرف جانے کا اشارہ کیا۔ وہ مجھے گلے لگاکر تکالیف اٹھانے پر معافیاں مانگ رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ ان سے رابطہ رکھوں۔ یہ وعدہ میں اب بخوبی نبھا رہا ہوں۔ امریکی اہلکار نے بھی مجھے گلے لگا کر کہا وہ مجھے گھر لیجانے کیلئے آئے ہیں۔ میرا وزن 30پونڈ کم ہوچکا تھا۔ مجھے زابل سے قندھار اور پھر بگرام لے جایاگیا، جہاں سے ایک دیو ہیکل طیارہ سے جرمنی میں امریکی فوجی مستقر پہنچایا گیا۔ ‘‘ ٹموتھی کا کہنا ہے کہ ان کا اصل امتحان اب آسٹریلیا میں ہونا تھا۔ معلوم ہوا کہ والدہ کا اس دوران انتقال ہو چکا تھا۔’’ میرے خاندان والے Hillsong Evangelistic Churchسے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ میر ے قبول اسلام سے سخت ناراض تھے اور نتیجہ اخذ کررہے تھے کہ میں اذیت رسانی کی وجہ سے پاگل ہوچکا ہوں۔ دوستوں نے والد کو بتایا کہ ان کا فرزند اسٹاک ہوم سنڈروم کا شکار ہو گیا ہے ، جس میں مغوی کی اغوا کار کے ساتھ ہمدردی ہوجاتی ہے۔ مجھے نفسیاتی ماہرین کے پاس لے جایا گیا ۔ جانچ کے بعد انہوں نے اسکی نفی کردی۔ ــ‘‘ یہ داستان سننے کے بعد میں نے ان سے پوچھا جب آپ نے اتنی اذیتیں سہیں اور پوری دنیا اسوقت اسلامو فوبیا کے گرداب میں ہے تو انہوں نے اسلام کو کیوں چنا، انکا کہنا تھا کہ دنیا کو اسلام کی غلط تصویر دکھا ئی جا رہی ہے۔ ‘‘میرے ملک آسٹریلیا میں مسلمانوں کو خودکش بمبار یا خواتین کا استحصال کرنے یا انکو اذیتیں دینے اور چار شادیاں کرنے کیلئے جانا جاتا ہے۔جو ایک غلط تاویل ہے۔‘‘ آسٹریلین پروفیسر اس وقت ایک معروف بین الاقوامی اشاعتی ادارہ کیلئے ایک کتاب لکھ رہے ہیں، جس کے مکمل ہونے کے بعد وہ افغانستان منتقل ہوکر وہاں تعلیم کے نظام کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ملاقات کے دوران وہ بار بار بتا رہے تھے کہ وہ روحانی طور پر آسٹریلین کے بجائے اپنے آپ کو پشتو افغان مسلمان سمجھتے ہیں۔ قید کے دوران انہوں نے کئی نظمیں بھی لکھی ہیں جو شاید وہ اپنی کتاب میں درج کریں گے۔ (جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply