ویلنٹائن کا باپ کون تھا؟۔۔۔۔۔ گل نوخیزاختر

آج سے سات سال پہلے میں اپنے ایک دوست کے ساتھ جی ٹی روڈ سے اسلام آباد جارہا تھا۔ ہمیں صبح ایک ضروری کام تھا اس لیے رات کا سفر طے ہوا۔ ہم لوگ اپنی گاڑی پر تھے۔ راستے میں ایک ڈھابے پر چائے پینے کے لیے رُکے تو ایک عجیب بات ہوئی۔ ایک بھکاری ٹائپ کا شخص قریب آیا اوردس روپے مانگے۔ میں اسے پیسے دینے ہی لگا تھا کہ دوست نے منع کردیا اور خود ہی بول پڑا’جاؤ یار معاف کرو‘۔ اُس شخص کے چہرے پر یکدم غضبناک تاثرات ابھر آئے۔گھور کر میرے دوست سے بولا’’ڈیڑھ گھنٹے بعد تمہارا ایکسیڈنٹ ہوگا‘‘۔ یہ سنتے ہی میرا دوست بھی تاؤ کھا گیا اور جواباً بولا’’آدھے گھنٹے بعد تمہارا بھی ایکسیڈنٹ ہوگا اور تمہاری دونوں ٹانگیں کٹ جائیں گی‘‘۔ بھکاری نے کوئی جواب نہیں دیا اور غصے سے دوسری طرف نکل گیا۔ میں سدا سے وہمی ہوں۔ دوست سے کہا کہ دس روپے دینے میں کیا حرج تھا‘ اب بلاوجہ سارے رستے ہول پڑتے جائیں گے۔ دوست نے کندھے اچکائے’’غیب کا علم صرف خدا کو ہے‘ اگرخدا کو منظور ہوا تو ایکسیڈنٹ ہوجائے گا ورنہ نہیں۔‘‘ میں گھگھیایا’’یار ہوسکتا ہے یہ کوئی اللہ کا بندہ ہو؟‘‘۔ دوست چلایا’’تمہارا مطلب ہے یہ دس روپے کے عوض لوگوں کی زندگیوں کا فیصلہ کرتا ہے؟‘‘۔ میں خاموش ہوگیا۔
چائے پینے کے بعد ہم گاڑی میں سوار ہوئے۔ گاڑی میرا دوست چلا رہا تھا۔ اب تک کی ڈرائیونگ میں مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہوا تھا‘ ہم بڑے آرام سے گپ شپ کرتے آرہے تھے لیکن بھکاری کی بات کے بعد مجھے لگ رہا تھا جیسے سامنے والا ہر ٹرک ہماری طرف ہی آرہا ہے۔ میں ہر دو منٹ بعد چیخ اٹھتا’’دھیان سے۔۔۔سامنے بس آرہی ہے‘‘۔ کچھ دیر تو میرے دوست نے برداشت کیا پھر دانت پیسے’’چپ کر کے بیٹھ جاؤ‘ میں گاڑی چلا رہا ہوں مجھے بھی نظر آرہا ہے کہ سامنے کیاچیز آرہی ہے ۔‘‘ میں نے قدرے نرم لہجے میں گذارش کی’’یار پلیز اِدھر کسی قریبی ہوٹل میں ٹھہر جاتے ہیں‘ میری خاطر یہ منحوس ڈیڑھ گھنٹہ کسی طرح پار کروا دو‘‘۔ اُس نے قہقہہ لگایا’’اسی ڈیڑھ گھنٹے میں ہی تو ڈرائیونگ کرنا ضروری ہے تاکہ تمہیں بھی اندازہ ہو کہ اس طرح کے ڈھونگی کیسے جھوٹ بولتے ہیں۔‘‘ میں روہانسا ہوگیا’’مان لیا کہ اس نے جھوٹ ہی بولا ہوگا لیکن ہمیں اسے آزمانے کی کیاضرورت ہے‘ کسی ہوٹل میں بیٹھتے ہیں‘ دوبارہ چائے پیتے ہیں بلکہ کھانا کھاتے ہیں‘ ڈیڑھ گھنٹہ دو منٹ میں گذر جائے گا۔‘‘ میری بات کے جواب میں دوست نے گاڑی کی سپیڈ مزید بڑھائی اور بولا’’پہلی بات تو یہ کہ ڈیڑھ گھنٹے میں سے آدھا گھنٹہ گذر چکاہے‘ اور دوسرے یہ کہ ہم طے کرکے نکلے تھے کہ راستے میں صرف چائے پئیں گے‘ خود تم ہی نے تو کہا تھا کہ سڑک کنارے ہوٹلوں کے کھانوں میں معیاری تیل استعمال نہیں کیا جاتا لہذا راستے سے کچھ نہیں کھانا۔‘‘میں نے بے بسی سے انگلیاں مروڑیں’’ہاں کہا تھا لیکن راستے میں معیاری ہوٹلز بھی تو آتے ہیں وہاں سے تو کھایا جاسکتا ہے۔۔۔چلو وہاں سے بھی نہیں کھاتے لیکن یہ تو کرسکتے ہیں ناں کہ کافی پی لیں ‘ ساتھ بسکٹ وغیرہ کھا لیں۔ بلکہ یقین کرو تو مجھے کافی کی شدید طلب ہورہی ہے ‘ تمہیں پتا ہونا چاہیے کہ ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بندہ سوجائے تو ڈرائیور کو بھی نیند آجاتی ہے لہذا مجھے نیند سے بچاؤ۔‘‘یہ سنتے ہی دوست نے اطمینان سے گاڑی ایک طرف روکی۔ سگریٹ سلگایا اور جلتا ہوا سگریٹ میرے ہاتھ پر لگاتے ہوئے بولا’’انشاء اللہ اب تمہیں تین دن تک نیند نہیں آئے گی‘‘۔ میری کربناک چیخ نکل گئی۔ بدبخت نے سیدھا ہتھیلی کا نشانہ لیا تھا‘ شکر ہے جلدجلنے سے بچ گئی تھی۔ میں نے بے اختیار ہتھیلی پر پھونکیں ماریں۔ گاڑی میں پڑی پانی کی بوتل سے ہتھیلی دھوئی ۔ پھر بھی ہوش آتے آتے پانچ منٹ لگ ہی گئے۔اچانک مجھے بھکاری یاد آیا اور بے ساختہ میری نظر گھڑی پر پڑی۔ ایک گھنٹہ گذر چکا تھا۔ یعنی اب جو کچھ ہونا تھا آدھے گھنٹے میں ہونا تھا۔میں نے اندازہ لگانا شروع کیا۔ یقیناًجہلم کے پاس یا تو گاڑی الٹے گی یا کوئی ویگن ہم پر چڑھ دوڑے گی۔ میرے سارے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔دماغ تیزی سے کچھ سوچنے لگا۔ گاڑی رکوانا بہت ضروری ہوچکا تھا۔ میرا دوست پوری طرح ضد میں آیا ہوا تھا اور مجھے پتا تھا کہ وہ کسی ایسی ویسی بات پر گاڑی نہیں روکے گا۔ میں نے کچھ دیر سوچا ‘ پھر تیزی سے ایک طرف جھٹکا لیا۔ دوست نے چونک کر پوچھا’’کیا ہوا؟‘‘۔ میں نے جلدی سے کہا’’لگتا ہے میری طرف والا ٹائر پنکچر ہوگیا ہے‘‘۔اُس کے لہجے میں حیرت در آئی’’ٹائر پنکچر ہوا ہے تو مجھے جھٹکا کیوں نہیں لگا؟‘‘۔ میں نے جلدی سے دلیل دی’’یار میری طرف والا ٹائر پنکچر ہوا ہے‘ تمہیں کیسے جھٹکا لگتا؟‘‘۔اُس نے زور سے بائیں ہاتھ سے میرے بازو میں چٹکی کاٹی’’بونگے انسان !گاڑی کا کوئی بھی ٹائر پنکچر ہوتو سب سے پہلے ڈرائیور کو ہی پتا چلتاہے‘‘۔میں نے جلدی سے پینترا بدل کرناگواری سے کہا’’جانتا ہوں‘ مجھے تم سے اچھی گاڑی چلانی آتی ہے۔‘‘ تیر نشانے پر بیٹھا۔ دوست گرجا’’میں 120 کی سپیڈ پر جارہا ہوں‘‘۔ میں نے اطمینان سے کہا’’میں تین سو تک جاسکتا ہوں‘‘۔ وہ چلایا’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ تین سو تک تو موٹر وے پر نہیں جایا جاسکتا ‘ یہ تو پھر جی ٹی روڈ ہے‘‘۔ میں نے اٹل لہجے میں کہا’’میں تین سو تک نہ جاسکا تو ہزار روپے جرمانہ دوں گا‘ لیکن اگر چلا گیا تو تم مجھے ہزار روپے دو گے۔۔۔بولو منظور؟‘‘۔ اُس نے جواب دینے کی بجائے گاڑی آہستہ کی‘ انتہائی بائیں لین میں ہوا اور تھوڑا آگے جاکر گاڑی روک دی۔’’آؤ‘ چلاؤ گاڑی اور تین سوکلومیٹر کی سپیڈ تک جاکے دکھاؤ‘‘۔میں خوشی سے جھوم اٹھا۔ گھڑی پر نظر ڈالی تو ڈیڑھ گھنٹہ پورا ہونے میں پندرہ منٹ باقی تھے۔ میں نے جلدی سے گاڑی کی چابی جیب میں ڈالی اورسڑک کنارے ایک انگڑائی لے کر کہا۔’’بالکل میں چلاؤں گا لیکن ذرا ٹانگیں تو سیدھی کرلوں‘ بیٹھ بیٹھ کر تھک گیا ہوں۔‘‘دوست بیزاری سے دوسری طرف دیکھنے گا۔ پانچ منٹ بعد اس کی آواز آئی’’اب چلو‘ دیر ہورہی ہے‘‘۔ میں نے سرہلایا ’’ایک منٹ۔۔۔میں ذرا ڈکی سے اپناکوٹ نکال لوں‘ کچھ سردی لگ رہی ہے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے میں نے گاڑی کی ڈکی کھولی اور سلوموشن میں اپنا بیگ نکال کر اس میں سے کوٹ نکالا۔ بیگ کی زپ بند کی‘ دوبارہ ڈکی میں رکھا اور کن اکھیوں سے گھڑی دیکھی۔ ابھی چار منٹ باقی تھے۔میں نے دو منٹ کوٹ پہننے میں لگائے۔ گلاس نکال کر پانی پیا۔ گاڑی میں بیٹھا‘ سیٹ بیلٹ لگائی اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے ڈیڑھ گھنٹہ پورا ہوگیا۔ میری باچھیں کھل گئیں۔ میں نے اسی وقت دوست کی طرف دیکھا جو فیس بک کھولے بیٹھا تھا۔۔۔اور گاڑی آگے بڑھا دی۔اللہ کا شکر ہے کوئی حادثہ نہیں ہوا اور ہم خیریت سے 80 کلومیٹر فی گھنٹہ کی سپیڈ سے اسلام آباد پہنچ گئے۔میں نے پہنچتے ہی بڑے احترام سے دوست کو ایک ہزارکا نوٹ پیش کر دیا۔ایسے وہم ہمارے دلوں میں روز مختلف لوگ ڈالتے ہیں۔ جن کا ٹیوا(تُکے کی تھرڈ فارم) ٹھیک نکلتا ہے انہیں ہم بابے مان لیتے ہیں ‘ جو غلط نکلیں انہیں ساری زندگی کے لیے مسترد کر دیتے ہیں۔رہا یہ سوال کہ ویلنٹائن کا باپ کون تھا۔۔۔ وہ تو مجھے نہیں معلوم۔سوری

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ جنگ اخبار

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply