پرانی فلمیں ،پُرانے اداکار(1)۔۔ناصر خان ناصر

پرانی فلمیں، پرانے اداکار،اداکارائیں، ہمیں بهی ان کا ہوکا ہے، پوتهیاں بہ نوک زبان۔  اسی فیس بک پہ جب جب کوئی  صاحب کسی پرانی فلم یا گیت کا ذکر چهڑتے ہیں، ہمارے ہاتهوں میں کهجلی ہونے لگتی ہے۔ ہاں صاحب! ہمارے وقتوں میں ہر چهوٹا بڑا شخص فلمیں ذوق و شوق سے دیکها کرتا تها۔ فلمی سٹوری واپس آ کر مزید نمک مرچ لگا کر دوستوں کو سنائی  جاتی، خوب تبصرے، بحث مباحثے ہوتے۔ دراصل پرانی فلمیں نہایت دلجمعی، سنجیدگی اور توجہ سے بنائی  جاتی تهیں، ہر چهوٹے بڑے کردار سے بهرپور انداز میں کام کروایا جاتا تها۔ اچهے کام کی دهومیں فوراً  مچ جاتیں ۔ مثلاً فلم سات لاکھ میں نیلو کی “آئے موسم رنگیلے سہانے” پر خوبصورت پرفارمنس سے انکے ڈنکے بج گئے۔ آخری اسٹیشن فلم میں شبنم نے پگلی کا لازوال کردار ادا کر کے اپنی جگہ مغربی پاکستانی فلم انڈسڑی میں کهری کر لی۔ فردوس نے بهی ایک فلم میں پاگل لڑکی کا کردار اچها کیا تو باکس آفس میں ان کا نام بکِنے لگا ۔ ترانہ نے ایک فلم میں محمد علی اور ایرانی اداکارہ شاہ پارہ کے بمقابل اچھا کام کر کے سب کو چونکا دیا۔ شمیم آرا لاکھوں میں ایک کے بعد لاکھوں دلوں کی دھڑکن بن گئیں۔ ایسی ہزاروں سینکڑوں مثالیں ہیں۔ ان بیتے زمانوں کے نام لیوا لوگوں کا بهی چل چلاؤ  کا وقت ہے۔

لیجیے صاحب! ایک مہربان نے ہاتهوں میں کهجلی ہونے کا مطلب بهی پوچھ لیا، کهجلی من میں بهی ہوتی ہے اور بہت سی ناپسندیدہ جگہوں پر بهی۔۔۔
نور جہاں، آہو چشم راگنی، سورن لتا، شمیم، لارا لپا گرل مینا شوری، زینت، ریحانہ، جمیلہ رزاق، مادام آزوری اور ببو بهارت میں بڑی اداکارائیں تهیں، پاکستان آ کر ذلیل ہوئیں، ایک آدھ فلم ملی اور ٹهپ۔ ماسوائے نور جہاں صاحبہ کے کسی نے کامیابی کا منہ نہ دیکھا۔ ریحانہ کی قابل ذکر فلم رات کے راہی بهی ناکام گئی ۔ جمیلہ نے انڈسڑیل رزاق باولا سے بیاہ کیا۔ ببو سے بهٹو صاحب کے سوتیلے بهائی  امداد بهٹو نے بیاہ کیا مگر چھوڑ دیا، بیچاری نہایت کسمپرسی کہ حالت میں لاہور میں بهیک مانگتے ہوئے مریں۔ ممبئی  میں ان کے جوتوں پر ہیرے جڑے ہوتے تهے۔

سورن لتا صاحبہ نے اپنے خاوند نذیر کو اپنے سارے گہنے اتار کر دے دیے جن کو بیچ کر انھوں نے فلمیں لارے اور پھیرے بنائیں۔ ان فلموں کے بعد وہ بھی ٹھپ ہو گئیں۔ نذیر مغل اعظم بنانے والے کے آصف صاحب کے سگے ماموں تھے۔ کے آصف صاحب نے دوسری شادی دلیپ کمار صاحب کی بہن سردار اختر سے کی تھی۔ سردار اختر صاحبہ نے ہی ان کی نامکمل فلم محبت اور خدا کو مکمل کیا۔ یہ فلم نمی کی یادگار فلم ثابت ہوتی اگر اسے کے آصف خود مکمل کر پاتے۔
سورن لتا نے پاکستان کی پہلی ہیر پر بنائی فلم میں بھی کام کیا تھا۔ ان کے بلمقابل رانجھے کا کردار کمسن عنایت حسین بھٹی صاحب نے ادا کیا تھا۔

صاحب۔۔۔ سلونی بهی اپنے وقت کی بڑی اداکارہ تھیں، باری ملک سے عشق کر کے بیاہ کر لیا تو ان کے جوان بیٹوں نے باپ پر بندوقیں تان لیں۔ باری ملک صاحب نے نہایت دلداری سے بیٹوں کو سمجھایا۔ باری اسٹوڈیوز انھیں دے دیے اور سلونی کو اپنی تجارت کے دھندے دبئی  تک کھول کر وہاں بسا دیا۔

زبیدہ خانم نے پاٹے خان سمیت کئی  فلموں میں کام کیا۔ بے حد خوبصورت آواز کی مالک تھیں۔ اگر شادی کر کے فلموں کی گلوکاری سے تائب نہ ہوتیں تو ملکہ ترنم بھی یہی بنتیں۔
رتن کمار نیلو کے ساتھ ناگن میں آئے۔ دوچار فلموں کے بعد غائب ہو گئے۔ نور جہان کے ساتھ دوپٹہ میں جن اجے کمار صاحب نے کام کیا، ان کے بیٹے شامل خان بھی ہیرو بنے۔ شامل خان،اورنگ زیب اور عجب گل خوبصورت چہرے رکهتے ہیں۔

مشرقی پاکستان سے آنے والی ببیتا، سلطانہ زمان، کابوری، نسیمہ خان، گرج بابو اور ان کی بیگم نینا ، ادکار رحمان جو لنگڑا ہونے کے باوجود اچھے خاصے کامیاب رہے۔ نینا اور گرج بابو میں علحیدگی ہو گئی  تھی۔ ان کی بیٹی نعیمہ خان اسٹیج ڈراموں کی اداکارہ رہیں۔بطور گلوکارہ فردوسی بیگم، شہناز بیگم اور رونا لیلی کے طوطی بولتے رہے۔
رقاصہ پنا، کومل، ایمی مینوالہ، رخشی، چھم چھم، فریدہ، مینا چوہدری، نگو، منزلہ، عشرت چوہدری، مینا چوہدری تھیں۔

مزلہ، نازلی،انیتا، نمی، نجمہ، امروزیہ، سیاں چودھری، نگو اور دیگر کئی  رقاصہ اداکارائیں اس دور میں فلموں میں آئیں جب فحاشی اور عریانی اپنے عروج پر تھی۔ ان بیچاری خواتین کو شہرت کی سیڑھیاں چڑھنے کے لئے “دلہن ایک رات کی” اور “خطرناک” جیسی فلموں والے فحش رقص کرنے پڑے۔ مزلہ جو ریما کی سگی خالہ تھیں، کافی ٹیلنٹڈ خاتون ہونے کے باوجود ریما نہ بن سکیں۔ اس قبیل کی رقاصاؤں میں صرف نجمہ اور کچھ حد تک نازلی ہی چند اچھی فلمیں کرنے کے بعد ہیروئین کے رول تک پہنچ پائیں۔

فلمی دنیا میں ایسے بے شمار قصے ہیں جہاں بظاہر خوش و خرم اور زندگی سے مطمئن نظر والے فنکار اندر سے بے حد دکھی نظر آتے ہیں۔ اداکارہ روحی بانو، نبیلہ، ننھا اور منور ظریف چند مثالیں ہیں۔ ننھا شادی شدہ اور بال بچے دار تھے مگر نازلی کی زلفوں کے اسیر ہو گئے۔ انھوں نے شادی کرنے کی کڑی شرائط میں کوٹھی بنگلہ بینک بیلنس کا ایسا مطالبہ کیا جو ننھا کے بس سے باہر تھا۔ اسی غم میں انھوں نے خودکشی کر لی۔ منور ظریف بھی فلم میرا ناں پاٹے خان کی شوٹنگ کے دوران بابرہ شریف کے کافی نزدیک آ گئے تھے۔ یہاں بھی وہی کہانی دہرای گئی ۔

۔مزاحیہ موٹی اداکارہ چن چن تھیں جن کو بالی وڈ کی ٹن ٹن صاحبہ کے مقابلے میں لایا گیا تھا، رضیہ نے بھی بے شمار فلموں میں مسخری کا رول ادا کیا۔ ظریف اور ان کے بھائی  منور ظریف، نذر ، رنگیلا، ننھا اور کئی  دیگر اداکار کامیڈی کرتے تھے۔

حسنہ، زرقا، ترنم، نجمہ، عالیہ، نشو کی بہن شبو، بیٹی صاحبہ، داماد جان ریمبو، روزینہ کی بہن راحیلہ، بیٹی گل، ہیرو مراد، اسمائیل شاہ، ناظم، ناصرہ، رخسانہ، نبیلہ، فلمسٹار شیریں، نئے وقتوں کی ریشم اور مدیحہ شاہ کو بھی لسٹ میں شامل کیجئے۔ صاعقہ اور خیام کی جوڑی کے ساتھ  طلعت صدیقی، ریحانہ صدیقی،غزالہ، رومانہ اور گوری کے علاوہ غمگین آنکهوں والی شائستہ قیصر بهی کہیں رو نہ پڑیں۔ عابد نام کا ایک خوبصورت نوجوان بهی کئی  فلموں میں آیا۔ جمال بھی پر جمال تھے۔ بهارتی اداکارہ تبو اور فرح کے والد بهی کئی  پاکستانی فلموں میں بطور ہیرو آئے۔ ان کا اسم شریف جمال تھا مگر ایک اور جمال موجود ہونے کی بدولت انھیں فلمی نام جمیل دیا گیا تھا۔ ان کی فلم سزا میں روزینہ کے ساتھ جوڑی بنی۔ خوبرو تھے مگر چل نہیں پائے۔ غرناطہ اور یہ امن ان کی دیگر فلمیں تھیں۔

نجمہ محبوب صاحبہ نے تو اپنی زندگی ہی فلم انڈسٹری پر وار دی۔ المیہ اور جذباتی اداکاری کی اس ملکہ کا کام ان کی آخری فلم میں ایک ریل کی پٹڑی پر ہو رہا تها۔ فلمساز محکمہ ریل کو اطلاع یا اجازت لئے بغیر کام کروا رہا تها۔ نجمہ محبوب صاحبہ سمجھیں کہ آنے والی ریل شوٹنگ اور کہانی کے مطابق قریب آ کر رک جائے گی مگر وہ ٹرین تو انهیں کچل کر بهی نہ رکی۔ عطیہ شرف، رومانہ، روحی بانو ٹی وی سے فلموں میں آ کر راج کرنے لگیں۔

اداکارہ رانی کو ہندوستانی  شیکسپیئر  آغا حشر کاشمیری صاحب کی بیگم اور ملکہ غزل فریدہ خانم صاحبہ کی بڑی بہن مختار بیگم صاحبہ نے لے پالک کیا تھا اور کلاسیکل رقص کی تربیت دلوائی  تھی۔ شروع میں وہ کئی  فلموں میں بری طرح ناکام ہوئیں تو ان پر منحوس اداکارہ کا لیبل لگ گیا۔ پھر انھوں نے بھٹی برادران کی پنجابی فلموں میں کام کیا تو قسمت جاگ اٹھی، چن مکھناں، جند جان اور دیگر فلموں میں خاصی کامیابی ملی۔ انھوں نے ہدایت کار حسن طارق سے شادی کر لی جنہوں نے اس شادی کے لیے اپنی وفا شعار بیوی ایمی مینوالہ کو چھوڑ دیا تھا۔ ان سے قبل وہ نگہت سلطانہ سے بیاہ کر کے انھیں بھی فارغ الخطی عطا کر چکے تھے۔ رانی کو لے کر انھوں نے انجمن، تہذیب اور چند مزید فلمیں بنائیں۔ پھر رانی نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ امراو جان ادا ایک بے حد خوبصورت فلم تھی۔ ہمیں یاد ہے کہ اس فلم کے اشتہار میں حضرت جوش ملیح آبادی صاحب کا پیغام بھی چھاپا جاتا تھا کہ اس فلم کی کہانی ان کے استاد مرحوم مرزا ہادی رسوا کی لکھی کتاب پر مبنی ہے اور اس میں مدینہ ال ہندوستان لکھنو کی سچی عکاسی کی گئی  ہے۔

فلم میں لکھنوی طرز کا ایک دلدوز سوز (نوحہ) بھی شامل تھا مگر بعد میں فساد خلق کے خوف کی بنیاد پر اسے سنسر کی قینچی کی نذر کر دیا گیا۔ اب اس فلم کی بازار سے ملنے والی کیسٹوں میں یہ نادر نوحہ موجود نہیں ہے۔

رانی مرحومہ نے اپنے شوہر کی بنائی  اس فلم میں جی توڑ کر اپنی اعلی اداکاری رقص کے مظاہرے کیے ہیں۔ اس کے بعد ثریا بھوپالی، سیتا مریم مارگریٹ، بیگم جان، ایک تھی لڑکی، رانی پھڈے باز اور ایک بے حد یادگار فلم اک گناہ اور سہی۔۔۔ جس میں رانی کے ساتھ صبیحہ خانم صاحبہ نے اپنی زندگی کا سب سے اہم لازوال رول ادا کر کے خود کو امر کر لیا تھا۔ صبیحہ خانم سسی کے شہر گجرات سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے والدین کے عشق کا قصہ بھی پنجاب میں بالو ماہیا کے نام سے بے حد مشہور ہوا۔ اس قصے کے ٹپے آج بھی پنجاب بھی گائے جاتے ہیں۔ بالو کو گھر سے بھگا کر ماہیا صاحب نے ان سے بیاہ تو کر لیا مگر انھیں بمبئی  لے جا کر ان سے فلموں میں کام کے ساتھ پیشہ بھی کروانا شروع کر دیا۔ بالو صاحبہ شریف خاندان سے تھیں، اس صدمے کو دل سے لگا کر انھیں ٹی بی ہو گئی۔ ان کی وفات کے بعد ماہیا محمد علی صاحب اپنی بچی صبیحہ کو سونے کی چڑیا بنا کر لاہور فلم انڈسٹری میں لے گئے۔ سنتوش صاحب سے ان کی فلمی جوڑی کامیاب ہو گئی  تو ان دونوں نے لندن جا کر شادی بھی کر لی۔ سنتوش صاحب پہلے سے بھی شادی شدہ تھے۔ صبیحہ خانم شادی سے قبل اپنا نام صبیحہ ایم اے لکھا کرتی تھیں جو ان کے والد محمد علی کا مخفف تھا۔ صبیحہ خانم صاحبہ کے بارے میں تازہ ترین انکشاف یہ ہے کہ ان کی ایک شادی سنتوش صاحب سے قبل بھی کسی زمیندار سے ہوئی  تھی۔ جس سے ان کے دو بیٹے بھی ہوئے تھے۔

فلمسٹار رانی پاکستانی فلمی دنیا کا بہت بڑا نام تھیں۔ ان کی ہمیشہ یاد رہ جانے والی کامیاب فلموں کی لسٹ اگرچہ بے حد لمبی ہے مگر شروع میں ان پر منحوس اداکارہ کا ٹھپہ لگا دیا گیا تھا۔ رانی مشہور گلوکارہ مختار بیگم کے ڈرائیور کی بیٹی تھیں۔ ان کا اصلی نام ناصرہ تھا۔ مختار بیگم آغا حشر کی منکوحہ ہونے کی دعویدار تھیں۔ مختار بیگم نے فریدہ خانم اور رانی کی پرورش کی، انھوں نے رانی کو رقص و سرور، آداب محفل اور اپنی چھوٹی بہن فریدہ خانم کو گانا بجانا سکھایا مگر رانی عین نوجوانی میں مختار بیگم کو جل دے کر فلمی دنیا میں چلی آئیں۔ مختار بیگم نے ملکہ ترنم نور جہاں کی گرومنگ بھی کی تھی۔ رانی اوائل فلموں میں بطور سائیڈ ہیروئین بری طرح ناکام رہیں۔ ان کی مسٹر پاکستان نصر اللہ بٹ کے ساتھ چند فلمیں بنیں اور فلاپ ہو گئیں۔ کمال صاحب کی نظر التفات پڑی۔ میرا نام جوکر میں کام دیا مگر وہ فلم بھی ناکام۔ کمال صاحب سے شادی ہونا قرار پائی  مگر ان کے سید خاندان اور گھر کے لوگ آڑے آئے اور بات نہیں بنی۔ عنایت بھٹی صاحب نے نظر کرم فرمائی  اور یوں ان کی جوڑی بن گئی ۔ رانی کی کچھ پنجابی فلمیں چل پڑیں۔ جند جان، چن مکھنا، جی او جٹا اور کئی  دیگر کامیاب پنجابی فلموں کے بعد رانی پر حسن طارق صاحب کی نظر پڑ گئی ۔ انھوں نے انجمن، تہذیب، ناگ منی وغیرہ میں رانی سے زبردست پرفارمنس کروائی ۔ سوات میں ناگ منی کی فلمبندی کے دروان ان کا عشق پروان چڑھا اور حسن طارق صاحب نے اپنی پہلی بیگم ایمی مینوالا کو طلاق دے کر رانی سے بیاہ رچا لیا۔ یہ شادی رانی کے لئے خوش نصیبی کا پیام لائی ، حسن طارق صاحب نے ایک سے بڑھ کر ایک ان کی کامیاب فلموں کے ڈھیر لگا دیے۔ امراو جان، ثریا بھوپالی، بیگم جان، بہارو پھول برساؤ، ایک تھی لڑکی، اک گناہ اور سہی، شمع اور پروانہ ۔۔ بے حد طویل لسٹ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply