• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(پچاسویں قسط)۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(پچاسویں قسط)۔۔گوتم حیات

ہفتے کے ساتوں دنوں میں میرے لیے بدھ اور اتوار کے دن اہم ترین ہیں۔ ان دونوں دنوں کی شروعات میں”میڈم زاہدہ حنا” کا کالم پڑھ کر کرتا ہوں اور پھر پابندی سے ان کے کالم کا لنک اپنے دوستوں اور سوشل میڈیاکے مختلف پلیٹ فارمز پر بھیجتا ہوں۔ میرے لیے یہ ایک ایسا نیک فریضہ ہے جس کو میں نے خود سے اپنے اوپر فرض کر لیا ہے۔ جیسے کوئی صوم و صلوۃ کا پابند شخص اپنے اوپر نماز روزے کی پابندی عائد کر لیتا ہے۔۔۔ تو میرا کچھ ایسا ہی تعلق ہے میڈم کی تحریروں کے ساتھ۔۔۔ پندرہ، بیس منٹ کے اس نیک کام سے فراغت کے بعد میں دلی طور پر اطمینان محسوس کر کے اپنے دوسرے کاموں میں مصروف ہو جاتا ہوں۔ کئی بار مجھے شہر والوں کی طرف سے یہ افسوسناک باتیں بھی سننے کو ملتی ہیں کہ “ہاں وہ اس کام کے پیسے لیتا ہے، پیڈ ہے وہ، جب ہی تو ہر وقت ان کی تحریریں شیئر کرتا رہتا ہے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ”

غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ مجھے اس طرح کے فقرے سن کو ہمیشہ ہنسی آتی ہے، تھوڑا دکھ بھی ہوتا ہے اور پھر میں اپنے آپ سے کہتا ہوں کہ۔۔۔
“کیا کہا جائے ایسے بدبخت لوگوں کو۔۔۔ ان کے پیمانے بس یہیں تک ہیں۔ کس نے کتنے پیسے کما لیے، کون کس کے ساتھ اٹیچڈ ہے، وہ اس کام کے کتنے پیسے لیتا ہے۔۔۔ پیسوں کے بھاؤ تاؤ میں الجھے ہوئے یہ لوگ اس بات کو کیسے ڈھٹائی سے نظرانداز کر لیتے ہیں کہ پانچوں انگلیاں کبھی برابر نہیں ہوتیں اور ہو بھی نہیں سکتیں، اسی طرح شہر میں علم و ادب سے محبت کرنے والے پیسوں سے بہت ماؤرا ہوتے ہیں، ان کو آپ پیسے دے کر یا کسی بھی قسم کا لالچ دے کر خرید نہیں سکتے ہیں”۔
جب سے میں نے آزادانہ مطالعہ شروع کیا ہے تو میری یہ اوّلین خواہش ہوتی ہے کہ جو اہم تحریر بھی میں پڑھوں، یا کسی اچھی کتاب، اچھے گلوکار یا کسی اچھی فلم کے بارے میں معلوم ہو تو اس کو زیادہ سے زیادہ دوسروں تک پہنچاؤں۔ ایک یہی “خراج عقیدت” ہم اپنے “معتبر لکھاریوں” اور “معتبر فنکاروں”کو دے سکتے ہیں۔

اسی نقطہ نظر کو اپنے دل و دماغ کے دریچوں میں روشن کیے میں پچھلے تیرہ، چودہ سالوں سے علم و ادب کے سفر میں گامزن ہوں، زندگی ابھی جاری ہے اور میرا یہ سفر بھی جاری رہے گا۔۔۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا؛
روشنی سب ہی نے کی اپنے اپنے حصے کی،
جاتے جاتے ہم کو بھی ایک دیا جلانا ہے!
تو ہم روشنی کے سفیر اپنی آخری سانس تک علم و ادب کی شمعوں کو منور کرتے رہیں گے۔

صائمہ جب “ایم اے” کے آخری سال میں آئی تو اس نے اپنے تھیسز ریسرچ کے لیے پاکستان کی ایک مشہور و معروف ادیبہ “زاہدہ حنا” کا انتخاب کیا تھا۔ ہم دسویں کلاس سے ہی ان کے کالم اخبار میں پڑھتے آئے تھے۔ ان دنوں ہمارے علم میں یہ بات نہیں تھی کہ “زاہدہ حنا” اخبار میں کالمز لکھنے کے علاوہ افسانہ نگار بھی ہیں۔ یونیورسٹی میں داخلے کے بعد ہم اس بات سے آگاہ ہوئے۔ صائمہ چونکہ مجھ سے پہلے یونیورسٹی میں داخلہ لے چکی تھی اس لیے یہ بات بھی مجھے اس کی زبانی معلوم ہوئی کہ “زاہدہ حنا” کے کریڈٹ پر دو افسانوی مجموعوں کے علاوہ ایک ناولٹ بھی شامل ہے (یہ ان دنوں کی بات ہے جب ابھی ‘امیدِ سحر کی بات سنو’، ‘عورت زندگی کا زندان’ اور ‘رقص بسمل ہے’ کی اشاعت نہیں ہوئی تھی)۔
قصہ مختصر صائمہ نے تھیسز کی سلیکشن کے بعد اپنی ایک یونیورسٹی کی ٹیچر سے “زاہدہ حنا” کا رابطہ نمبر حاصل کیا اور ان سے ملاقات کا وقت لے لیا۔
“زاہدہ حنا” سے پہلی ملاقات کے بعد جب صائمہ گھر آئی تو وہ بہت خوش تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ۔۔۔
“میڈم اپنی تحریروں میں بہت مصروف ہیں، لیکن وہ میرے تھیسز کی تکمیل کے لیے مجھے وقت دیں گی۔۔۔ اب مجھے ہفتے میں ایک، دو بار ان کی طرف جانا ہو گا”
صائمہ اُس پہلی ملاقات میں ہی میڈم کی شخصیت سے متاثر ہو چکی تھی، متاثر تو وہ پہلے بھی تھی لیکن پہلے محض ان کی تحریروں سے، ملاقات کے بعد صائمہ نے ان کو ویسا ہی پایا جیسا وہ اپنی تحریروں میں نظر آتی تھیں بلکہ ہیں۔

ہمارے سماج میں ایسا شازونادر ہی ہوتا ہے کہ لکھنے والا اپنی حقیقی زندگی میں بھی ان ہی سنہری اصولوں کی پاسداری کرتا ہو، جن سے وہ قارئین کو اپنے لفظوں کی صورت میں روشناس کراتا ہے۔
صائمہ نے “زاہدہ حنا” کی شخصیت کو ایسا ہی پایا۔
قول و فعل میں یکتا۔۔۔ مصلحت پسندی سے کوسوں دور۔۔۔ سچائی، بہادری اور مزاحمت کا پیکر۔

دن گزرتے گئے صائمہ کا اپنی ریسرچ کے سلسلے میں میڈم زاہدہ حنا سے ملنا جلنا برقرار رہا۔ صائمہ نے شہر کے گلی کوچوں میں کتابوں کی دکانوں میں خاک چھاننے اور مختلف لائبریریوں کی الماریوں کو کھنگالنے کے بعد
“میڈم زاہدہ حنا” کی انمول تحریروں کا اچھا خاصا ذخیرہ جمع کر لیا تھا۔ یہ وہ نادر و نایاب تحریریں تھیں جو مختلف ادبی رسالوں میں ساٹھ کی دہائی سے شائع ہو رہی تھیں۔ ان رسالوں میں نقوش، عالمی ڈائجسٹ اور روشن خیال سرفہرست تھے، کچھ دوسرے رسالے بھی تھے جن کے نام اس وقت میری یاداشت سے مٹ چکے ہیں۔ ان انمول رسالوں کے صفحات کو الٹتے پلٹتے صائمہ کو بس ایک ہی غم کھائے جا رہا تھا، وہ اکثر و بیشتر مجھ سے اور صدف سے اس بات کا ذکر کرتی کہ
کیوں یہ “روشن خیال” اور “عالمی ڈائجسٹ” بند ہو گئے۔۔۔ کاش یہ بند نہ ہوتے۔ کبھی کبھی صائمہ جذبات کی رو میں بہہ کر یہ اعلان بھی کر دیتی کہ
“اگر تم دونوں ساتھ دو تو ہم ایسے ہی معیاری ادبی رسالے دوبارہ سے نکال سکتے ہیں”

صائمہ کی بات پر میں اور صدف خاموش ہو جاتے کیونکہ ہمارے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا اور نہ ہی ہم تینوں کے پاس اتنے وسائل تھے کہ رسالوں پر صرف کیے جا سکیں۔
“عالمی ڈائجسٹ” کی بندش کے علاوہ صائمہ کو ایک اور بات کا بھی دکھ تھا۔ اُس اذیت ناک دکھ کو کریدنے کے لیے صائمہ ہر وقت سہمی ہوئی رہتی۔ وہ جاننا چاہتی تھی کہ ایسا کیوں ہوا؟۔۔۔ کیا انسانی رشتے اتنے حقیر بھی کبھی ہو سکتے ہیں۔۔۔ لیکن بدقسمتی سے اس کے پاس الفاظ نہیں تھے کہ کیسے میڈم سے اس بارے میں کچھ دریافت کیا جائے۔۔۔ میرے اس سوال کہیں وہ ناراض تو نہیں ہو جائیں گی۔۔۔؟ کیونکہ ان سوالوں کا تعلق صائمہ کی ریسرچ سے بالکل بھی نہیں تھا!

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply