ریاستیں ایسے چلتی ہیں ۔۔اظہر سیّد

جن ریاستوں نے جوابدہی کا نظام تشکیل دے لیا وہ دنیا کی قیادت کر رہی ہیں ۔ جن ریاستوں میں اعلیٰ  عہدیدار اداروں کی پشت پناہی سے صرف چار صفحات کا خود ساختہ جواب دے کر بیرون ملک اربوں روپیہ کے اثاثوں کی جواب طلبی سے بچ نکلیں وہ کس طرح برطانیہ ایسے مہذب معاشرے کا مقابلہ کر سکتی ہیں جہاں ایک فوجی جنرل سے اس لئے استعفی لے لیا جائے کہ اس نے اپنے بچے کو کس طرح مہنگے تعلیمی ادارے میں تعلیم دلائی ۔ یہاں اعلی عہدیداروں کے بچوں کی امریکہ ،برطانیہ اور دوسرے مغربی ملکوں کے تعلیمی اداروں میں لائین لگی ہوئی ہے کسی کی جرات نہیں کہ منی ٹریل مانگ سکے ۔

جنرل مشرف کے برطانیوی اکاوئنٹس میں موجود رقم کی منی ٹریل نہیں مانگی جاتی لیکن منتخب وزیراعظم کے لندن فلیٹ پر کہرام مچا دیا جاتا ہے ۔
کیا ایسی ریاست مہذب اور قابل فخر ہو سکتی ہے جہاں ریاست کے سابق صدر کو میڈیا کے پالتو کتوں کے ذریعے رسوا کیا جائے اور کبھی فالودے والے کے اکاؤئنٹس اور کبھی مسٹر ٹین پرسنٹ کا نام دیا جائے ۔کبھی اس پر محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کا الزام دھرا جائے اور جواز دیا جائے کہ بی بی کے قتل کا فائدہ کس کو ہوا اور کبھی سینٹ الیکشن میں اس کے پاوں پکڑ کر اپنا چیرمین سینٹ منتخب کرایا جائے ۔

کیا ایسی ریاست قوموں میں باوقار مقام حاصل کر سکتی ہے جہاں ریاست کے منتخب سابق وزیراعظم اور صدر کو “ڈیل پر مجبور کرنے کیلئے قید کر لیا جائے اور ایک کو اس کی موت کے خوف سے علاج کیلئے باہر بھیج دیا جائے اور دوسرے کو عدالتوں میں ضمانتیں دے کر راضی کرنے کی کوشش کی جائے کہ اپوزیشن کو کمزور کیا جا سکے ۔

افغان پالیسی نے چالیس سال کے دوران ملک میں آگ اور خون کی فصل بو دی ۔ انتہا پسندی کا جن بوتل سے نکال دیا ۔آج افغان پالیسی کے ثمرات یہ ہیں کہ دنیا کا کوئی ایک ملک بھی افغان طالبان کے ساتھ نہیں اور نہ پاکستان کی افغان پالیسی کے ساتھ ۔مہذب دنیا افغان حکومت کے ساتھ تھی اور اب کامیابی کے بعد افغان طالبان کے پاس صرف خانہ جنگی کی آپشن بچی ہے اور پاکستان کے پاس دیوالیہ معیشت ۔

کون اس پالیسی کی ناکامیوں کا جواب دے گا ۔ جس دن ناکام افغان پالیسی کے زمہ داران کا احتساب شروع ہو گا اس دن پاکستان طاقتور مہذب جمہوری ریاست بننے کی طرف سفر بھی شروع کر دے گا۔

ایٹمی صلاحیت کے حصول کے بعد پاکستان کا دفاع محفوظ ہو گیا تھا ۔وطن سے محبت کا تقاضا تھا کہ ایٹمی صلاحیت کے حصول کے بعد معیشت پر فوکس کیا جاتا ۔بھارت سمیت خطہ کے تمام ممالک سے دوستی کو خارجہ پالیسی کی بنیاد بنایا جاتا اور پاکستان کو جنوبی ایشیا کا طاقتور معیشت کا حامل ملک بنانے کی جدوجہد کی جاتی۔

واجپائی نے مینار پاکستان پر پاکستان کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا لیکن اس تاریخی موقع کو کارگل کے ذریعے برباد کر دیا گیا، ستم یہ کہ کارگل کی تحقیقات کی بجائے منتخب وزیراعظم کی حکومت ہی برطرف کر دی گئی جس طرح جونیجو حکومت اوجڑی کیمپ کی تحقیقات کی کوشش پر برطرف کی گئی تھی ‘کیا ریاستیں اس طرح طاقتور بنتی ہیں ؟

کشمیر پالیسی نے پاکستان کو سیکورٹی ریاست بنا دیا ہے اس پالیسی کا عبرت ناک انجام یہ ہے کہ بھارتیوں نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے ایٹمی صلاحیت کو ہی بلف ثابت کر دیا ہے ۔ اب ہاتھ میں صرف نغمے ہیں کہ” بھارت پلیز کشمیر سے نکل جا” یا پھر پانچ فروری کی چھٹی ۔

آج ہم اس مقام پر آن کھڑے ہوئے ہیں کہ افغان اور کشمیر پالیسی نے دنیا میں ہمیں اچھوت بنا کر رکھ دیا ہے ۔ایٹمی ریاست کے جہاز ضبط ہوتے ہیں ۔ریکو ڈیک کے جرمانے کی ادائیگی کی سکت نہیں اور بیرون ملک ریاست کے اثاثے ضبط ہونے کی تلوار سر پر منڈلا رہی ہے ۔سفارتخانوں کے کمرشل اکاوئنٹس میں پیسے اس مقصد کیلئے جمع کرائے جاتے ہیں کہ کسی غیر ملکی عدالت کے کسی ممکنہ فیصلے کے نتیجے میں ضبط ہو سکیں ۔ کیا اس ملک پر غدار قابض ہیں یا محب وطن قوتیں خاموش کر دی گئی ہیں ۔
چاروں صوبوں کی عوامی لیڈر شپ غدار ،ملک دشمن اور کرپٹ قرار دے دی گئی ہے ۔

آصف علی زرداری کرپٹ اور غدار لیکن آجکل پھر پاوں پکڑ کر مسلم۔لیگ ن سے معاملات طے کرانے کی درخواست کی جاتی ہے بھلے تحریک عدم سے “پلیز بوجھ سے نجات دلا دیں ” ۔
نواز شریف کرپٹ اور مودی کا یار لیکن قاصد بھیجے جاتے ہیں کہ” پلیز ڈیل “۔

پختون تحفظ موومنٹ غدار ،اچکزئی غدار،عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت ہمیشہ کی غدار اور ملک کو معاشی تباہی سے دوچار کرنے والے ،عالمی برادری میں تنہا کرنے والے اور بھکاری بنانے والے محب وطن ۔

اقوام متحدہ بھارت سے کرونا ویکسین کی ایک ارب ڈوز لے رہی تھیاور ہم میزائلوں کے تجربے کر رہے تھے۔ تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے پیسے نہیں نوٹ چھاپ کر ملک چلا رہے ہیں اور زعم یہ کہ ہم محب وطن ہیں ۔

غیر ملکی سرمایہ کار پہلے بھاگ گئے اور ملکی سرمایہ کار اپنے اثاثے بیرون ملک بھیجنے کے نت نئے طریقوں پر عمل کر رہے ہیں اور یہاں ستو پی کر خراٹوں والے خواب چل رہے ہیں کہ ہم نے تو ریٹائر ہو کر ثاقب نثار اور کھوسہ کی طرح غائب ہو جانا ہے ہمیں ملک کے مستقبل سے کیا۔

یہ ملک ہے تو سب کچھ ہے ۔ریٹائرمنٹ کے بعد مربعے اور پلاٹ بھی ملک رہے گا تو ملیں گے ۔انصاف کی مسند پر بیٹھ کر انصاف فروخت کرنے اور اپنی نسلیں سنوارنے کے مواقع تب تک ہیں جب تک یہ ملک قائم ہے ۔  اینکرز کو راتب بھی تب تک ملے گا جب تک ملک قائم ہے ۔ معاشی بحران سوویت یونین ایسی طاقتور فوجی ریاست کھا گیا تھا ۔وفاق کی چاروں اکائیوں میں بے چینی اور افراتفری ہے ۔غربت ،بے روزگاری اور معاشی بحران ہے ۔عوام اداروں کے خلاف باتیں کرنے لگے ہیں ۔

ملک بچانا ہے ۔ مہذب طاقتور جمہوری ریاست بننا ہے تو جوابدہی کا موثر نظام نافذ کرنا ہی پڑے گا ۔ غلط پالیساں بنانے والوں کو جواب دہ بنانا ہی ہو گا ۔قومی اتحاد اور یکجہتی کیلئے “غداروں”کو حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دینے کے علاوہ قابل عزت واپسی کا کوئی راستہ موجود نہیں ۔میڈیا کو آزادی دینا ہی پڑے گی تاکہ سچ اور جھوٹ کی خبر سب تک پہنچ سکے ۔ففتھ جنریشن وار کے نام پر ہزاروں جعلی اکاوئنٹس کے ذریعے جھوٹ ،دھوکہ اور فراڈ کا لگایا بازار بند کرنا ہی پڑے گا ۔سوشل میڈیا کے  ذریعے ریاستیں ترقی کرتیں اور ادارے مضبوط ہوتے تو دنیا کارخانے لگانے کی بجائے اپنی نوجوان نسل کو لیپ ٹاپ پر بٹھا دیتی جس طرح ہمارے لال بجھکڑوں نے بٹھایا ہوا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

صرف کہانیوں میں سنا تھا کہ سانپ اپنی نسل کھا جاتا ہے کیا ہم سانپ بن چکے ہیں جو اپنی نئی نسل کو جھوٹ،دھوکہ اور فراڈ کے زریعے کھا رہے ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply