• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • آئینی حقوق و ذمہ داریوں کے نام پر سیاسی شبِ خون/ڈاکٹر ابرار ماجد

آئینی حقوق و ذمہ داریوں کے نام پر سیاسی شبِ خون/ڈاکٹر ابرار ماجد

ہر کوئی اپنے آئینی حقوق کی بات تو کرتا ہے مگر جب آئینی ذمہ داریوں کی بات آتی ہے تو آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ ہمارے سیاستدان آئین و قانون کی پاسداری میں ناکامی پر دوسروں کی نشاندہی تو کرتے ہیں مگر جب ان کے دور طاقت و اختیارات کی بات ہو تو پھر توجیحات پیش کرنے لگتے ہیں۔

آج کوئی بھی پاکستان کی سیاسی جماعت یہ نہیں کہہ سکتی کہ اس کو موقع نہیں ملا حتیٰ کہ تحریک انصاف کے پاس بھی اب کوئی بہانہ باقی نہیں رہا۔ آج وہ بھی آئینی حقوق کی بات کرتے نہیں تھکتے مگر کیا پچھلے پونے چار سالہ حکمرانی کے دور میں انہوں نے اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کی ہیں یا دوسرے کے حقوق کی پاسداری کی ہے جس کا جواب ان کے پاس بھی نہیں۔ کس طرح ان کے دور اقتدار میں انتقامی کاروائیاں ہوتی رہیں اور صحافت پر قدغن لگائے جاتے رہے۔ صحافیوں پر جبر و تشدد کسی سے بھی چھپا ڈھکا نہیں۔

ان کا دو ہزار اٹھارہ میں حکومت کا حصول بذات خود غیرآئینی سہولیات بارے اپنی ہی گواہیوں سے بھرا پڑا ہے تو کیا اب ان کے پاس آئینی حقوق کے دعوے کا کوئی اخلاقی جواز باقی ہے؟ اسی طرح موجودہ کثیرالجماعتی حکومت نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جمہوری حکومت نے تین روز تک انٹرنیٹ کو بند رکھا اس سے نہ صرف شہریوں کے بنیادی حق اظہار رائے کی خلاف ورزی ہوئی بلکہ غربت اور بےروزگاری کے مارے عوام کے کاروبار بھی بری طرح سے متاثر رہے۔

اسی طرح سیاست میں جمہوریت کے ہر کوئی گن تو گاتا ہے مگر جب اپنی باری آئے تو کسی کے پاس اپنی جماعتوں کے اندر بھی جمہوریت کی کوئی مثال دکھانے کے لئے موجود نہیں مگر قومی جمہوریت کے سب ٹھیکیدار بنے بیٹھے ہیں۔ پارلیمان کے اندر اپنے اختلافات پر بات کرنے کا نہ حوصلہ ہے اور نہ دوسرے کی رائے کو سننے کی برداشت۔ اپنے سیاسی معاملات کو پارلیمان سے اٹھا کر چوک چوراہوں میں طے کرنے پر بضد ہیں اور ریاستی اداروں کو ثالثی کی دعوتیں دے رہے ہیں۔ اپنے اندر سیاست کرنے کی نہ تربیت ہے اور نہ ہی صلاحیتیں ہیں اور الزام ریاستی اداروں پر لگاتے نہیں تھکتے۔

اپنے پارلیمانی اختیارات کو اپنی خواہشات اور مفادات کی خاطر استعمال کرتے ہوئے ذرا بھی نہیں کتراتے اور ماضی میں جن آئینی کوتاہیوں پر دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتے رہے ہیں اب انہی کے خود مرتکب ٹھہر رہے ہیں۔ آٹھویں ترمیم کے ذریعے سے صدر کے اسمبلیوں کو توڑنے کے اختیار کو ختم کیا گیا کہ اس سے اسمبلیاں اپنی مدت پوری نہیں کر پاتیں اور اب تحریک انصاف نے پہلے قومی اسمبلی میں اس اختیار کو استعمال کیا اور جب وہاں کوئی بس نہ چلا تو پھر اپنی ہی صوبائی حکومتوں کو ختم کر دیا تاکہ اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری نہ کر پائے اور ساتھ ہی یہ اعتراف بھی کر لیا کہ انہوں کس کس کی خواہش پر ایسا کیا۔

جو کام غیرآئینی طاقتیں کرتی تھیں وہ اب ان سیاستدانوں کے ہاتھوں کروا کے ان کو نااہل ثابت کیا جا رہا ہے۔ اس سے بڑی جمہوریت پر شب خون مارنے کی کیا دلیل ہو سکتی ہے۔ اب اپنی ذمہ داریوں میں ناکامی اور کوتاہیوں پر شرمندگی کی بجائے اپنے اسمبلیوں کی معطلی کے اختیارات کے استعمال کا آئینی جواز اٹھائے کبھی ہائیکورٹ تو کبھی سپریم کورٹ دھکے کھا رہے ہیں اور کبھی عسکری ادارے کے سربراہ کو دوبارہ انتخابات کے انعقاد کے لئے منتیں سماجتیں کرتے پھرتے ہیں۔

تو ان سے سوال یہ بنتا ہے کہ اگر انہوں نے اپنے آئینی اختیار کے استعمال سے اسمبلیاں توڑی ہیں تو اٹھارویں ترمیم سے قبل اسمبلیاں آئینی اختیارات کے استعمال سے ختم نہیں کی جاتی تھیں؟ کیا اس وقت بھی آئینی صدارتی عہدے کی طاقت اور اختیارات کے استعمال کے ذریعے سے جمہوریت کو سبوتاژ نہیں کیا جاتا تھا؟ کیا اس وقت عدالتوں کے ذریعے سے نظریوں اور آئین کی پاسداری کے سہارے تلاش نہیں کئے جاتے تھے؟ وہی سوچیں ہیں اور وہی عمل فرق صرف مختلف چہروں کا ہے۔ کیا عدالت عظمیٰ سے انصاف کی فراہمی کا عمل کوئی اچھا تاثر پیش کر رہا ہے۔

دوسری طرف پہلے انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کے حربوں کے الزامات فوجی آمریت اور عدالتی تسلط پر لگائے جاتے تھے اور اب وہی سارے بندوبست ایک پارلیمان میں عوامی نمائندوں کی کابینہ سر انجام دے رہی ہے اور پچھتر سالوں کی قومی غلطیوں میں اپنا حصہ ڈالنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت ریاست کے بیرونی ستون لڑکھڑاہٹ کا شکار ہوتے تھے اور اب مرکزی ستون ہی ڈولنا شروع ہوگیا ہے۔ اُس وقت بھی غیر جمہوری، غیر سیاسی اور غیر آئینی اقدامات کے جواز میں نظریات اور توجیحات ان کے پاس موجود تھیں اور وہ آج ان کے پاس بھی ہیں۔

نہ اس وقت کوئی سیاسی، جمہوری یا قانونی علم کے تقاضوں سے ہم آہنگ جواز سیاسی جماعتوں سمیت ریاستی اداروں کے پاس موجود تھا اور نہ ہی آج۔ ہر بار ملک قوم کے نام پر کبھی معاشی تباہی تو کبھی ملک و قوم کے ساتھ غداری کے الزامات کے پیچھے چھپ کر جمہوریت پر شب خون مارنے کی کوشش کیجاتی رہی ہے۔ نہ اس وقت سیاستدان اس سارے کھیل سے اپنے آپ کو بے دخل قرار دے سکتے تھے اور نہ آج۔ اُس وقت بھی سیاستدان اپنا کندھا مہیا کرنے میں پیش پیش رہے اور آج بھی اپنی اپنی باری کے لئے بےچین لائنوں میں کھڑے غیر آئینی اور غیر جمہوری طاقتوں کا منہ دیکھ رہے ہیں۔

موجودہ سیاسی کشمکش کی صورتحال میں کسی کا رویہ بھی جمہوری نہیں کوئی اقتدار بچانے کی کوشش میں ہے تو کوئی اقتدار چھیننے کی کوشش میں لگا ہے۔ جمہوریت کا یہ انداز نہیں کہ لوگوں کے بنیادی حقوق کو سلب کر لیا جائے یا ملکی املاک کو نقصان پہنچایا جائے۔ اس سے تو یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جس کو بھی جتنا اختیار یا طاقت میسر ہے وہ اپنی سوچ و عمل کے مطابق اپنی خواہشوں کی تکمیل کے لئے اس کا استعمال کر رہا ہے۔ کسی کو بھی ملک و قوم کے مفادات سے کوئی غرض نہیں بلکہ وہ ملک و قوم کے نام پر اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لئے کوشاں ہیں۔

قوم کو ہمیشہ سے نظاموں کی ناکامی کی بتی کے پیچھے لگا کر اس میں تبدیلی کے دھوکے میں رکھا گیا۔ قوم بھی اپنے فروعی اختلافات اور ذاتی مفادات کی سوچوں میں غرق ان دھوکوں میں پڑی رہی۔ جس کی وجہ سے عوام نہ تو قومی مفادات پر قائم کسی نظریے یا منشور پر متحد ہو کر قومی یگانگت کا ثبوت دے سکی اور نہ ہی کوئی ایسا قائد پیدا کر سکی جو قوم کی راہنمائی کر سکے۔ ہمیں نظام کو نہیں سماج کو بدلنے کی ضرورت ہے اور یہی تبدیلی کا صحیح ماڈل ہے۔

جمہوریت کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کے لئے سیاسی شعور اور اعلیٰ اخلاقیات کا ہونا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔

قائدین کہیں سے دریافت یا درآمد نہیں ہوتے بلکہ اُسی قوم کے اندر پیدا ہوتے ہیں اور قومیں خود ہی ان کی تعلیم و تربیت سے ان کو تیار کرتی ہیں، ان کے کردار کا بھی تعین کرتی ہیں اور پھر ان کی راہنمائی میں انقلابوں کے راہیں نکالتی ہیں بلکہ قائدین کی راہنمائی میں اپنی کامیابیوں کو مال و جان کی قربانیوں سے ہمکنار کرواتی ہیں۔ اور بدقسمت قومیں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کسی مسیحا کا انتظار کرتی رہتی ہیں جو سلسلہ اب ختم ہو چکا ہے، ہدایت موجود ہے جس پر غور و فکر اور سوچ و عمل کے ذریعے سے اپنی قسمتوں کو بنانے کی ضرورت ہے۔

افسوس تو اس بات پر ہے کہ نہ فوجی آمریت اور عدالتوں کا نظریاتی تسلط ہی اس قوم کو کوئی ماوؤزے تنگ دے سکا اور نہ ہی جمہوریت کے نام پر نام نہاد سیاسی جماعتوں کی عوامی حکومتوں کا بندوبست کوئی نیلسن منڈیلا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہر کوئی اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کرکے اپنے حقوق کے دعوؤں کا اخلاقی جواز پیش کرے تب اس کے مطالبے میں وزن بھی ہوگا اور اس کا اثر بھی وگرنہ یہ آئینی حقوق و ذمہ داریوں کے نام پر جمہوریت کے اوپر سیاسی شب خون مارنے کا کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply