سازشیں سونگھنے والےسیاستدان

سازشیں سونگھنے والےسیاستدان
طاہر یاسین طاہر
تربیت اپنا اثر لاتی ہے،سیاسی تربیت یہی ہے کہ جو ذاتی و پارٹی مفاد کے خلااف ہو ،اسے سازش کہہ کے رد کر دیں۔سیاسیات کے طالب علم جانتے ہیں کہ جامعات میں اپنا سکہ جمانے والی “طلبا تنظیموں “نے جتنے بھی سیاستدان قومی سیاسی منڈی میں چھوڑے، سب کے سب سازشین سونگھنے میں ماہر ہیں۔خود کار اسلام پسند،خود کار جمہوریت پرست،خود کار مجاہدین،خود کار محب وطن،کیا کچھ نہیں تراشا گیا۔تاریخ کی صرف آنکھیں ہوتی ہیں۔جو دیکھتی ہے محفوظ کر لیتی ہے۔ہماری سیاسی تاریخ اس امر پہ گواہ ہے کہ سیاستدانوں نے ہمیشہ اپنے مفادات کے خلاف چلنے والی ہواوں کو کبھی یہود و ہنود اور نصاریٰ کی سازشیں کہا، تو کبھی،جمہوریت کے خلاف آمریت کی سازشیں کہہ کر اپنے مفادات کے لیےسینہ سپر ہوئے۔بد قسمتی سے یہ مجموعی قومی مزاج بن چکا ہے کہ ہمارے خلاف ساری دنیا سازشیں کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کا اس سے آسان اور کم تر نسخہ اور کوئی نہیں۔
سماجی حرکیات اور سیاسی تماشوں پہ نظر رکھنے والے اخبار نویس جانتے ہیں کہ مفادات کے اس کھیل میں سب نے اپنے اپنے” گھوڑے “چھوڑ رکھے ہیں، جو ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کو بے تاب ہیں۔کچھ مسلسل اور سر پٹ دوڑ رہے ہیں،کچھ تھوڑے دوڑتے ہیں ،پھر تھک کے بیٹھ جاتے ہیں،وقفہ کرتے ہیں اور پھر گرد اڑاتے ہیں۔یہ تماشا عشروں سے جاری ہے۔سیاست میں وفاداری نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ سب مفادات کا کھیل ہے۔عام سیاسی جماعتیں اپنے انداز میں مذہب اور وطن پرستی،اور شخصیت پرستی کو بیچتی ہیں، مذہبی سیاسی جماعتیں ذرا دوسرے رنگ میں۔یہ ہمارا عام مشاہدہ ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ مذہبی جذبات کو انگیخت کر کے فرقہ وارانہ طرز پہ” سیاسی فرقہ واریت” کو ہوا دی۔ کبھی کہا جاتا کہ عورت کی حکمرانی حرام ہے،کبھی کہا جاتا کہ اسلام خطرے میں ہے۔ کبھی کہہ دیتے ہیں کہ دینی تعلیمی اداروں، یعنی مدارس کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں،کبھی مغربی ثقافت اور امریکی سازشوں کو بھی “فقیر صفت” مولوی و علما کشف کر لیتے ہیں۔ان کا ذاتی و خاندانی فہم پورے سماج پہ مسلط نہ ہو سکے ،ریاست رکاوٹ بنے تو یہ کہتے ہیں کہ اسلام کے خلاف سازشوں میں ریاست ہمنوا بن گئی ہے۔
یہ طرزفکر عام سیاسی افراد اور سینئیر سیاستدانوں تک میں مشترک ہے۔کوئی پوچھے کہ حضور آپ اس عمر میں اگر سینیٹر بن بھی گئے تو کیا کریں گے؟سیاست میں مفادات ہوتے ہیں۔ سماجی حیات کے طالب علم اور عام افراد ایک ہی پریس کانفرنس کو دو مختلف زاویہ نظر سے دیکھتے ہیں۔سماج کے مجموعی سیاسی شعور پر اس وقت دو فکری رویے اثر انداز ہونے کی کوشش میں ہیں۔عمران خان،جو کرپشن کے خلاف ایک زوردار آواز بنے۔ اگرچہ ان کے طریق اور رویے پہ بات ہو سکتی ہے۔ مگر انھوں نے جس طرح پانامہ لیکس کیس کو سڑکوں، اسمبلی ،سپریم کورٹ اور پھر اسی عدالت کے ذریعے جے آئی ٹی میں لا کر قومی رہنماوں کی غلط بیانیوں کو بے نقاب کرایا،یہ سب لائق تحسین ہے۔عمران خان کے طرز سیاست اور بدلہ لینے کی روش سے اختلاف ممکن ہے ،سیاسی جماعت کے سربراہ کا رویہ ہٹ دھرمی سے پاک ہونا چاہیے کہ اسی میں بقا ہے۔دوسرا فکری رویہ،نون لیگ ،بالخصوص شریف خاندان کو معصوم عن الخطا ثابت کرنے کا ہے۔ دونوں رویوں کے ترجمان اپنی اپنی بساط اور فکری استعداد کے مطابق میدان میں حاضر ہیں۔یہ قوم کے مجموعی سیاسی و سماجی شعور کا بھی امتحان ہے کہ،ہر دو فکری رویوں میں سے اپنے ذہن کے سیاسی افق پہ کسے طلوع کرتے ہیں۔عمران اور ان کے رفقا نے جے آئی ٹی کے ذریعے ثابت کر دیا کہ گڑ بڑ ہے۔
پاکستان مسلم لیگ نون کی فرنٹ لائن قیادت وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے دفاع کے لیے میدان میں ہے۔ اس سے قبل تیسری صف کے سیاستدانوں کو میدان میں اتارا گیا تھا۔یہ سارے حربے سیاسی مفادات کا حصہ ہوتے ہیں۔نون لیگ نے جے آئی ٹی رپورٹ کو ردی کا ڈھیر کہہ کر مسترد کر دیا ہے۔تسلسل سے نون لیگی کہہ رہے ہیں کہ حکومت کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ مریم نواز جس دن جے آئی ٹی میں پیش ہوئیں تو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ، ڈرو اس دن سے جس دن وزیر اعظم قوم کو سازش کرنے والوں کے بارے میں بتا دیں۔وزیر اعظم اب بتائیں نا،کیوں نہیں بتا رہے؟سادہ بات یہی ہے کہ براہِ راست عدلیہ اور فوج کو مخاطب کیا جاتا رہا کہ یہ دونوں ادارے مل کر حکومت کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔تازہ فرمان یہ ہے کہ حکومت کے خلاف سازش کرنے والے ہدایت کار بیرون ملک، جبکہ اداکار ملک کے اندر ہیں۔سازشیں نہیں ، نون لیگ کے اندرونی دھڑے ایک دوسرے کو بے کار کرنے پہ تلے ہوئے ہیں۔اپوزیشن کا تو خیر یہ کام ہوتا ہے کہ وہ حکومتی کمزوریوں کی نشاندہی کرے۔میاں نواز شریف کے نئے و پرانے سیاسی حلیف میدان میں ہیں۔انتہا پسندی و فتنہ گری کے نقشہ کار آمر کی کابینہ سے سیاسی وزارتوں کا سفر شروع کرنے والے جاوید ہاشمی نے ملتان میں پریس کانفرنس کر کے ایک بار پھر سازش تلاش کی اور یہ بھی کہا کہ کوئی جج اور جرنیل صادق اور امین نہیں۔یہ بھی کہا کہ جرنیلوں کی زمینیں آسٹریلیا،نیوزی لینڈ،دبئی و امریکہ میں ہیں، انھیں کون پوچھے گا؟ایک اور سوال انھوں نے اٹھایا کہ آئی ایس آئی کے سارے سابق افسران امریکہ جا کے نوکری کرتے ہیں ،آخر کیوں؟یہ وہی جاوید ہاشمی صاحب ہیں،جنھیں عمران خان کے دھرنے کے فیصلہ کن مرحلے پر سپریم کورٹ اور پنڈی کے اشتراک سے سازش کی بو آ گئی تھی۔
سوال یہ ہے کہ،ججز اور جرنیلوں نے ریٹائرڈ ہونے کے بعد کہاں رہنا ہے؟انھوں نے زمینیں کہاں کہاں خریدنی ہیں؟اس کے لیے آپ جس اسمبلی میں بیٹھا کرتے تھے اس نے کوئی پالیسی دی ہوئی ہے؟آپ کو ساری آمریت مشرف میں ہی نظر کیوں آتی ہے؟ججز اور جرنیلوں کاا حتساب کس نے کرنا ہے؟ پارلیمان نے، اور پارلیمان والے کس کے سہارے تلاش کرتے وہاں تک پہنچتے ہیں؟آپ بہتر جانتے ہیں کہ آپ بھی اسی راہ کے مسافر ہیں۔
سازش کو ئی نہیں ہوتی، جناب اعمال ہوتے ہیں جو رسوا کراتے ہیں۔حکمران کے بارے تو سخت احکامات ہیں،اب سازش کے متلاشیوں کے ہاتھ نئی گرہ بھی آ چکی ہے۔فرماتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کا اشتراک سی پیک کے خلاف سازش ہے۔ مولانا صاحب آپ جنرل مشرف کی چھاوں میں صوبائی حکومت بنائیں، اپوزیشن لیڈر کے مزے بھی لیں،تو یہ سب دین و ملک کی بقا کے لیے ہے، آپ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر پانچ سال اشتراکی حکومت کریں تو اس سے ملک و جمہوریت کو توانائی ملتی ہے، اور آج آپ کی اتحادی حکومت کے سربراہ خاندان کو خطرہ ہے تو اس میں سی پیک اور ملک و ملت کے لیے خطرات کہاں سے آگئے؟کیا آپ کو پسند نہ آنے والا ہر عمل سازش ہی ہوتا ہے؟ کیا جامعہ حقانیہ اکوڑہ ختک کو گذشتہ برس دی جانے والی چار کروڑ کی خیرات بھی سازش تھی؟اگرچہ اس عمل کی اپنی” عمرانی سیاسی “وجوھات ہیں، مگر ہر چیز نہ تو یہود و ہنود کی سازش ہوتی ہے اور نہ سی پیک کے خلاف کوئی محاذ۔ ملک کسی مستند اور مستقل وزیر خارجہ کے بغیر چل رہا ہے، یہ کس کی سازش ہے؟یہ اکیسویں صدی ہے،1970 کا زمانہ نہیں کہ سیاستدان سازش،سازش کی گردان کہہ کر نئی نسل کی سیاسی فکر کو یرغمال بنا لیں گے۔ ہر چیز آشکار ہے،سازش بھی اور مفادات بھی۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply