شیعت کو درپیش چیلنجز/ابوجون رضا

برصغیر کا مسلمان ایک الگ ہی سوچ کا حامل ہے۔ اس کا خمیر ہی الگ مٹی سے اٹھا ہے۔ یہ مختلف فرقوں میں بٹا ہوا ہے ۔ ہر فرقہ سے تعلق رکھنے والا خود کو سب سے اعلیٰ مسلمان سمجھتا ہے اور دوسرے کو گنوار اور جاہل گردانتا ہے۔

اہل حدیث سلف کی پیروی کا راگ الاپتے ہیں تو بریلوی خود کو سب سے بڑا عاشق رسول سمجھتے ہیں۔ شیعوں کا دعویٰ ہے کہ اہل بیت کا ٹینڈر ان کے نام کھلا ہے۔ یہ لوگ پورا سال ایک دوسرے کا مضحکہ اڑاتے ہیں ۔ سال کے مختلف مہینے اور ایام مختلف فرقوں نے بانٹے ہوئے ہیں۔ ان ایام کی آمد پر برساتی مینڈکوں کی طرح لوگ نکل آتے ہیں اور اپنے عمل سے بتاتے ہیں کہ ان کے “دن” آگئے ہیں۔

محرم کے آغاز سے ناصبی ٹولہ سرگرم ہوتا ہے۔ آج کل پورا زور اس بات پر صَرف کیا جا رہا ہے کہ اہل بیت کا مقام کسی طرح لوگوں کی نظروں میں گرا دیا جائے۔

ایک معروف کالم نگار جن کی تحریروں کو میں بھی شوق سے پڑھتا ہوں، انہوں نے محرم کے آغاز پر سوال اٹھایا کہ کیا نسبی استحقاق ہونا کسی فضیلت کا حامل ہے؟

ایک طرف یہ سوال اٹھایا گیا کہ امام حسین اگر حکومت کرتے اور کوئی باغی گروہ ان کے خلاف کھڑا ہوتا تو کیا وہ پلیٹ میں رکھ کر حکومت اس کو پیش کردیتے؟

ان سوالات کے جوابات برادران اہلسنت نے بہت زبردست انداز میں دیے ہیں جن سے ان کی اہلبیت سے محبت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اللہ ان کو جزائے خیر دے۔

دوسری طرف ایک معروف سیاسی شیعہ عالم ہیں جو ہر سال اعلان کرتے ہیں کہ ہم عزاداری سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ عزاداری ہماری شہ رگ حیات ہے۔

سوال یہ ہے کہ عزاداری سے ایک انچ آپ کب پیچھے ہٹے؟ بلکہ ہر سال عزاداری کچھ ہاتھ اور آگے بڑھ جاتی ہے۔

مختلف علاقوں سے نئے نئے جلوس نکلتے ہیں۔ روڈ بلاک کر کے مجالس منعقد کی جاتی ہیں۔ سڑک کے دونوں طرف سبیلیں لگا کر بڑے بڑے اسپیکرز پر نوحے بجائے جاتے ہیں۔ جن سے کان پھاڑ دینے  والی آوازیں نشر ہوتی ہیں۔

ایک نئی رسم مشی کے نام پر کچھ سالوں سے شروع ہوئی ہے۔ جس میں لوگوں کی ٹولیاں گٹر گڈھے پھاندتی ہوئی اپنے گھر سے شہر کے مرکزی جلوس کی طرف جاتی ہیں اور اس میں شریک ہوتی ہیں۔

آٹھ ربیع الاول کا جلوس اور اربعین کا جلوس جس دن حکومت کی طرف سے چھٹی نہیں ہوتی ، ایک عذاب الہی کی طرح لوگوں پر نازل ہوتا ہے۔ ٹریفک جام ، روڈ بند، عوام کے لیے مصیبت کے  ایام ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ ایام فاطمیہ منائے جا رہے ہیں جو سال میں دو مرتبہ منعقد ہونے لگے ہیں ۔ ان میں بنیاد پرست شیعہ مجالس برپا کرتے ہیں۔ اب جلوس بھی بہت کم تعداد میں سہی مگر ان ایام میں نکالے جانے لگے ہیں ۔ شادی بیاہ شاپنگ سب ان دنوں میں موقوف ہوتا ہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ اصلاح ہونی چاہیے مگر عزاداری نہ رکے۔ میں سوال اٹھاتا ہوں کہ شیعت کے اندر موجود خرابیاں ایک الگ بات ہے اس پر شیعہ اصلاح پسند گروہ سارا سال بات کرتا ہے، سردست اقلیت جو اکثریت کو تکلیف پہنچا رہی ہے اس کا سد باب کس طرح سے ہوگا؟

کیا رسومات کی بھرمار اہلبیت سے محبت رکھنے والے اور ان کا دفاع کرنے والوں کو ان سے متنفر نہیں کرے گی؟

میں نے شیعہ گھرانے میں آنکھ کھولی اور مذہبی حوالے سے میں بہت زیادہ سوشل رہا ہوں۔ میں نے آج تک ایک مجلس میں یہ نہیں سنا کہ ہم عزاداری اس طرح سے برپا کریں گے کہ کسی کو تکلیف نہیں ہوگی۔

جو سوال میں گراؤنڈ لیول پر اٹھا رہا ہوں وہ صاحب منبر سے کب پوچھا جائے گا؟

Advertisements
julia rana solicitors

صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply