مرمیکوفل/ناصر خان ناصر

ہمارے پیارے دوست افتی نے جہاں افسانوں اور شاعری کی اپنی کئی  کتابیں زیور طبع سے سرفراز فرمائیں، وہیں بہ زبان انگلش ایک کتاب مرمیکوفل بھی تحریر کی۔ اس کتاب کو شکاگو کی کسی یونیورسٹی میں پڑھایا جاتا رہا ہے۔

افتی صاحب ہمارے بہت بے تکلف دوست تھے۔ وہ متعدد بار ہمارے پاس نیو اورلینز میں رونق افزا بھی ہوئے اور ہم بھی ان سے ملنے اپنے پیارے دوست جناب خالد خواجہ صاحب کے ہمراہ شکاگو گئے تھے۔

ہماری پہلی کتاب کا دیباچہ بھی افتی صاحب نے کمال مہربانی سے تحریر فرمایا۔ ہماری دوسری کتاب کا نام “آئینہ خانہ دہر” بھی انھوں ہی نے تجویز کیا تھا۔ ایک دہائی  قبل جب  ہم نے نیویارک کے اردو اخبار پاکستان ایکسپریس اور لاس اینجلس کے اردو اخبار اردو لنک کے لیے ہفتہ وار کالمز لکھنے شروع کیے تو افتی صاحب نے متعدد مرتبہ ہمیں کال کر کے ہماری بے حد حوصلہ افزائی  فرمائی۔

افتی یاروں کے یار تھے اور وہ جہاں ایک طرف صاحب طرز جینوین و منفرد لکھنے والوں کے بہت بڑے قدر دان تھے، وہیں دوسری طرف نمبر دو لکھاریوں اور شاعروں کی بیخ کنی کے لیے ایک ننگی تلوار کی مانند تھے۔

وہ ہم پر بہت نظر عنایت فرمایا کرتے تھے اور تقریبا ً ہر ہفتے ہی ہم سے بات چیت کیا کرتے تھے۔

محترم سب دوستوں کے لئے مادہ صیغہ گفتگو استعمال کرنے کے عادی تھے۔ ہمارا نام انھوں نے ٹھوس اردو لکھنے کی بنا پر امراؤ جان ادا   رکھا ہوا تھا۔ اور تو اور انھوں نے ایک مشہور شاعر جو نیک صفت ریورینڈ اور پادری بھی ہیں، تک کو نہ بخشا۔ ان کا نام گشتی رکھ دیا تھا۔ محترمہ ریحانہ قمر صاحبہ، محترمہ ریحانہ روحی صاحبہ، محترم عدیم ہاشمی  صاحب ، جناب عباس تابش صاحب سے لے کر پاک و ہند کا کوئی  معتبر نام ان کے تیر ِ ظرافت سے کبھی نہ بچ سکا۔ ہر بات سنانے کے بعد ان کا پیٹ فقرہ”فیر ہور سناؤ، کیہہ ہو ریا اے” اور بڑا سا قہقہہ ابھی بھی کانوں میں گونجتا ہے تو آنکھوں میں نمی خود بخود آ جاتی ہے۔ افتی نے ادبی پھکڑ نامی دو تحریریں لکھیں تو سب سے پہلے ہمیں سنائیں۔ ہمارے مشورے پر چند مشہور ہستیوں کے بارے میں کچھ “ہتھ ہولا ” بھی کیا۔

ہائے کیا کیا مزے کی باتیں جو ہم بالغ سے بھی زیادہ بالغوں کے لئے ہونے کی بِنا پر لکھ بھی نہیں سکتے۔ انھوں نے کسی ادبی شخصیت کا لحاظ کیا نہ کوئی شرم، سب کی حسب مراتب دهجیاں اڑائیں اور خوب جی بھر بھر کر اڑائیں۔

زندگی سے بڑی کسی شخصیت کے بارے میں، میں جب بھی سوچوں تو الزبتھ ٹیلر اور افتی ہی کی صورت نگاہوں میں بسنے لگتی ہے۔ اپنی پیدائش کا ماجرا انھوں نے خود کہہ چھوڑا ہے جب درد زہ سہتی رات نے کڑوے لڈو بانٹ کر اپنے سوگ ہواؤں میں بکھیر دیے تھے۔ جب دھوپ آندھیوں میں اندھیرے دئیے جلانے اور لمبے سائے پہن کر ماتمی رقص ناچنے لگ پڑی تھی۔
ان کی ناگہانی وفات حسرت آیات کا قصہ میرے دل کے نہال خانوں میں ان کی امانت بنا دفن ہے۔ سوچوں تو آنکھ بھر آتی ہے۔ کسی دن شاید ہمت کر کے لکھ بھی ڈالوں۔ سب کو ہمہ وقت ہنسانے والا، بظاہر بہت خوش و خرم دکھنے والا ہنسوڑ افتی خود کتنا دکھی تھا، یہ میں ہی جانتا ہوں یا خدا۔

افتی موت مبارک ہو۔تمھاری پیدائش پہ کڑوے لڈو بانٹنے والی رات اب بیوہ عورتوں کی طرح بین کرتی ہے تو شاید تم دور کھڑے ضرور مسکراتے ہو۔

کیا صبح کی آنکھ سے ٹپکتے شبنم کے قطرے تمہارا ہی سندیسہ تو نہیں؟

نہیں صبح کی پہلی کرن کی جگمگاہٹ بھری مسکراہٹ اور کسی انجان پرندے کا مسرت انگیز چہچہانا ہی تمہارا پیغام ہو سکتا ہے۔

افتی صاحب کھلم کھلا ہم جنس پرست تھے اور اس بات کا اظہار نہایت آزادی سے فرماتے تھے۔ وہ لاس اینجلس، نیو یارک سمیت بہت سے شہروں کے مشاعروں میں سونے کے دلہن والے زیور نتھ ٹیکا اور جھومر کنگن پہن کر سرخ لباس پہن کر چلے جاتے تھے۔ بلا کے شاعر اور نہایت عمدہ نثر نگار ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت بذلہ سنج، حاضر جواب بھی تھے۔ ایسی ایسی پھبتیاں اور فقرے کسنے کے ماہر کہ مخالف کی بولتی بند کر دیں۔ اس بِنا پر ایسے مشاعروں میں انھیں منہ پر تو کوئی کچھ نہیں کہتا تھا مگر پیٹھ پیچھے لوگ ان کا مذاق اڑاتے، جس کی افتی کو کوئی  پرواہ  ہرگز نہیں تھی۔ وہ ایسے لوگوں اور ان کی باتوں کو جوتی کی نوک پر رکھنے کے قائل تھے۔

افتی جنسی آزادی و گے موومنٹ کے بہت بڑے علمدار اور بے حد ایکٹو ممبر تھے۔

شہر بھر کے گے لوگ خصوصا ًگے پاکستانیوں کا ان کے دولت کدے پر مجمع رہتا۔ شکاگو میں ان کا دولت کدہ لیک مشی گن کے کنارے پوش علاقے میں ایک بلند و بالا بلڈنگ میں غالباً بائیسویں یا تیئسویں منزل پر تھا۔ جس کی بالکونیاں اس بہت بڑی جھیل پر کھلتی تھیں اور جہاں سے تقریباً پورے شکاگو کا دلفریب ویو نظر آتا تھا۔ اپنے ہاں مہمان بننے والے ہر شخص کو گے کلبوں میں اپنے ساتھ لے کر جانا افتی کے لیے ایک امر ناگہانی رسم تھی۔ شبانہ آعظمی صاحبہ اور ان کے شوہر نامدار جاوید اختر صاحب بھی ان کے خوبصورت دولت کدے پر مہمان بن چکے تھے اور اس خدمت و رسم سے مبرا نہیں تھے۔

ہم ان سے ملنے شکاگو گئے اور ان کے دولت کدے پر ان کے مہمان ہوئے تو وہ ہمیں بھی کشاں کشاں شہر کے لاتعداد گے کلبوں میں اپنے ہمراہ گھسیٹ کر لے گئے اور اپنے سب دوستوں سے بہ اصرار ملوایا۔ اپنے ایک محترم دوست کو وہ ماں کے مقدس لقب سے یاد فرماتے تھے۔ یہ لحیم شحیم لمبی چوڑی داڑھی مونچھوں والی ماں ان پر سچ مچ ماؤں ہی کی طرح صدقے فدا ہو رہی تھی۔ انھوں نے گے بچوں کے لیے ایک تنظیم رین بو الائنس بھی بنا رکھی تھی جس کے تحت وہ گھر سے بھاگے ہوئے گے بچوں کو تحفظ فراہم کرتے تھے۔ افتی صاحب کے ہاں اس آرگنائزیشن کی ہفتہ وار اور مہینہ وار میٹنگز بھی ہوا کرتی تھیں اور پاک و ہند سے تشریف فرما شاعروں، ادیبوں، اداکاروں اور آرٹسٹوں کے تانتے بھی بندھے رہتے تھے۔

انھوں نے اپنا جیون ساتھی ایک ہندو دوست “پریم” کو چن رکھا تھا۔ دیکھنے میں یہ جوڑا بے حد عجیب و غریب اور مضحکہ خیز دکھائی دیتا تھا۔ افتی صاحب جتنے ہی لمبے چوڑے، بھاری بھرکم ،دیوزاد اور سیاہ فام تھے، پریم صاحب اتنے ہی ننھے منے، منحنی، دبلے پتلے چھریرے اور چھوٹے قد آور صاف رنگت کے تھے۔ افتی صاحب پریم صاحب کو my husband کہہ کر ان کا تعارف کروایا کرتے تھے۔ وہ ان کے لیے کھانے بھی پکاتے اور دبے منہ یوں شکایت بھی کرتے :
“ویکھو تاں سہی، ایتھے تاں کنجری نوں ریندھنا پے گیا اے”

انھوں نے ایک مدت سے پریم صاحب کے ساتھ اپنا گھر بسا رکھا تھا۔ پریم صاحب غالباً  ٹیکسی چلایا کرتے تھے۔ افتی صاحب مہنگی ترین گاڑیوں کی کسی ایجنسی میں سینئر سیلز مین تھے۔ پریم سے انھوں نے وعدہ کر رکھا تھا کہ ان کے بعد ان کا گھر اسے مل جائے گا مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان کی وفات کے بعد یہ گھر ان کی چھوٹی بہن کو مل گیا اور پریم صاحب کو اس گھر سے نکال دیا گیا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply