خوشی کیا ہے ؟ (دوسری،آخری قسط)۔۔۔۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

گزشتہ قسط:

ریاضی کے فارمولے سے اس بات کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے، مثلا ً اگر خوشی کے ان یارمونز کی سب سے بلند سطح کو دس نمبر دئیے جائیں تو کچھ لوگ جینیاتی طور پر ان ہارمونز کا سات اور نو کے درمیان لیول لے کر پیدا ہوتے ہیں، یہ لوگ عموما ً زندگی میں خوش رہتے ہیں، مسکراتے ہیں، مثبت سوچ رکھتے ہیں، شدید غم یا مایوسی کی صورت میں بھی ان کا ہارمونز لیول سات نمبر سے نیچے نہیں گرتا، اور چند دنوں بعد ہی ان کا ہارمونز لیول واپس اپنی اوسط پہ آجاتا ہے، ان کے برعکس ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہیں اپنے والدین سے ورثے میں ہارمونز کی اوسط سطح تین اور پانچ کے درمیانی ملی، ایسے افراد ہر وقت پریشان اور مایوس رہتے ہیں، زندگی میں غیر ضروری سنجیدگی کو اپناتے ہیں، مسکراہٹ کو اپنی سوکن سمجھتے ہیں ، بہت زیادہ خوشی کی صورت میں بھی ان کے ہارمونز کی سطح درجۂ پنجم یا زیادہ سے زیادہ ششم سے اوپر نہیں اٹھ پاتی، اور یہ کیفیت بھی مختصر وقت کیلئے طاری ہوتی ہے، اور یہ جلد ہی ہارمونز اپنی موروثی اوسط، یعنی تین اور پانچ کے درمیان، کو لوٹ آتے ہیں۔
کیا ہارمونز اور خوشی کے اس باہمی تعلق کو دیکھتے ہوئے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ مستقبل قریب میں میڈیکل سٹورز پر ہم ان ہارمومونز کو بِکتا ہوا دیکھیں گے اور اپنی اپنی استطاعت کے مطابق ہم خوشی خرید سکیں گے؟

دوسری قسط
آج اس بحث کے اہم ترین نکتے پر ہم بات کریں گے، درحقیقت خوشی کا تعلق خواہش کے پورا ہونے سے ہے، اور خواہشات کی حدود کا تعین ابھی تک نہیں کیا جا سکا، اسی لئے انسان پوری زندگی خوشی کی تلاش اور تگ و دو میں گزار دیتا ہے، جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ فرد جتنا زیادہ نادیدہ ہوگا، خواہشات اتنی محدود ہوں گی، مگر آج چونکہ دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی، اور انٹرنیٹ و دیگر ذرائع کی مدد سے انسان جان چکا کہ صحت، طاقت، حسن، سیر و سیاحت، سامانِ آرائش و آرام، سیر و سیاحت ، الغرض ایک لگژری زندگی کا وجود فی الواقع ممکن ہے اور لوگوں کی کثیر تعداد کو یہ سب میسر ہے، اب خواہشات چونکہ بلند ہیں مگر ممکنات یا وسائل محدود تو نتیجہ مایوسی اور ڈپریشن کی صورت سامنے آئے گا، جب تک فرد ایک محدود حلقے میں محدود زندگی گزارتا تھا تو نہ صرف توکل پر کامل یقین رکھتا تھا بلکہ یہ خوش فہمی بھی تھی کہ اسے بہتر میں سے بہترین میسر ہے، لیکن آج کسی نوجوان کو ایسے جھانسے میں نہیں لایا جا سکتا، ایک مثال کی مدد سے ہم یہ نکتہ بآسانی سمجھ پائیں گے

آج سے پانچ سات دہائیاں قبل اگر ایک لڑکا کسی گاؤں میں پلا بڑھا، جہاں زیادہ آبادی نہ تھی اور مردوں کی تعداد بھی کم تھی، ان میں بھی چھوٹی عمر کے بچے یا بزرگ زیادہ تھے، تو یہ درمیانے قد اور سانولی عمر کا لڑکا اپنے علاقے کا ایک خوبصورت ترین نوجوان تصور ہوتا تھا، اس کی شدید خواہش تھی کہ اس کے پاس ایک اچھی نسل کی گھوڑی ہو اور چاچے خدابخش کی منجھلی بیٹی، فہمیدہ سے اس کی شادی ہو جائے کیونکہ یہی فہمیدہ اس کیلئے دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی تھی، اور یہ نوجوان اپنے علاقے کا سب سے حسین نوجوان، دو چار سال محنت اور کمائی کر کے وہ گھوڑی بھی خرید لیتا ہے اور فہمیدہ کے گھر والوں سے شادی کی بات بھی پکی ہوجاتی ہے، اس نوجوان کیلئے بس یہی انتہا تھی خوشی کی، کیونکہ جو کچھ چاہا وہ پا لیا، لیکن آج کے نوجوان کی خواہشات بے لگام ہیں، سب سے پہلے تو وہ اپنے درمیانے قد اور سانولی رنگت کی وجہ سے ڈپریشن میں ہے کیونکہ جانتا ہے کہ دنیا میں کیسے کیسے خوبرو نوجوان موجود ہیں، بالخصوص پردہ سکرین پر جب وہ بریڈ پِٹ یا سلمان خان کو دیکھتا ہے تو اس سے کم پر وہ مطمئن نہیں ہوتا، اب گھوڑی کی بجائے اسے ایک مرسیڈیز کار چاہیے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ دنیا میں لاکھوں لوگوں کے پاس یہ کار موجود ہے، اس لیے میرے پاس بھی ہونی چاہیے، اب چاچے خدابخش کی بیٹی فہمیدہ سے اسے کوئی لگاؤ نہیں کہ وہ ٹی وی اسکرین پر انیجلینا جولی اور ایشوریا رائے کو دیکھ چکا ہے اور اس سے کم پر وہ راضی نہیں، خواہشات کے اس بے ہنگم طوفان کو تھامنا آسان نہیں، یہ نوجوان اگر زیادہ سے زیادہ کوشش اور محنت بھی کرے تو مرسیڈیز کی بجائے سوزوکی تک چھلانگ لگا سکتا ہے، بریڈ پِیٹ کی بجائے ہندوستانی فلم کے گانوں میں ہیرو کے پیچھے ناچتے، ایکسٹرا، کی حد تک خود کو سنوار سکتا ہے، چاچے خدابخش کی بیٹی کی بجائے اپنی تحصیل کے ایک کاروباری شخص کی بیٹی سے بیاہ رچا سکتا ہے جو فہمیدہ کی طرح سانولی نہیں اور قدرے لبرل سوچ کی مالک بھی ہے، مگر ان تمام صورتوں میں وہ خوشی نصیب نہ ہوگی جو پانچ سات دہائیاں قبل والے نوجوان کو نصیب ہوئی، کیونکہ وہ نوجوان دنیا میں موجود میسر حسن ،صحت، سہولیات سے ناانجان تھا لیکن آج کا نوجوان یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے اور یہ سب کچھ پانا چاہتا ہے مگر ممکنات یعنی وسائل محدود ہیں، نتیجہ ڈپریشن اور ناخوش زندگی۔

اب تک کی بحث سے جو نکتہ سامنے آتا ہے وہ یہ کہ انسان کی خوشی کا انحصار اس کی معاشی یا مادّی حالت پر ہے، اور یہ بات بہت حد تک درست بھی ہے، اگر مالی حالات سازگار ہوں تو آپ اپنی صحت کا بہتر خیال رکھ سکتے ہیں، ظاہری حسن کا تعلق بھی صحت سے ہے، اگر معاشی تنگی نہیں تو چاچے خدابخش کی منجھلی بیٹی بھی اپنے جمال کو زیبا کر سکتی ہے کہ آپ کی توجہ حاصل کر سکے، نہ صرف یہ بلکہ آسائش سے بھرپور زندگی آپ کے جسم میں پیدا ہوتے خوشی کے ہارمونز کی افزائش کو قدرے بہتر بنا سکتی ہے اور آپ کی اگلی نسل میں ان ہارمونز کی اوسط مقدار بلند دکھائی دے گی، گویا کہ بحث جس طرف سے چھیڑی جائے یہ طے پایا کہ انسان کی خوشی میں اس کی مالی حالت کا مرکزی کردار ہے۔

دنیا کے گلوبل ولیج بننے کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی سامنے آیا کہ آپ انفرادی طور پر امیر بننا اتنا آسان نہیں رہا، اب فرد کا تعلق اجتماعیت سے گہرا تر ہوچکا، آپ کے اردگرد کا ماحول آپ کی شخصیت، آپ کے کردار اور آپ کی خوشی پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے، اس لیے اگر ہم خوشی کے متلاشی ہیں تو اس کیلئے ضروری ہے کہ انسانوں کی اکثریت مالی طور ہر مستحکم ہو، اور ایسا کیونکر ممکن ہے؟
اب تک ہماری تمام قوتیں اسی سمت صرف ہوتی رہی کہ معاشرے کی دولت پر کچھ گروہوں یا خاندانوں کا قبضہ ہے، جنہیں ہم عرفِ عام میں مافیا کہتے ہیں اور معاشی کیک، بلکہ ہم اپنی روایات کے مطابق اسے معاشی کڑاہی کا نام دے سکتے ہیں، پر انہی چند خاندانوں کی اجارہ داری ہے جس کی وجہ سے باقی افراد غربت کی چکی میں پِس رہے ہیں اور جب تک کڑاہی کا بڑا حصہ ان مافیاز کے قبضے سے چھینا نہیں جاتا، انسانوں کی اکثریت اسی عذاب میں زندگی گزارتے ہوئے خوشی سے محروم رہیں گے، یہ بات یقینا درست ہے اور اپنے اندر وزن رکھتی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ اگر کڑاہی کا مقبوضہ حصہ ہم ان مافیاز سے آزاد کرا پاتے ہیں تو کیا یہ حصہ باقی انسانوں کی خوشحالی کیلئے کافی ہوگا ؟ اس کا جواب نفی میں ہے، اب آبادی کے ساتھ ساتھ ہماری خواہشات اور مطالبات اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ یہ کڑاہی اگر منصفانہ بنیاد پر بھی تقسیم کی جائے تو ہمارے لیے کافی نہیں، اب اس کڑاہی کا سائز بڑھانا ہوگا تاکہ خوشحالی کی طرف قدم اٹھایا جا سکے اور یہ اجتماعی کوششوں سے ممکن ہے۔

ہم نے خوشی کے صرف ایک، مادّی، پہلو پر بات کی ہے، اس کا روحانی اور اخلاقی پہلو کم اہم نہیں، یہاں روحانی تصور کو اگر اسی دنیا تک محدود رکھتے ہوئے حقوق العباد اور کوئی بھی اعلی مقصد ہی مراد لئے جائیں گے تو غیر موضوعی خوشی، یعنی خوش ہونے کے احساس کی اہمیت کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے، اگر روحانیت کے بعدالموت پہلو کو دیکھا جائے تو یہ اس مضمون کا موضوع نہیں، آخرت میں کامیابی پر حاصل خوشی ، نیکی کر دریا میں ڈال، والے محاورے میں پوشیدہ ہے ، یہاں اتنا اشارہ کر دینا کافی ہے کہ اجتماعی انسانی ضمیر کے بنیادی اصولوں پر رہتے ہوئے فرد اگر اپنے فرائض پورے کرتا رہے، جن میں حقوق العباد کے علاوہ عبادات بھی شامل ہیں، تو خوشی کے حصول کیلئے مادی پہلو کے علاوہ مقصدیت اور روحانیت کی اتنا حصہ ہی کافی رہے گا، جو لوگ روحانیت کو لے کر گیان و نروان، یا صوفی ومجدد کے کشف و کرامات کو حقیقی خوشی سمجھتے ہیں اور اس کے متلاشی ہیں تو جان رکھیں کہ مزاج اور طبع کے اعتبار سے شاید لاکھ میں سے ایک آدمی ہی ایسا ہوگا جو اس مقام کو اپنا حقیقی مقصد سمجھتے ہوئے اس کی جدوجہد کرے گا اور اسے پا سکے گا، تو ایسی صورت میں باقی نناوے ہزار نو سو ننانوے افردا کہاں جائیں گے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

بدھ مت نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بیرونی اور اندرونی دنیا سے مرتب ہوتے احساسات ، چاہے خوشی کے ہوں یا غم کے، ثانوی حیثیت رکھتے ہیں، اگر آپ ان احساسات پر اپنی خوشی تولتے ہیں تو آپ کبھی بھی خوش نہ رہ سکیں گے، کیونکہ ایسے احساسات و جذبات کی تلاش میں آپ اپنی پوری زندگی صرف کر دیں گے، اور اگر قسمت کی دیوی آپ پر مہربان ہو اور آپ ان مسحور کن احساسات و جذبات کو پائیں تو ہر وقت ان کے چھِن جانے کا خوف رہے گا، گویا کہ
تم کو پانے میں مسئلہ یہ ہے
تم کو کھونے کے وسوسے رہیں گے
یعنی کہ آپ کی پوری زندگی اس بھاگ دوڑ اور خوف میں بیت جائے گی، اس لیے اس سطح سے بلند ہوتے ہوئے زندگی کے بیرونی حادثات و عجائبات اور اندرونی کیفیات سے مکمل چھٹکارا پاتے ہوئے بس اپنے ہونے سے لطف اندوز ہوا جائے، یہ سوچ قدرے خودغرض رویے کی حامل لگتی ہے، یہ بات کتابی حد تک تو درست ہے مگر حقیقت میں انسان کئی حوالوں سے جکڑا ہوا ہے، اور اندرونی و بیرونی کیفیات کو یکسر نظرانداز کرنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں، ایسی صورت میں خوش رہنے کیلئے ضروری ہے کہ کسی افسانوی و اساطیری آبِ حیات کی تلاش میں وقت برباد کرنے کی بجائے روزمرہ کے امور و مشاغل میں چھپی خوشیوں میں حقیقی زندگی کو جیا جائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply