مولانا مودودی اور ان کے مخالفین/نعیم اختر ربانی

نعیم صدیقی مرحوم مولانا مودودی کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں۔ ایک بہترین مفکر کو زبردست ادیب کا ساتھ ملا۔ مولانا کے ماہنامہ ترجمان القرآن کے مدیر رہے۔ کئی کتابیں تحریر کیں اور ان میں سے ایک کتاب “المودودی” بھی ہے۔

مولانا کی ذات پر تبصرے کرتے ہوئے ان کے مخالفین کا ذکر کچھ اس انداز سے کیا۔۔

“بد قسمتی سے مولانا مودودی کو نہایت گھٹیا حریفوں سے سابقہ پڑا اور زمانے نے اس داعی  ءفلاح کا خیر مقدم اولاً گالیوں، پھبتیوں ، الزام تراشیوں اور تکفیر و تفسیق سے کیا ( اور یہ سلسلہ کسی نہ کسی حد تک برابر جاری رہا ہے) اور پھر غداری اور تخریب اور پاکستان دشمنی کے سیاسی الزامات وضع کیے گئے۔ یہاں تک کہ آخر کار سیفٹی قوانین کے ترکش سے تیر برسائے جانے لگے۔ قید و بند کے دور آئے اور بالآخر ایک دن اس مسافرِ راہِ حق نے دیکھا کہ پھانسی کی کوٹھڑی اس کی منزل بن گئی ہے” (المودودی صفحہ نمبر 24)

یوں کہنا بھی بےجا ہے کہ مولانا پر تنقیدات کے تراشے بے سروپا ہیں لیکن اس کے باوجود یہ کہنا بھی بجا ہے کہ بسا اوقات مولانا کی تحاریر کو سیاق و سباق سے جدا کر کے اس طرح پیش کیا گیا کہ جو کوئی بھی ان جملوں کو دیکھے تو یہ خیال کرے کہ یہ بدترین گستاخی اور گمراہی ہے۔

کبھی الزامات کو ان شعوری حملوں کی صورت بنایا گیا جن میں صداقت کا شبہ بھی نہ تھا۔ صرف مخالفانہ پالیسی کے تحت ایسے تراشے سامنے لائے گئے کہ جن کا تعلق کبھی ان سے ثابت نہ ہو سکا،لیکن زمانے کے تھپیڑے بہت سخت ہوتے ہیں۔ مولانا کے خلاف جس طبقے کے بڑے لوگوں نے قلم اُٹھائے ، دھرنے دیے ، جلسے جلوسوں کو  ترتیب دیا۔ تاریخ نے ان کے نام ، کام اور الزام سب اپنے دامن میں محفوظ کر لیے۔ ان کے کارہائے نمایاں کو بھی اپنے دامن میں جگہ دی۔

پھر نئی پود نے معاشرے میں گھومنے پھرنے والے الزامات کا جائزہ لینا شروع کیا۔ ان الزامات کی حقیقت سے آگاہی حاصل کرنا چاہی ،جن سے بچپن میں ان کا سابقہ پڑا تھا۔ ان تحریروں کو بھی ازسرِنو دیکھنا شروع کیا جو مولانا پر الزام کی وجہ بنے۔ وہ کتابیں نکالی گئیں تاکہ حقائق سے آگاہی حاصل ہو۔

اس سے دو فائدے حاصل ہوئے۔ ایک تو یہ کہ ان لوگوں کے دل میں مولانا کے لیے ہمدردی پیدا ہوئی۔ ان کی شخصیت کی  کئی   پرتیں واء  ہوئیں، جو مخالفانہ گرد میں چھپ گئی  تھیں۔ ان کی شخصیت کے قائدانہ ، فلسفیانہ ، ادیبانہ اور مفکرانہ پہلوؤں کے کئی رخ سامنے آئے۔ ان کے طرز استدلال سے تفہیم کے راستے کھلے اور جس فکری یلغار کو مولانا نے موڑنے اور روکنے کے لیے اپنے فکری اور نظریاتی مواد سے بند باندھنے کی کوشش کی تھی آج کے زمانے کے مفکرین ان سے استفادہ کرنے لگے۔

دوسرا فائدہ کہیے یا تاریخ کا جبر ، بہرحال یہ ہوا کہ مولانا کے مخالفین کے قد کاٹھ میں کمی آئی۔ جائزہ لینے والوں نے حقیقت کے بجائے الزام دیکھا ، فکر کی جگہ تفرقے کو پایا ، افہام و تفہیم کی جگہ تکفیر و تفسیق کے فتوے پائے ، نعروں کی گونج میں سیاسی مفاد کو محسوس کیا تو ان منصوبہ سازوں کی بلند پایہ عمارت میں رخنہ پڑا۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج بھی جب نوجوان لکھت پڑھت کے فن سے آشنا ہے کچھ نابغہ روزگار اسی پرانی طرز کو اپنائے ہوئے ہیں۔ تاریخ کا جبر اِن کے سامنے ہے۔ تاریخ اور زمانے کی روش یہ ہے کہ یہ کسی سے ہمدردی نہیں کرتے۔ ان کے دامن میں کانٹے اور پھول اور ان کے پیچھے چھپے ہوئے احساس بھی بہرحال موجود ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر آپ اپنی شخصیت کے پَرتو کو ہمیشہ شفاف رکھنا چاہتے ہیں تو تاریخ کے دامن میں حق و سچ کا ذخیرہ ہی ڈالیے ورنہ آج کی بلند پایہ عمارت کل ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو جائے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply