کراچی جو میں نے دیکھا ۔۔۔ عارف خٹک

گاڑی دوست کی طرف چھوڑ کر کل رات 2 بجکر 20 منٹ پر گلشن اقبال بلاک 13 سے پیدل روانہ ہوا۔ حسن اسکوائر سے ہوتا ہواشارع فیصل ڈرگ روڈ ایئرپورٹ سے ہوتا ہوا ملیر کینٹ گیٹ نمبر پندرہ پہنچ گیا۔ صبح 5 بجے گھر پہنچا۔

پیروں کے پٹھے کھینچ گئے ہیں۔ تلوے جل رہے ہیں۔ مگر پہلی بار کراچی کو اتنے غور سے دیکھا۔ رات کے پرمہیب سناٹے میںکراچی کسی شریر بچے کی طرح جاگ رہا تھا۔ روڈ پر چلتی گاڑیاں، موٹر سائیکلیں اور رکشے بھلے لگ رہے تھے۔ نیشنل اسٹیڈیم پر کراچیمیونسپل کارپوریشن کی طرف لگائے گئے پھولوں سے سجی کیاریوں نے گویا اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ دودھ کی سپلائی کرنے والیتیزرفتار گاڑیاں زن سے گزر جاتی تھی جیسے بھاگے ہوئے محبوب کو رکنے کی جلدی ہو۔ سڑک کنارے اونگھتے ہوئے پولیس اہلکار اوراٹکھیلیاں کرتے کتے بہت بھلے معلوم ہورہے تھے۔

کارساز روڈ کے کنارے پودوں کی نرسریاں اور ان میں کھلے ہوئے پھول فضاء میں ایک عجیب مہک چھوڑ رہے تھے۔

کراچی میں گزشتہ تیرہ سالوں میں ایسی خوبصورتی کا کبھی اتفاق نہیں ہوا۔ سب کچھ نیا اور خوبصورت سا لگ رہا تھا۔ ایسا محسوسہی نہیں ہورہا تھا کہ یہ وہ کراچی ہے جہاں ہمیشہ وقت کی کمی اور ترقی کی دوڑ نے اپنے رشتوں کے قریب نہیں ہونے دیا۔

کارساز کی نرسریوں کے پاس بس اسٹاپ پر کھڑی ایک نقاب پوش خاتون نے ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ قریب گزرا تو وہ پر امیدنظروں سے مجھے دیکھنے لگی۔ جھجکتے ہوئے اس سے پوچھا کہ رات کے اس پہر میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں؟۔ تو آگے سے اسنے مجھ سے پوچھا

آپ کے پاس جگہ ہے؟۔

نقاب پوش کو لے کر پاس میں بند ہوتے ریسٹورانٹ سے کچھ کھانے کو لیا۔ ان کو بٹھا کر کھانا کھایا۔اور جیب سے دو ہزار نکال کراس سانولے ہڈیوں کے ڈھانچے کو پکڑا دیئے۔ جا آج کی دیہاڑی لگ گئی۔ گھر جاؤ اپنے بچوں کے پاس۔

شارع  فیصل پر اکا دکا موٹرسائیکلوں پر سوار تین تین کال گرلز بھی دکھائی دیں جو مختلف ہوٹلوں اور بنگلوں سے نائٹ شفٹ کرکےاپنے دلالوں کے ساتھ واپس ٹھکانوں پر جارہی تھی۔ ان کی اڑی رنگت اور الجھی الجھی زلفیں کئی داستانیں بے زبانی سنا رہیتھی۔ شارع فیصل پر کبھی کبھار فوجی گاڑیاں بھی گزر جاتیں۔ ڈرگ روڈ کے پلیٹ فارم پر دو تین ہیروئنچی سردی سے ایک دوسرےکے ساتھ باہم لپٹے بے سود سو رہے تھے۔

ائیرپورٹ پر عمرے کی فلائٹس پر آنیوالے زائرین کو لینے ان کے رشتہ دار جوق در جوق لوڈنگ سوزکیوں، منی ٹرکوں اور موٹرسائیکلپر سوار ایئرپورٹ کے مرکزی دروازے پر جمع تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اپنی مصروف زندگی میں کبھی ایسے لمحات نکال کر جی کر تو دیکھیں۔ آپ کو وہ گلیاں بھی خوبصورت لگیں گی جن کو روزانہ دیکھ دیکھکر آپ بور ہوتے ہیں۔ آزمائش شرط ہے۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کراچی جو میں نے دیکھا ۔۔۔ عارف خٹک

  1. ڈاکٹر صاحب کبھی ہمت کیجیئے اور سپریم کورٹ (مانا کہ پاکستان میں تاریخ پہ تاریخ ۔تاریخ پر تاریخ)کا سلسلہ سے آپ اپنے نام سے ای اٹیچمنٹ تو لگوائیًں کہ سندہ میں اور پورے کراچی میں نظامِ تعلیم کا فرسودہ نظام ھےاس کو بدلی کروآئیں پلیز۔کیونکہ تمام اسکولز میں کلاس 3تا9کلاس تک سندہی مضمون پڑھایا جاتا ھے اس کو
    فلفو ر ختم کیا جائے اور سندہی زبان کے بدلے انگلش زبان مزید ایک مضمون کے طور پر پڑھایاجائے کیونکہ سندہی زبان کی کوئی عقلی حیثت ھے نا کوئی عقلی مدلِل دلیل ھے تو پہر ھماری مسل کو کیو ًن یہ زبان پڑھائی جا رہی ھے ؟

Leave a Reply