اس روز بارش ایک دم سے شروع ہوئی، اسے واپس جانا تھا، حسب روایت ابھی گلیوں میں پانی کھڑا نہیں ہوا تھا، نالیاں، نالے بننے کو بیتاب تھیں، عجیب ملک ہے گندے پانی کے نکاس کی راہ میں کبھی شاپر پھنس جاتے ہیں اور کبھی ضیاءالحق۔۔
اسے گاڑی تک چھتری تک چھوڑ کے آنے کی ذمہ داری میری تھی،ہم دونوں کی کبھی نہیں بنی، تب میں بہت کم گو تھا، اس وقت بھی اسےبھیگنے سے بچانے کے چکر میں بھیگ رہا تھا،
وہ مسلسل کچھ کہے جا رہی تھی، میں سوچ رہا تھا کہ بارش تیز ہے یا اس کی زبان۔۔۔۔۔وہ ایک دم رک گئی ۔
“مجھ سے یہ پار نہیں ہوگا ”
میں نے گز بھر نالے کو دیکھا، ساڑھے چار انچ کی ہیل تھی،اور پونے پانچ فٹ کی لڑکی۔۔
گلی میں کوئی نہیں تھا۔
میں نے اسے کمر سے پکڑ کر اٹھالیا، اس نے گھبرا کر میری گردن میں ہاتھ ڈال دیا، اس کی حیرت دیدنی تھی، میں نے اسے دوسری طرف اتار دیا،یہ سب بنا سوچے ایک لمحے میں ہوگیا،
ہم چلے، وہ چپ ہوگئی، پتہ نہیں وہ پہلے کیا کہہ رہی تھی۔۔
مجھے یوں لگا، پانی میں کچھ گر گیا ہے، نالے کے پاس کچھ رہ گیا ہے،
اسے گاڑی میں بٹھاتے میں نے اسے نہیں دیکھا۔۔۔۔۔
اس نے مجھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
مجھے واپسی پہ بھول گیا کہ چھتری تلے میں اکیلا تھا، پھر بھی بھیگ رہا تھا، میں چھتری بند کرکے اس نالے کے پاس آکر تھڑے پہ بیٹھ گیا،
سینے پہ ایک کومل سی جلن تھی، میں اپنے ہاتھ کو دیکھا، پانی کی بوندیں لکیروں سے الجھنے لگیں،
پانی آنکھوں میں اترتا تو اس نگاہ کی حیرانی بن جاتا،
میری گردن میں اس کی انگلیاں شاید نشان بنا گئی تھیں۔۔۔۔مٹ جاتا تو گھر جاتا،
ایک گز چوڑا وہ نالہ ایسا چناب تھا جہاں سوہنی کو پار اتارتے، مہینوال ڈوب گیا۔
(محبت کھرک ہے سے اقتباس)
Facebook Comments
بہت ہی عمدہ افسانہ. بہت خوبصورت تحریر.