حسین حُسن کی حیرت سرا بناتا ہے/طفیل مزاری

سن 60 ہجری کے حج کا موقع ہے۔ مکہ میں لاکھوں مسلمان فریضۂ حج انجام دینے کے لئے جمع ہیں، لیکن یہ حج نبیؐ کے نواسے کے لیے حج ناتمام کہلایا ہے، کہ حسینؑ نے حج کا ارادہ ترک کرکے احرام کھول دیے ہیں، کیونکہ خلیفہ وقت نے یہ احکامات صادر کیے  ہیں کہ حسینؑ اگر خانہ کعبہ کے پردوں میں بھی ہوں، تب بھی انہیں قتل کردیا جائے۔

ایک طرف امام زمانہ ہیں، جن کو خانہ کعبہ کی حرمت کا خیال ہے تو دوسری طرف حاجی صاحبان ہیں جو اس کے گرد چکر لگانے میں مصروف ہیں۔ ڈاکٹر علی شریعتی اس دن کی منظر کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ “یہ کون ہے کہ جو اس طرح خشم آلود حال میں مصمم ارادے کے ساتھ مسلمانوں کے بادل گرداب کو چیرتا ہوا طواف سے باہر آرہا ہے اور اس باحرمت، امن مآب اور بزرگی والے شہر سے منہ موڑ کر جا رہا ہے” وہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ “جب حسینؑ طواف چھوڑ دیتے ہیں اور حاجیوں کی صفیں چیر کر باہر آتے ہیں اور دوسرا رخ کرتے ہیں تو پھر تم کیسے طواف کر رہے ہو؟” اور پھر اس کا یہ جواب بھی دیتے ہیں کہ “طواف کے لیے سب کے قدم غلط اٹھ رہے ہیں، سوائے اس سرخ علامت والے قدم کے جو حسینؑ کا ہے۔ دعوت شہادت میں وہی ایک قدم ہے جو طواف کو ترک کرتا ہے”

اگر تاریخی نکتہ نظر سے دیکھا جائے یہ سوال آج بھی برقرار ہے کہ مدینہ سے خروج کرکے بالآخر مکہ کے انتخاب کی وجہ کیا رہی ہوگی؟ امام حسینؑ مکہ میں اپنا آخری خطبہ دیتے ہیں اور وہاں موجود دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنا مقام و مرتبہ یاد دلاتے ہوئے ان سے حمایت اور امداد طلب کرتے ہیں، لیکن سوائے قریبی رفقا ء کے، کوئی بھی ان کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں ہوتا اور اس طرح امامؑ مکہ ترک کرکے کوفہ کی طرف کوچ کرتے ہیں۔ مجھے یہ الفاظ لکھتے ہوئے نبی اکرم ﷺ کی حیات کا وہ دلدوز منظر یاد آتا ہے جب ہجرت کرتے ہوئے حضورؐ نے مکہ کی جانب آخری بار مڑ کر دیکھا اور فرمایا ”اے شہر مکہ، تو پاکیزہ ہے اور مجھے بے حد عزیز ہے۔ اگر میری قوم مجھے یہاں سے نہ نکالتی تو میں کسی اور جگہ نہ جاتا”

قصہ مختصر مختلف منازل طے کرتے ہوئے امامؑ جب کربلا کے مقام پر پہنچے تو وہیں پر اپنا پڑاؤ ڈالا۔ روایات کے مطابق یزیدی لشکر کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ دونوں اطراف باقاعدہ باجماعت نماز ادا کی جاتی تھی اور امام حسینؑ کو باغی قرار دیتے ہوئے فقرے کسے جاتے کہ حسینؑ کی نماز قبول نہیں ہوگی۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب امام حسینؑ کے قتل کا فتویٰ جاری کرنے کی ضرورت پیش آئی تو اس وقت کے قاضیوں نے بھی اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے طاقتور کا ساتھ دیا۔ کہا جاتا ہے کہ مظلوم کربلا کے قتل کے محضر پر دربار بنو امیہ کے ایک سو منصفوں اور مفتیوں کی مہریں لگی تھیں اور ان میں سر فہرست نام کوفہ کے قاضی شریح کا تھا۔ آقائی حاجی مرزا حسن اپنی تصنیف جواہر الکلام میں اس من پسند فیصلے کے حاصل کئے جانے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اسے رشوت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، جس کے مطابق قاضی شریح نے فرزند رسولؐ کو دین سے خارج قرار دیتے ہوئے ان کے لازمی قتل کا فرمان جاری کیا۔ ابن عربی کہتے ہیں کہ اس فتوے کی وجہ سے ابن زیاد کے لشکریوں کا حوصلہ بڑھ گیا اور کثرت سے لوگ حسینؑ سے جنگ کرنے والی فوج میں داخل ہوئے۔

کربلا کا میدان سجا ہے، 72 کے مقابل 30 ہزار لشکری ہیں، جو اس شخص کے خون کے پیاسے ہیں، جن کے پیمبرؐ نانا کے نام کا کلمہ پڑھ کر وہ اپنے ایمان کی تکمیل کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد امت کا یہ سلوک ایسے سوال پیدا کرتا ہے جس کا جواب لکھنے کی تاب نہیں۔

بالآخر وہ گھڑی آن پہنچی، جب نبیؐ کے نواسے اپنی ہی امت کے ہاتھوں شہید کردیے گئے۔ امت کی وحشتوں کا یہ عالم تھا کہ شہدا کے سر تن سے جدا کرکے ابدان پر گھوڑے دوڑانے لگے۔ لالچ کا یہ عالم کہ سروں کی تقسیم کے لیے آپس میں لڑنے لگے۔ یہ شہدا کے سروں کو غنیمت کے طور لیتے تھے، تاکہ ان کو ابن زیاد اور یزید کے روبرو پیش کرکے انعام و اکرام حاصل کریں۔

سانحہ کربلا کو گزرے صدیاں بیت گئیں، لیکن حسینؑ کے غموں کی یاد آج بھی پررونق، دلکش اور ترو تازہ ہے۔ حسین کے انکار نے حق و باطل کے درمیان ایک ایسی لکیر کھینچ دی ہے جو رہتی دنیا تک اس فرق کو نمایاں کرتی رہے گی۔ جہاں جہاں یزیدیت جنم لے گی، وہاں حسینیت کربلا برپا کرتی رہے گی، کیونکہ حسین کا انکار مزاحمت کا وہ استعارہ ہے جو مظلوم کو ظالم کے مقابل کھڑے ہونے کی قوت عطا کرتا ہے۔ حق و باطل کے درمیان اس تضاد کو غلام محمد قاصر نے کیا خوب بیان کیا ہے۔

یزید نقشۂ جور و جفا بناتا ہے
حسینؑ اس میں خطِ کربلا بناتا ہے

یزید موسم ِعصیاں کا لا علاج مرض
حسینؑ خاک سے خاک ِشفا بناتا ہے

یزید کاخ کثافت کی ڈولتی بنیاد
حسینؑ حُسن کی حیرت سرا بناتا ہے

یزید تیز ہواؤں سے جوڑ توڑ میں گم
حسینؑ سر پہ بہن کے رِدا بناتا ہے

یزید لکھتا ہے تاریکیوں کو خط دن بھر
حسینؑ شام سے پہلے دیا بناتا ہے

Advertisements
julia rana solicitors

یزید آج بھی بنتے ہیں لوگ کوشش سے
حسینؑ خود نہیں بنتا خدا بناتا ہے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply