کینگرو کے دیس سے۔۱۔۔۔ معاذ بن محمود

باچیز ۲۷ دسمبر ۲۰۲۰ کو کینگرو کے دیس میں قدم رنجہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد سے تجربات اور مشاہدات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوتاہے جو شاید تاحیات جاری رہے گا۔ آج ایک دوست کے سوال کا جواب دیتے چند سطور رقم کرنا چاہیں اور بین السطور فیصلہ کیا کہاپنے تجربات و مشاہدات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک سلسلہ شروع کیا جائے جس کا مقصد دل جلانا کم اور ایک مثبت تعمیری موازنہزیادہ ہو جسے شاید شاید کبھی ارباب اختیار میں سے کوئی پڑھ لے تو ممکن ہے اپنے یہاں نافذ ہوجائیں۔ سب نہ سہی کوئی ایک آدھ ہیسہی؟

تو چلئے نظر ڈالنا شروع کرتے ہیں کینگرو کے دیس پر، کینگرو کے دیس سے۔

گورے نے بالعموم اور آسٹریلوی گورے نے بالخصوص دو کام بہت بہترین کیے ہیں۔ گورا ڈائورسٹی کو اپنی فخر یہ پیشکش کے طور پرپچ کرنے میں کامیاب بہت رہا۔ مطلب پہلے پہل صرف آسڑیلین اور ایبوریجنل کی تفریق ہوا کرتی تھی۔ پھر ڈائیورسٹی کے نام پرہر رنگ نسل کے بہترین دماغوں کو ریاست میں بسانے کا انتظام کیا گیا، خاص کر ۲۰۰۰ کے بعد۔ نتیجہ یہ کہ ایبوریجنلز کو اپنے ساتھساتھ دوسری مائنارٹیز بھی ملنے لگیں جو مل جل کر مجموعی طور پر مائنارٹی اس طرح رہی نہیں۔ اس حکمت عملی کا آسٹریلیا سمیتکینیڈا امریکہ وغیرہ پر بہت بہتر اثر پڑا۔ آسٹریلینز نے خصوصی طور پر یہ کیا کہ ایبورجنلز کو خصوصی ٹریٹمنٹ دینا شروع کی۔ بھلے میکاپ کے طور پر ہی سہی لیکن ہر دوسرا علاقہ ہر دوسرا سیاحی مقام ہر دوسرا شہر آپ کو ایبورجنلز کے ناموں پر ہی ملے گا۔ ایبورجنلز کوخصوصی مراعات بھی حاصل ہیں۔ آپ جو فارم دیکھ لیں ٹیکس قوانین دیکھ لیں ہر جگہ انہیں فائدے دینے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔اگرچہ ایبورجنلز کے پاس اب بھی پرانے زخموں کی یادداشت باقی ہے جو آسٹریلین ڈے پر احتجاجی مظاہروں کی شکل میں سامنےضرور آتی ہیں تاہم عملی طور پر اس کمیونٹی کے پاس اب کوئی ایسا مطالبہ رہا نہیں جو پورا نہ ہوا ہو۔ ہر سال آسٹریلین معافی مانگنے کییاد کا دن مناتے ہیں ایبورجنلز سے، بین الاقوامی میوزیمز سے ان کی مقدس و تاریخی اشیاء لانے کی تگ و دو کرتے ہیں اور اس کیٹھیک ٹھاک تشہیر کرتے ہیں۔ ان کا نظام تفریقات ختم کرنے کو ایک اہم فریضہ سمجھتا ہے۔

یہ میرے اب تک کے مشاہدات ہیں۔ ممکن ہے پہلے سے موجود لوگ اس سے اتفاق نہ کریں یا ہوسکتا ہے میرا یہاں رہنے کا نسبتاقلیل عرصہ کچھ مس کر رہا ہو تاہم اب تک مشاہدہ بہرحال یہی ہے۔

اور اس میں مجھے اپنے آبائی ملک کے لیے بڑے سبق نظر آتے ہیں۔ ہمارے یہاں تفریق کے نام پر تعصب کی حد تک سیاستہوتی ہے جو چونکہ اپنی اصل میں ایک منفی عمل ہے لہذا اس کا نتیجہ مجموعی طور پر نفرت کی شکل میں منفی ہی نکلتا ہے۔ آسٹریلیامیں کم ترقی یافتہ علاقوں کو ریجنل آسٹریلیا مان کر ان کی ترقی کے لیے خصوصی حکمت عملی اپنائی جاتی ہے۔ مسئلہ یہاں کی ترقی اورآبادی دونوں بڑھانے کے لیے یہاں باقاعدہ ریسرچ ہوتی ہے اور شماریات کی بنیاد پر مخصوص ایکسپرٹیز کو نسبتا آسانی سے ویزےجاری کیے جاتے ہیں۔

ڈائورسٹی جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، کو آسٹریلینز اپنا فخر سمجھتے ہیں۔ ڈائیورس کلچرز کو کسی بھی طرح احساس کمتری کا شکار ہونے سےروکا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ ویسا نکلے جیسا آسٹریلین چاہتے ہیں یا نہیں لیکن کم از کم کلچرل مائنارٹیز جیسے مسلمانوں کو کسی قسم کیشرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ خواتین نے حجاب کرنا ہے تو آزادی ہے کوئی مسئلہ نہیں۔ کسی کا انگریزی لہجہ یا ایکسینٹ مقامیانگریز والی روانی نہیں رکھتا تو کوئی مسئلہ نہیں مذاق نہیں اڑایا جاتا بلکہ ایسا کرنے کو منفی تصور کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں پٹھانوںاور سکھوں پر لطیفے اس بات کا عملی ثبوت ہیں کہ ہم اب تک نسلی امتیاز سے باہر ہی نہیں آئے۔

ہماری سڑکوں، ڈیمز، فلائی اوورز اور پل وغیرہ کے نام افتتاح کرنے والی پارٹی کے لیڈر یا کسی قومی شخصیت کے نام سے منسوبہوتا ہے۔ یہاں بڑے بڑے پارک بھی مقامی ایبورجنلز کے نام پر رکھے جاتے ہیں۔ نتیجہ کوئیتختِ سڈنییاتختِ کینبراکیبات نہیں کرتا۔ پارلیمان میں وزیراعظم کو مخاطب کر کے ریجنل آسٹریلیا کی ترقی سے متعلق سوال کیے جاتے ہیں اور سپیکروزیراعظم سے جواب دلواتا ہے۔

آپ اسے یہود و نصاری کی سازش قرار دے لیں، محتاط منصوبہ سازی یا بہترین حکمت عملی، حقیقت یہی ہے کہ یہ اقوام بیرونی دنیامیں چاہے جو انگشت بازی کرتی پھریں، اپنے گھر میں یہ پوری طرح سے فوکسڈ مرتکز ہو کر بہتری کے راستے نکالتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ترقی پھر ان کا مقدر کیوں نہ بنے؟

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply