ایک اور ” دو قومی نظریہ”/انوار احمد

قیام پاکستان کے جواز کے لیے مسلم لیگ کی قیادت نے” دو قومی نظریہ ” پیش کیا جس کی توجیہہ یہ تھی کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں اور انکا ساتھ رہنا ممکن نہیں ،لہذا مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک پاکستان کی مانگ ہوئی جس کے نتیجے میں قیام پاکستان عمل میں آیا۔ اب یہ ایک الگ بحث ہے کہ مذکورہ دو قومی نظریہ مشرقی پاکستان اور بنگلہ دیش کے سفر میں کہیں کھوگیا ۔

 

 

یا یہ کہ حصولِ  پاکستان کے بعد بھی اس نظرئیے کے پرچار کی ضرورت باقی رہی، اب ہم کن  دو قوموں کی بات کررہے ہیں اب تو مملکت خداداد میں 97 فیصد مسلمان ہی بستے ہیں، لیکن ہم آج بھی اسی نظرئیے پر قائم ہیں اور اسی کی تشہیر جاری ہے  ۔

قائد کی وہ مشہور تقریر جس میں انہوں نے نوزائیدہ ملک پاکستان میں غیر مسلموں کو ان کے مذہبی حقوق دینے اور انہیں برابر کا شہری ہونے کی ضمانت دی تھی انکی رحلت کے بعد متنازع  بنادی گئی اور آج کے پاکستان میں اسکے برعکس جس طرح اقلیتوں( میں ان کو اقلیت کہنا ان کی توہین سمجھتا ہوں اور غیر مسلم پاکستانی کہنا زیادہ بہتر سمجھتا ہوں ) کے ساتھ ہمارا مجموعی رویہ ہے اور مملکت خدادا میں جس طرح غیر مسلم پاکستانیوں  کے حقوق کی پائمالی ہورہی ہے وہ نہ تو قائد کی سوچ تھی اور نہ ہی آئین پاکستان اسکی اجازت دیتا ہے۔

وطن عزیز میں غیر مسلموں کی عبادت گاہ، گھروں اور املاک پر منظّم گروہی  حملے ہو رہے ہیں۔ کمسن ہندو بچیوں کو” مشرف بہ اسلام ” کرکے ان سے شادیاں رچائی جارہی ہیں۔ ان واردات کے پیچھے سندھ کا معروف پیر میاں مٹھو جو صرف پیر ہی نہیں ایک وڈیرہ اور سیاسی جوڑ توڑ کا ماہر بھی ہے ۔ پیر صاحب صرف کمسن ہندو لڑکیوں کو ہی ” مسلمان ” بنا نے   میں دلچسپی رکھتے ہیں، حیرت ہے پیر صاحب کبھی کسی عمر رسیدہ غیر مسلم مرد یا کسی بزرگ خاتون کو دائرہ اسلام میں نہیں لا سکے۔

اسی طرح ملک میں عیسائی  بچیوں پر بھی جبری مذہب کی تبدیلی اورکسی مسلمان لڑکے سے ” شادی” کے واقعات کی بازگشت بھی آئے دن سنائی دیتی ہے ۔ اس کے علاوہ عیسائیوں پر توہین مذہب،اہانتِ رسول ﷺ  اور مختلف الزامات کے تحت قتل اور انکی املاک کو نذر آتش کردینے کے واقعات کوئی نئی بات نہیں جبکہ ہر بار تحقیقی کمیٹیوں کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ توہین مذہب کے ان الزامات کے محرکات کچھ اور ہی تھے لیکن اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے سب سے آسان نسخہ توہین مذہب اور بلاسفیمی کا الزام ہوتا ہے جس کی آڑ میں ان بیچاروں پر عرصہ حیات تنگ کردیا جاتا ہے اور کوئی کچھ نہیں کر سکتا ۔ کیا آج تک بلاسیفی کا جھوٹا الزام لگانے والے کسی فرد کو کوئی سزا ہوئی ہے ؟جو ایک شرعی تقاضا ہے۔

یورپ میں اگر کہیں قرآن پاک کی بے حرمتی ہو یا اہانت مذہب کا واقعہ ہو تو ہمارے” غیور” مسلمان بھائی جوق در جوق سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور اپنی ہی املاک کو برباد کرڈالتے ہیں تو کبھی پورپی ممالک سے سفارتی  تعلقات توڑنے اور انکے سفیروں کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن جب یہی عناصر دوسرے مذاہب کی توہین انکی عبادت گاہ اور مقدس کتابوں کو نذر آتش کردیتے ہیں تو ان پر کوئی بلاسفیمی کا قانون نافذ نہیں ہوتا اور کوئی سیاست دان اور نہ ہی کوئی مذہبی رہنما ان واقعات پر کُھل کر بولنے کی جسارت کرتا ہے، بس لے دے کے سول سوسائٹی اور سوشل میڈیا کچھ آواز اٹھاتے ہیں لیکن انکی آواز کی حقیقت نقار خانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی، پھر چند روز بعد کوئی نیا واقعہ پیش آجاتا ہے اور لوگ پچھلے واقعہ کو بھول جاتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ جڑانوالہ واقعہ کیا کوئی آخری واقعہ ہوگا ؟؟؟ کیا اب کوئی میاں مٹھو کسی اور کمسن ہندو لڑکی کو دائرہ اسلام میں داخل کرکے دارالامان نہیں پہنچائے گا ؟

ان انتہا پسند جنونیوں کے شر سے شیعہ برادری اور دیگر مسالک بھی محفوظ نہیں۔ کوئٹہ اور اسکے اطراف میں ہزارہ برادری کو آئے دن بربریت کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے ۔ گلگت اور بلتستان میں اکثر فرقہ واریت اور تناؤ کی کیفیت رہتی ہے ۔

غرض یہ کہ ملک میں آباد غیر مسلم ایک خوف کی فضا میں رہتے ہیں ۔ اسی طرح دوسرے مسالک کے افراد بھی محفوظ نہیں ۔ جب جس کا جی چاہے کسی کو بھی ” کافر” قرار دے کر قتل کردے ۔۔ اور کوئی شنوائی بھی نہیں ہوتی ۔

اس صورتحال کے پیش نظر وہ غیر مسلم پاکستانی جو صاحبِ حیثیت تھے  ملک سے ہجرت کرگئے ۔

ملک کی انتہائی امن پسند کمیونٹی پارسی چونکہ اعلیٰ  تعلیم یافتہ اور پُر امن لوگ تھے، وہ خاموشی سے بیرون ملک جابسے ۔ اسی طرح جو چند ہزار یہودی خاندان یہاں تھے انہوں نے بھی آنے والے خطرات کا ادراک کرلیا اور وہ یورپی ممالک اور اسرائیل منتقل ہوگئے ۔

قادیانیوں نے پاکستان کی تحریک اور قیام پاکستان میں اہم کردار ادا کیا ۔ سر ظفر اللہ خان نے بین الاقوامی عدالت انصاف میں پاکستان کی نمائندگی کی ۔ اس کمیونٹی کے افراد نے فوج اور دیگر اداروں میں اہم خدمات انجام دیں اور ملکی   تعمیرو ترقی  میں اپنا کردار ادا کیا ۔ایک قادیانی ڈاکٹر عبدالسلام نے عالمی برادری میں پاکستان کا سر بلند کیا اور نوبیل پرائز کے حقدار ٹھہرے۔ شاید کم ہی لوگ جانتے ہوں کہ مراکش کی آزادی میں پاکستان نے ایک اہم کردار اد کیا جس کے لیے مراکشی آج بھی ہاکستان سے عقیدت رکھتے ہیں۔ سنہ 1952  میں اسی قادیانی سر ظفر اللہ خان نے اقوام متحدہ میں مسلمان مراکشی مندوب کو ایک رات میں پاکستانی پاسپورٹ جاری کیا جس کی وجہ سے وہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں اپنے ملک کی آزادی کے لیے خطاب کرسکا اور مراکش آزاد ہوگیا ۔ لیکن ہم نے محض فرقے کی بنیاد پر انکی تمام خدمات کو مسترد کردیا۔ ہم نے تو ڈاکٹر عبدالسلام کی قبر کو بھی نہیں بخشا جنہوں نے وصیت کی تھی کہ انہیں پاکستان میں دفن کیا جائے لیکن انکی قبر کے کتبے پر سیاہی مل دی ،یہی نہیں احمدیوں کے قبرستان کو بھی مسمار کردیا گیا ۔ انکی عبادت گاہ پر خودکش حملے کیے اور سینکڑوں بے گناہ اور معصوم عورتوں اور بچوں کو موت کی نیند سلادیا۔ جب آئین پاکستان کے مطابق انہیں غیر مسلم قرار دیا جاچکا ہے تو پھر کیا جواز باقی بچتا ہے کہ ان پر عرصہ حیات بھی تنگ کردیا جائے۔ کم از کم ایک پاکستانی شہری کے ہونے کے ناطے آئین میں درج وہ حقوق تو دئیے جائیں جو مملکت کے دوسرے شہریوں کو دئیے گئے ہیں۔

صوبہ پختون خوا  میں متعدد سِکھوں کو بے دردی سے قتل کردیا گیا ۔۔
فہرست بہت طویل ہے لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہماری اکثریت انتہائی تنگ نظر ۔ متشدد اور کسی دوسرے فرقے،مسلک، مذہب اور عقیدے کے لوگوں کو قطعی برداشت نہیں کرتی اور نہ ہی ان کو آئین پاکستان میں درج برابری کے حقوق دینے اور ان کو اپنی  مذہبی رسوم ادا کرنے کی آزادی دیتی ہے ۔ابھی حال ہی میں جڑانوالہ واقعات سے متعلق حکومت  ینجاب کے ایک اعلامیے میں ان مظلوم عیسائیوں کو ” ذمی ” قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اسلام میں ذمی کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے اگر وہ برابر کے شہری نہیں محض ذمی ہی ہیں تو کیوں نہیں “اسلامی جمہوریہ پاکستان” کے آئین میں ترمیم کرلیتے اور تسلیم کرلیں کہ غیر مسلم برابر کے شہری نہیں اور نہ ہی ان کے حقوق یکساں ہیں، کیا یہ ایک حقیقت نہیں ہے  کہ ہمارے آئین کے مطابق مملکت پاکستان کا صدر اور وزیراعظم صرف مسلمان ہی ہوگا ۔ کیا صرف یہی شِق  یہ ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں کہ غیر مسلم برابر کے پاکستانی نہیں۔ ؟کیا کسی ادارے کا سربراہ یا کوئی کلیدی عہدیدار کوئی غیر مسلم ہے علاوہ چند نمائشی وزیروں اور مشیروں کے جو سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ہم تو عام بول چال میں بھی عیسائیوں کو ” چوہڑے” ہی کے نام سے جانتے ہیں، ہم انکے ساتھ یا انکے برتن میں کھانا پینا بھی معیوب سمجھتے ہیں ۔ جبکہ ہم بار بار سنتے ہیں کہ کسی مسلمان کا ایمان حضرت مسیح اور بائبل مقدس کو مانے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ بار بار یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسلام اقلیتوں کے ساتھ حُسن سلوک کی تعلیم دیتا ہے۔اور اہل کتاب کے ساتھ کھانے پینے کی اجازت بھی دیتا ہے۔ لیکن معاف کیجیے ہمارا عمل اس سے بالکل مختلف ہے ۔

اگر یہ ساری باتیں واقعی ہمارے ایمان کا حصہ ہوتیں تو ہم نے ان مذہبی انتہاپسندوں کا اب تک قلع قمع کردیا ہوتا جو اسلام کو اپنے مذموم مقاصد کےلئے استعمال کررہے ہیں۔ اور اگر آپ ان کی روک تھام کےلئے کچھ نہیں کر پائے تو مجھے کہنے دیں کہ ہم بھی انہی  کی  ایکسٹینشن ہیں۔

یہ نہ بھولیں کہ  یہ اکیسویں صدی ہے اگر ردِعمل کے طور پر یورپ اور غیر اسلامی ممالک بھی وہاں مقیم پاکستانیوں کے ساتھ کچھ ایسا ہی سلوک کریں تو آپ کو کیسا محسوس ہوگا؟ وہ جو بلا تفرق مذہب رنگ و نسل آپکو برابر کے حقوق دیتے ہیں۔ شہریت بھی دیتے ہیں اور آپکی ترقی میں رکاوٹ بھی نہیں ڈالتے، ذرا ان کا مقابلہ اپنے نام نہاد مسلم اُمہ کے ممالک سے موازنہ تو کریں جو آپ کو ” مسکین اور رفیق ” کی اصطلاحات سے نوازتے ہیں اور توہین آمیز سلوک بھی کرتے ہیں ۔

جس طرح آزادی سے پہلے قیام پاکستان کے حصول کے لیے دو قومی نظریہ کی توجیہ پیش کی گئی تھی جس کی رو سے ہندو اور مسلمان دو علیحدہ قومیں ہیں اور انکا ساتھ رہنا ممکن نہیں تھا بالکل اسی طرح کیا آج پاکستان میں مقیم غیر مسلموں پر ایک اور ” دو قومی نظریہ ” کے تحت یہاں سے کسی دوسرے ملک ہجرت یا پناہ گزینی اختیار کرلینا واجب نہیں ہوجاتا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

وطن سے محبت اور وطنیت کے تصور کے لیے ضروری ہے کہ اس میں بسنے والے تمام باشندوں کے جان و مال کی حفاظت، عزت و ناموس کا تحفظ   ،انکی  مذہبی رسومات کی ادائیگی کی آزادی اور تعلیم و ترقی اور حصول روزگار میں برابر کی بنیاد پر مواقع ملنے ہی سے مشروط ہے اگر کسی شہری کو یہ میسر نہیں تو کیا وہ ایمانداری سے یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ کب تک محب وطن رہ سکے گا اور کسی ایسے ملک ہجرت پر مجبور نہیں ہوجائیگا جہاں اگر یہ تمام مواقع نہیں تو ان میں سے چند ہی مل سکیں اور کم از کم جان ہی محفوظ رہے تو اسے یہ تو اطمینان رہتا ہے کہ چلو یہ اپنا وطن نہیں ہے۔ حب الوطنی بے شک اہم ہے لیکن انسان اپنے سامنے اپنے لوگوں پر جبر اور اپنی پونجی کو جب جلتا دیکھے گا تو سارے بھاشن اور حب الوطنی ہوا میں اُڑجاتے ہیں اور وہ یہی کہتا نکل جاتا ہے ” پاکستان سے زندہ بھاگ”۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply