امریکہ کے رنگ، بے رنگ/ڈاکٹر مجاہد مرزا

مثل برگ اوارہ’سے

سہیل نیویارک شہر دکھانے لے تو جاتا تھا مگر اس کا مسئلہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے بے توجہی تھا۔ ایسا کئی بار ہوا کہ جو دخول شہر میں لے جاتا تھا وہ اس سے آگے نکل گیا۔ زیادہ ٹریفک والے ملکوں میں مڑنے کی راہ کئی کئی کلومیٹر کے بعد ہی مل پاتی ہے۔ میں اس کے ساتھ سفر کرتے ہوئے اس سے اکثر پوچھتا تھا، ” سہیل دیکھو کہیں آگے تو نہیں نکل گئے؟” اس پر وہ جھنجھلا کے کہا کرتا تھا ،” مانا جی! آپ مجھے کنفیوز کر رہے ہیں” اس کے باوجود وہ آگے نکل ہی جایا کرتا۔

علی نے اپنی امریکہ زدہ اردو میں جب پہلی بار پوچھا تھا،” آپ مال میں گئے ہیں” تو مجھے یہی لگا تھا کہ وہ کسی سڑک کی بات کر رہا تھا اور حرف جار کے سلسلے میں غلطی۔ وجہ یہ تھی کہ روس میں تب “شاپنگ مال” نہیں ہوتے تھے۔ جو دو ایک تھے بھی انہیں وہاں ” ترگووے سنتر” یعنی کمرشل سنٹر کہا جاتا۔ میں نے جواب میں کہا تھا کہ نہیں ، میں نہیں گیا۔ “اوہ! ٹین منٹس، میں آپ کو لے کے جاٹا ہوں”۔ دس منٹ بعد خاصی دیر گاڑی چلانے کے بعد ہم جہاں پہنچے تھے وہ یہی “کمرشل یا ٹریڈ سنٹر” تھا، تب مجھے معلوم ہوا تھا کہ امریکہ میں ایسے مقامات کو “شاپنگ مال” کہا جاتا ہے۔

ایک روز ایسے ہی ایک ٹرپ پر عمر بھی ساتھ تھا۔ عمر سعد کا منجھلا بیٹا تھا، جس کی اٹھک بیٹھک افریقی امریکی لڑکوں لڑکیوں کے ساتھ تھی۔ اس لیے اس نے انداز بھی انہی  جیسے اختیار کر لیے تھے۔ اسے اردو بہت واجبی سی آتی تھی۔ اس نے مال سے اپنا ایک کان چھدوایا تھا اور میرے پیچھے پڑ گیا تھا کہ ” انکل آپ بھی گیٹ دا پیرسنگ ڈن، یو ول لوک سو کول”۔ میں بمشکل اس کی اس بے جا ضد سے خود کو مرخصی کروا پایا تھا۔ عمر جھوٹوں کا پٹا تھا۔ کھڑے کھڑے آپ کے سامنے آپ کے بارے میں اس اعتماد سے جھوٹ بول دیا کرتا کہ ایک لمحے کو تو آپ کو اپنے بارے میں ہی کہی گئی جھوٹی بات سچی لگنے لگتی تھی۔

عمر کچھ زیادہ ہی بدتمیز واقع ہوا تھا۔ اپنی ماں کے ساتھ اس کا رویہ امریکہ کے بگڑے ہوئے بچوں کا سا ہوتا۔ اس کی ماں نذہت بھی اس کے ساتھ وہی رویہ روا رکھتی تھی جو امریکی ماؤں کا ہوتا ہے یعنی براہ راست مبنی بر مبارزہ آرائی۔ ایک روز دوسری منزل پر ماں بیٹے کے درمیان توتکار ہوئی اور خاموشی چھا گئی تھی۔ میں جو گراؤنڈ فلور پر لاؤنج میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا، یہی سمجھا تھا کہ معمول کی جھڑپ تھی۔ چند منٹ کے بعد باہر کے دروازے کی گھنٹی بجی تھی جس پر میں نے جا کر دروازہ کھولا تھا۔ باہر موجود منظر کو دیکھ کر لمحے بھر کے لیے تو میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے تھے کیونکہ دو پولیس والوں نے پستول تانے ہوئے تھے اور ٹانگٰیں پھیلائے، گھٹنے جھکائے عمل کے لیے تیار کھڑے تھے۔ مجھے پٹ کی اوٹ میں دیکھ کر ایک پولیس والے نے چیخ کر کہا تھا،” سامنے آ جاؤ، ہاتھ پیچھے کر لو” میں نے ایسے ہی کیا تھا۔ ان میں ایک شست باندھے ہوئے اور دوسرا پستول کو ہولسٹر میں ڈال کر اپنی پیٹی سے بندھی ہتھکڑی ہاتھ میں لیے آگے بڑھے تھے۔ جب وہ میرے نزدیک پہنچے تو میں نے کہا تھا،” وہ میں نہیں ہوں بلکہ وہ کم عمر لڑکا ہے”۔ اتنے میں نذہت بھی انتباہ سن کر زینے پر آ چکی تھی۔ اس نے پولیس والوں سے کہا تھا،” وہ اوپر ہے اور غیر مسلح ہے، میں اسے لے کر آتی ہوں”۔ نذہت عمر کو لے آئی تھی جو کمر کے پیچھے ہاتھ باندھے ہوئے تھا۔ پولیس والا اس کو ہتھکڑی لگانے تک چوکس اور پستول بردار رہا تھا۔ مجھ سے پولیس والے نے معذرت کی تھی اور عمر کو ساتھ لے کر چلے گئے تھے۔ عمر کے انداز سے لگا تھا کہ یہ پہلی بار نہیں جب اسے پولیس لینے پہنچی تھی۔ تھوڑی دیر بعد نذہت بھی معاملہ نمٹانے کی خاطر اپنی گاڑی میں سوار ہو کر نکل گئی تھی۔

مجھے قانون کی اس قدر پاسداری کچھ عجیب سی لگی تھی۔ یہ قانون کی پاسداری کم اور خاندانی معاملات میں مداخلت کرنا زیادہ لگتا تھا لیکن اس طرح پولیس گھروں میں ہونے والے تشدد کے خلاف کمر بستہ رہتی تھی۔ قانون کی بے جا اگر اسے بے جا کہا جا سکتا ہے، پابندی بعض اوقات معاملات سنوارنے کی بجائے بگاڑنے کا موجب بنتی تھی۔

میں چونکہ کہیں کام نہیں کرتا تھا۔ گھر میں بیٹھا ٹی وی دیکھتا رہتا یا وسیع و عریض صحن میں چہل قدمی کرتا تاکہ ٹانگیں جم کر نہ رہ جائیں۔ میں نے ایک چینل پر ایک البانوی ماں باپ کی المناک کہانی دیکھی تھی۔ البانوی اپنی بیوی اور دو بچوں کو لے کر امریکا پہنچا تھا تاکہ اپنے خوابوں کی تکمیل کر سکے۔ بیٹا بڑا تھا کوئی چھ سال کا اور بیٹی چھوٹی کوئی چار سال کی۔ بیٹے کو کنگ فو سیکھنے کا شوق تھا۔ باپ نے اسے کنگ فو سکھانے کے سکول میں داخل کرا دیا تھا۔ البانوی مرد اور خاتون نے محنت کرکے ایک پتسیریا سے دو پتسیریا بنا لیے تھے۔ ایک روز بچی نے کہا تھا کہ وہ بھائی کو کنگ فو کھیلتے دیکھنا چاہتی ہے۔ اس روز اس سکول میں اظہاریے کی کوئی تقریب تھی۔ باپ اپنی بچی کو لے کر پہنچا تھا۔ کھیل کے دوران وہ اپنی بچی کو پچکارتے ہوئے لاڈ پیار بھی کرتا رہا تھا۔ ایک خاتون سب لوگوں کی وڈیو بنا رہی تھی۔ بچی بھائی کو کھیلتا دیکھ کر خوش تھی۔ دو روز بعد پولیس اور سوشل سکیورٹی والے آئے تھے۔ بچی اور بچے کو والدین سے جدا کر کے لے گئے تھے اور باپ کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ الزام اس وڈیو کو دیکھ کر لگایا گیا تھا کہ باپ بچی سے جنسی زیادتی کا مرتکب ہوا ہے۔ بچوں کی ماں نے ایک مستشرق خاتون پروفیسر کی خدمات حاصل کی تھیں۔ باپ کی ضمانت تو ہو گئی تھی لیکن لوگ اس پر شک کرنے لگے تھے۔ اس کی آمدنی گھٹنے لگی تھی۔ انہیں ایک پتسیریا بند کرنا پڑا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

باپ کو تو بچوں سے ملنے کی اجازت ہی نہیں تھی۔ ماں ایک بار جب بچوں سے ملنے گئی تو بچوں نے شکایت کی تھی کہ رضائی والدین نے انہیں لحم خنزیر کھلایا ہے۔ ان کے گلوں میں بھی زنجیروں میں ٹکی آرائشی صلیبیں آویزاں تھیں۔ عدالت میں شکایت کی گئی تو بچوں کو دوسرے رضائی والدین کے حوالے کر دیا گیا لیکن ماں کی بچوں کے ساتھ ملاقات کا وقفہ بھی بڑھا دیا گیا تھا۔ جب تک پروفیسر نے عدالت میں ثابت کیا کہ باپ کا بچی کو پچکارنا ان کے ملک کی روایات کے عین مطابق تھا کیونکہ وہاں بچوں سے تعلق کا اظہار اسی طرح کیا جاتا ہے تب تک بچوں کی اپنی ماں سے بھی مغائرت بڑھ چکی تھی۔ اس پروگرام میں البانوی باپ نے بتایا تھا کہ میرا خواب تو کیا پورا ہونا تھا الٹا یہاں آ کر میرا گھر اجڑ گیا۔ بچے رضائی والدین کے پاس رہنے میں خوش تھے اور بیوی بچوں کی دوری کے سبب شوہر سے نالاں ہو کر طلاق لینے کا مطالبہ کرنے لگی تھی۔ یہ تھی کچھ لوگوں کے لیے خوابوں کی تکمیل کی سرزمین ریاست ہائے متحدہ امریکہ۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply