لکیر کے اس پار۔۔رؤف الحسن

جب بھی کہیں انسانی حقوق کی پامالی کا مسئلہ جنم لیتا ہے، خصوصاً جب وہ انسان مسلمان بھی ہوں، تو ایک سوال ہمیشہ درپیش آتا ہے کہ ایک عام انسان اس معاملے پر کیا رویہ اختیار کر سکتا ہے؟
اسرائیل و فلسطین کے تنازعے کی بحث طویل اور کھوج طلب ہے۔ دونوں قوموں کے پاس مذہبی و تاریخی حوالوں سے دلائل ہیں۔ فلسطینی مسلمان برطانوی سامراج کے دور میں کیے گئے آزادی کے وعدوں اور اپنی عددی طاقت کی بنیاد اس زمین کے دعوے دار ہیں تو یہودی بالفور ڈیکلریشن کو اپنی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس لیے یہاں یہ بحث مقصود نہیں۔ پیش نظر وہ ان انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں کہ جس کا ایک عرصے سے کمزور فلسطینی سامنا کر رہے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ وسائل کی اس دنیا میں مغرب مسلمانوں سے کہیں آگے ہے۔ یہ ماننا پڑے گا کہ مغرب آج جس ترقی پر نازاں ہے، وہ محض سائنسی علوم کی بنیاد پر ہی ممکن ہو سکا۔ علم اپنے ماننے والوں اور اپنے قبول کرنے والوں کو کبھی رسوا نہیں کرتا۔ یہ وسائل کی کمیابی ہی ہے کہ خود مسلمان ہی مسلمانوں کو یہ طعنہ دکھائی دیتے ہیں کہ ہمارے پاس واحد ہتھیار دعا ہے۔

چھ سالہ رحف المصری جو اسرائیلی بمباری میں شہید ہو گئی.

ایسے مواقع پر مجھے بچپن میں قصص الانبیاء میں پڑھا وہ واقعہ یاد آ جاتا ہے کہ جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے لیے آگ کے شعلے بلند کیے گئے تو گرگٹ اپنی پھونکوں سے اس آگ کو مزید بھڑکانے کی کوشش کرتا اور چڑیا اپنی چھوٹی سی چونچ میں پانی بھر کر آگ بجھانے کی سعی کرتی۔ ہر واقعے کو محض اپنی عقل کی کسوٹی پر پرکھنے والوں کے لیے نہیں معلوم یہ بات حقیقت و فسانے کے ترازو میں کس پلڑے کو جھکائے لیکن اس کا سبق بڑا عبرت آموز ہے۔ کیا گرگٹ کی پھونکوں سے آگ کو کوئی فائدہ ہوا؟ شاید نہیں۔ اور کیا چڑیا کے ٹپکائے گئے چند قطروں نے آگ بجھائی؟ بالکل نہیں۔ ان دونوں نے وہ کیا جو ان کے بس میں تھا۔ اس سے زیادہ کرنے کی ہمت نہ گرگٹ میں تھی نہ چڑیا میں۔ لیکن اس کوشش نے ان دونوں کے درمیان حق و باطل کی ایک ان مٹ لکیر کھینچ دی۔چھ سالہ رحف المصری جو اسرائیلی بمباری میں شہید ہو گئی۔ اس سوال کا جواب کہ ہم اس وقت فلسطین کے لیے کیا کر سکتے ہیں خود ہمارے اندر پنہاں ہے۔ ہم کچھ نہیں بھی کر سکتے تو جو اپنے بس میں ہے وہ تو پیش کر سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ کھلے لفظوں میں نہیں تو ڈھکے چھپے لفظوں میں ہی، آواز تو اٹھا سکتے ہیں نا۔ جو لکھ سکتے ہیں وہ لکھائی کے ذریعے۔ جو بول سکتے ہیں، وہ ویڈیو پیغامات کے ذریعے۔ جو سفارتی فورم پر کچھ کر سکتے ہیں، وہ اپنی کوششوں کے ذریعے۔ اور جو کچھ بھی نہیں کر سکتے، وہ دعا کے ذریعے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سوال پوچھا جاتا ہے کہ کیا اس لکھنے سے، ان ویڈیوز سے، سفارتی کوششوں سے اور خاموش دعاؤں سے فلسطینیوں پر ظلم ختم ہو جائے گا۔ اس کا جواب کیا ہے اسے ابھی چھوڑے دیتے ہیں کہ اس سوال و جواب سے دور کہیں بہت دور حق و باطل کی ایک لکیر کھینچی جا رہی ہے۔ شاید لکیر کے ایک طرف اسرائیلی بمباری میں شہید ہونے والی چھ سالہ رحاف المصری بھی کھڑی مسکرا رہی ہو۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ایسے موقعوں پر آنکھیں بند کیے رکھنے والے لکیر کے کس پار ہوں گے؟
اُف!

Facebook Comments

Rauf Ul Hassan
I do not consider myself a writer. Instead, I am a player. As one of my friend s said: "You play with words. " He was right. I play, and play it beautifully.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply