ہم نے فلسفہ اور علم کی تحلیل کر کے دونوں کو علمی انداز سے سمجھا اور آخر میں اس نتیجے تک پہنچے کہ علم وہی چیز قرار پائے گی جو تینوں ذرائع علم سے ثابت ہو۔ اس کے علاوہ تمام چیزیں غیر علم ہوں گی۔ لیکن اس ساری بحث سے صرف ِنظر، انسان بہت سی خواہشات لے کر پیدا ہوا ہے۔ انسان کی عقل یا خواہشات پر تالے نہیں لگائے جا سکتے۔ انسان اپنی اور اس کائنات کی اصل توجہی کرنا چاہتا ہے لیکن محدود علم کی وجہ سے وہ اصل حقیقت تک نہیں پہنچ سکا۔
تاہم انسانی خواہشات اور عقل ایک حقیقت ہے۔ جہاں عقل محدود ہے تو دوسری طرف خواہشات لامحدود ہیں۔ انسان کو اسی چیز کا پچھتاوا ہے کہ اس کی عقل ناقص اور خواہشات لامحدود ہیں۔ خواہشات بہت سی ہو سکتی ہیں لیکن انسان کی سب سے بڑی خواہش اپنی اور کائنات کی توجہی کرنا ہے۔ اس سارے پس منظر کے بعد کچھ عقلی سوالات اٹھتے ہیں۔ وہ یہ کہ انسان کو معنویت کی تلاش نہیں کرنی چاہیے۔ بس ایک سفر ہے اور چلتے رہنا چاہیے۔ لیکن غور کریں تو یہ انسان کا اعتراف عجز ہے۔
یہ اس مزدور کی مثال ہے جو ہر روز مزدوری کی تلاش میں نکلا کرتا تھا لیکن اسے مزدوری نہیں ملتی تھی تو اس مزدور نے سوچا کہ اچھا ہے خاک ہی چاٹتے ہیں۔ اسی طرح جب انسان نے اس کائنات کی توجہی کرنا چاہی تو نہیں کر سکا۔ اس کے بعد انسان نے خود اعتراف عجز کیا۔ فلسفہ کا وجود میں آنے کا یہی سبب بنا جب انسان کے پاس علم اور ذرائع علم محدود تھے تو انسان نے عقل سے فلسفہ تراشنا شروع کیا کہ کہیں نہ کہیں حقیقت کی دریافت زیادہ نہیں تو کم ہی سہی کر لے گا۔
لیکن ہم جانتے ہیں کہ فلسفہ کی دو اڑھائی ہزار سالہ تاریخ میں فلسفہ کو شدت سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انسان کی دوسری کوشش یہ ہو سکتی تھی کہ کہیں سے چوتھا ذریعہ علم دریافت ہو جائے جس سے حقیقت تک پہنچا جا سکے۔ زیادہ سے زیادہ انسان نے روحانی و باطنی مشاہدہ سے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کی۔ جس کے بعد مراقبے اور چلے وغیرہ سے ماورائی دنیا سے رابطہ کی کوشش ہے۔ لیکن اس میں بھی ایک علمی خامی ہے وہ یہ کہ مراقبہ و مشاہدہ سے ہر شخص حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا بلکہ جس کو روحانی تجربہ ہوا ہے وہی جان سکتا ہے۔
دوسری علمی خامی یہ ہے کہ روحانی مشاہدہ کو تینوں ذرائع علم سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً سائنسی طریقہ کار کے مطابق اس کا لیبارٹری یا ظاہر تجربی و مشاہدہ نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً اگر کوئی صوفی اپنے مشاہدے کے نتائج ظاہر میں رکھ کر تینوں ذرائع علم سے پرکھے تو شاید بات کسی حد تک علم کی دنیا میں قابل قبول ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو دنیا میں بہت سے صوفیاء اپنے اپنے تجربات بیان کرتے ہیں۔ مثلاً ہم کسی ایک بات کی مثال لیتے ہیں کہ جب صوفیاء سے پوچھا جائے کہ ان کو خدا کا دیدار ہوا ہے تو ہم کیسے یقین کریں؟
تو جواب میں صوفیاء کرام کا بیانیہ ہے کہ آؤ ہمارے ساتھ چلہ اور مراقبہ کرو ہم آپ کو خدا دکھاتے ہیں۔ مطلب روحانی مشاہدہ کو بھی تینوں ذرائع علم سے نہیں گزارا جاسکتا بلکہ یہ ایک انفرادی تجربہ ہے۔ جو علم کی دنیا میں قابل قبول نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ اگر کوئی سائنسدان کسی نئے بیکٹیریا کو تلاش کر لے لیکن یہ اس کا اب تک انفرادی تجربہ ہے یہ اس وقت تک مسلمہ قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک سائنسدانوں کی اکثریت اس کا تجربہ نہ کر لے۔
سائنس یا علم کی دنیا میں وہی بات درست یا قابل قبول قرار پاتی ہے۔ جو تمام لوگوں کے تجربہ و مشاہدہ سے گزرے لیکن تصوف میں اس کے برعکس ایک انفرادی تجربہ و مشاہدہ بیان کیا جاتا ہے۔ انفرادی تجربہ و مشاہدہ اس وقت تک مسلمہ قرار نہیں پاتا جب تک سائنس کی طرح لیبارٹری ٹیسٹ سے یا علم و عقل کی روشنی سے نہ گزر جائے۔ انفرادی تجربہ علم کی دنیا میں کمزور ترین دلیل سمجھی جاتی ہے۔ دوسری صورت میں ایک ہی تجربہ تمام سائنسدانوں یا لوگوں کو ہو اور نتائج بتدریج یکساں ہوں تب ہی اس کو قبول کیا جاتا ہے۔
لیکن اس کے برعکس اہل تصوف کے تجربات میں یکسانیت نہیں بلکہ ہر صوفی اپنے اپنے تجربات بیان کر رہا ہے۔ اگر تمام اہل تصوف کے نتائج کا جائزہ لیا جائے تو ان میں بھی تضاد ہے۔ تاہم اہل تصوف کے ہاں نتائج یکساں بھی ہو جائیں تب بھی یہ قابل قبول نہیں کیونکہ یہ انفرادی تجربات ہیں یہ ایسا ہی ہے کہ مجھے رات کو سوتے ہوئے خواب میں خدا سے ملاقات ہو جائے اور میں دنیا کو بتا دوں لیکن میرے اس تجربے کو انفرادی حیثیت ہی حاصل ہے۔
مجھے تینوں ذرائع علم استعمال کرتے ہوئے اپنے خواب کو سائنٹی فکلی ٹیسٹ سے گزار کر مسلمہ بنانا ہو گا۔ ورنہ میرا یہ تجربہ انفرادی ہے مسلمہ نہیں۔ اس وقت تک فلسفہ اور علم تصوف علم کے تینوں ذرائع سے ثابت نہیں ہوتے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان کو کسی چوتھے ذریعہ علم کی تلاش کرنی چاہیے یا علم کی دنیا میں ہار مان کر اپنی آنکھ بند کر لے۔جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں